Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

اتر پردیش کےوارانسی میں سَوروِید مندر کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

اتر پردیش کےوارانسی میں سَوروِید مندر کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن


شری سدگورو چرن کملیبھؤ  نم!

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی مہندر ناتھ پانڈے جی، اتر پردیش حکومت کے وزیر بھائی انل جی، سدگرو آچاریہ پوجیہ شری سواتنتر دیو جی مہاراج، پوجیہ شری وگیان دیو جی مہاراج، دیگر معززین، ملک بھر میں آئے تمام عقیدت مندوں اور میرے پریوار جنو!

آج کاشی میں میرے قیام کا دوسرا دن ہے۔ ہمیشہ کی طرح، کاشی میں گزرا ہر لمحہ اپنے آپ میں شاندار ہے، حیرت انگیز تجربات سے بھرا ہوا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، دو سال پہلے ہم اکھل بھارتیہ ویہنگم یوگ سنستھان کی  سالانہ تقریب میں اسی طرح یکجا  ہوئے تھے۔ مجھے ایک بار پھر ویہنگم یوگ سنت سماج کی صد سالہ تقریبات کے تاریخی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ ویہنگم یوگ سادھنا کے اس سفر نے اپنا 100 سال کا ناقابل فراموش سفر مکمل کر لیا ہے۔ مہارشی سداپھل دیو جی نے پچھلی صدی میں علم اور یوگ کی روشنی کی امر مشعل  روشن کی تھی۔ ان سو سالوں کے سفر میں، اس  امر مشعل نے ملک اور دنیا کے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل دی ہیں۔ اس پرمسرت موقع پر یہاں 25 ہزار کنڈیا سَوروید گیان مہایگیہ کا بھی انعقاد کیا جا رہا ہے۔ مجھے خوشی ہے، مجھے یقین ہے کہ اس مہایگیہ کی ہر قربانی ترقی یافتہ ہندوستان کے عزم کو مزید مستحکم  کرے گی۔ اس موقع پر میں مہارشی سداپھل دیو جی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور پوری عقیدت کے ساتھ ان کے تئیں اپنے دلی جذبات کو نذر کرتا ہوں۔ میں ان تمام سنتوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جو اپنے گرو کی روایت کو مسلسل آگے بڑھا رہے ہیں۔

میرے پریوار جنو!

آپ سنتوں کی موجودگی میں کاشی کے لوگوں نے مل کر ترقی اور اختراع کے کئی نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ حکومت، سماج اور سنت سبھی مل کر کاشی کی بحالی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ آج سَوروید مندر کی تکمیل اس قدرتی جذبے  کی ایک مثال ہے۔ یہ عظیم مندر مہارشی سداپھل دیو جی کی تعلیمات اور تدریس کی علامت ہے۔ جس قدر اس مندر کی روحانیت ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، اسی طرح اس کی عظمت بھی ہمیں حیران کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں خود مندر کی زیارت کے دوران مسحور ہو گیا۔ سَوروید مندر ہندوستان کی سماجی اور روحانی طاقت کی ایک جدید علامت ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ  اس کی دیواروں پر ‘ سَوروید’  خوبصورتی سے کندہ  کیا گیا  ہے۔ ویدوں، اپنشدوں، رامائن، گیتا اور مہابھارت وغیرہ جیسی کتابوں کے قدرتی  پیغامات کو بھی تصویروں کے ذریعے کندہ کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ مندر روحانیت، تاریخ اور ثقافت کی زندہ مثال ہے۔ یہاں ہزاروں عقیدت مند ایک ساتھ ویہنگم یوگ  کی مشق کر سکتے ہیں۔ لہذا، یہ عظیم مندر ایک یوگ تیرتھ بھی ہے، اور ساتھ ہی یہ ایک گیان تیرتھ بھی ہے۔ میں اس شاندار روحانی تعمیر کے لیے سَور مہا مندر ٹرسٹ اور اس کے لاکھوں پیروکاروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں خاص طور پر پوجیہ سوامی شری سواتنتر دیو جی اور پوجیہ شری وگیان دیو جی کو مبارکباد دیتا ہوں، جنہوں نے اس رسم کو پورا کیا۔

میرے پریوار جنو!

ہندوستان ایک ایسی قوم ہے، جو صدیوں سے دنیا کے لیے معاشی خوشحالی اور مادی ترقی کی ایک مثال رہی ہے۔ ہم نے ترقی کے نمونے بنائے ہیں اور خوشحالی کی منزلیں طے کی ہیں۔ ہندوستان نے کبھی بھی مادی ترقی کو جغرافیائی توسیع اور استحصال کا ذریعہ نہیں بننے دیا۔ ہم نے مادی ترقی کے لیے روحانی اور انسانی علامتیں بھی تخلیق کی ہیں۔ ہمیں کاشی جیسے متحرک ثقافتی مراکز سے نوازا گیا، ہم نے کونارک جیسے مندر بنائے! ہم نے سارناتھ اور گیا میں ترغیبی ستوپوں کی تعمیر کی۔ نالندہ اور تکشاشیلا جیسی یونیورسٹیاں یہاں قائم ہوئیں! اس لیے ہندوستان کے ان روحانی ڈھانچے کے آس پاس ہی ہمارا ہنر اور فن،  ناقابل تصور بلندیوں پر پہنچ گیا۔ یہاں سے علم و تحقیق کی نئی راہیں کھلیں، کاروباری اداروں اور صنعتوں سے متعلق لامحدود امکانات نے جنم لیا، عقیدے کے ساتھ ساتھ یوگ جیسے علوم پروان چڑھے، اور یہیں سے پوری دنیا کے لیے انسانی اقدار کے بلاتعطل دھارے جاری ہونے  لگے۔

بھائیو اور بہنو!

غلامی کے دور میں ہندوستان کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے والے ظالموں نے سب سے پہلے ہماری ان علامتوں کو ہی نشانہ بنایا۔ آزادی کے بعد ان ثقافتی علامتوں کی تعمیر نو ضروری تھی۔ اگر ہم اپنی ثقافتی شناخت کا احترام کرتے تو ملک کے اندر اتحاد اور عزت نفس کا جذبہ مضبوط ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ آزادی کے بعد سومناتھ مندر کی تعمیر نو کی بھی مخالفت ہوئی تھی۔ اور یہ سوچ کئی دہائیوں تک ملک پر حاوی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک، احساس کمتری کے بھنور میں چلا گیا اور اپنے ورثے پر فخر کرنا بھول گیا۔

لیکن بھائیو اور بہنو!

آج آزادی کے 7 دہائیوں بعد، وقت کے  پہیے نے  ایک بار پھر گردش کی ہے۔ ملک اب لال قلعہ سے ’غلامی کی ذہنیت سے آزادی‘ اور ’اپنے ورثے پر فخر‘ کا اعلان کر رہا ہے۔ سومناتھ سے شروع ہونے والا کام اب ایک مہم بن چکا ہے۔ آج کاشی میں وشوناتھ دھام کی شان و شوکت ، ہندوستان کی لازوال شان کی داستان سنا  رہی ہے۔ آج مہاکال مہلوک ہماری لافانی ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔ آج کیدارناتھ دھام بھی ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ بودھ سرکٹ تیار کرکے، ہندوستان ایک بار پھر دنیا کو بودھ کے گھر کی دعوت دے رہا ہے۔ ملک میں رام سرکٹس کی ترقی کے لیے بھی تیزی سے کام جاری ہے  اور ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر بھی اگلے چند ہفتوں میں مکمل ہونے والی ہے۔

ساتھیو!

ہم مجموعی ترقی کی طرف اسی وقت آگے بڑھ سکتے ہیں، جب ملک  اس سفر میں اپنی سماجی حقیقتوں اور ثقافتی شناخت کو شامل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے تیرتھ بھی  ترقی کر رہے ہیں  اور ہندوستان بھی جدید بنیادی ڈھانچے  میں نئے ریکارڈ قائم کر  رہا ہے۔ بنارس ہی آپ کو آج ملک میں ترقی کی رفتار کی جھلک دکھاتا ہے۔ صرف پچھلے ہفتے، اس کاشی وشوناتھ دھام کمپلیکس کی تعمیر کو دو سال مکمل ہوئے ہیں۔ اس کے بعد بنارس میں روزگار اور کاروبار نے ایک نئی رفتار پکڑی ہے۔ ایئرپورٹ پہنچتے ہی ہمیں یہ فکر ہونے لگی کہ ہم شہر کیسے پہنچیں گے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ہر طرف افراتفری، یہی بنارس کی پہچان تھی۔ لیکن، اب بنارس کا مطلب ہے ترقی! اب بنارس کا مطلب عقیدت  کے ساتھ جدید سہولیات! اب بنارس کا مطلب ہے صفائی اور تبدیلی! بنارس آج ترقی کی ایک منفرد راہ پر گامزن ہے۔ وارانسی میں رابطہ بڑھانے کے لیے گزشتہ 9 سالوں میں تاریخی کام کیا گیا ہے۔ وارانسی کو تمام شہروں سے جوڑنے والی سڑکیں یا تو چار لین یا 6 لین کی بنی ہیں۔ بالکل نئی رنگ روڈ بھی بنائی گئی ہے۔ وارانسی میں نئی ​​سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے، پرانی سڑکوں کے ساتھ ساتھ نئے علاقے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ بنارس میں ریلوےا سٹیشن بنائے جائیں، بنارس سے نئی ٹرینیں چلائی جائیں، فریٹ کوریڈور پر کام کیا جائے، ایئرپورٹ پر سہولیات کو بڑھایا جائے، گنگا پر گھاٹ دوبارہ بنائے جائیں، گنگا میں کروز چلائے جائیں، جدید اسپتال بنائے جائیں،  بنارس میں تعمیر ہو، نئی اور جدید ڈیری کا قیام ہو، گنگا کے کنارے قدرتی کھیتی کے لیے کسانوں کی مدد ہو، ہماری حکومت اس جگہ کی ترقی میں کوئی بھی  کسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔ بنارس کے نوجوانوں کی ہنر مندی کے لیے یہاں تربیتی ادارے بھی کھولے گئے ہیں۔ ساسند روزگار میلے سے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار بھی ملا ہے۔

بھائیو اور بہنو!

میں یہاں اس جدید ترقی کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ ہمارے روحانی سفر میں سب سے بڑا مسئلہ بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر بنارس آنے والے مسافر، شہر سے باہر واقع اس سَورویدا مندر ضرور جانا چاہیں گے۔ لیکن، اگر ان کے لیے آج جیسی سڑکیں نہ ہوتیں تو وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی خواہش پوری نہ کر پاتے۔ لیکن  اب سَوروید مندر، بنارس آنے والے عقیدت مندوں کے لیے ایک اہم مقام  کے طور پر ابھرے گا۔ اس سے آس پاس کے تمام دیہاتوں میں کاروبار اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور لوگوں کی ترقی کے راستے کھلیں گے۔

میرے پریوار جنو!

ویہنگم یوگ سنستھان جتنا ہماری روحانی بہبود کے لیے وقف ہے، اتنا ہی یہ سماج کی خدمت میں بھی سرگرم رہا ہے۔ سداپھل دیو جی جیسے مہارشی کی روایت بھی یہی رہی ہے۔ ایک عقیدت مند سنت ہونے کے علاوہ، سداپھل دیو جی ایک آزادی پسند بھی تھے، جنہوں نے آزادی کی جنگ لڑی۔ آج آزادی کے سنہری دور میں ان کے ہر پیروکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی قراردادوں کو آگے بڑھائے۔ پچھلی بار جب میں آپ کے درمیان آیا تھا ،تو میں نے آپ کے سامنے ملک کی کچھ امیدیں بھی رکھی تھیں۔ آج ایک بار پھر میں آپ کے سامنے نو قراردادیں اور نو درخواستیں پیش کر رہا ہوں۔ اور اب وگیان دیو جی نے بھی مجھے یاد دلایا کہ میں نے پچھلی بار کیا کہا تھا۔ میری پہلی درخواست ہے-

سب سے پہلے – پانی کے ہر قطرے کو بچائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پانی کے تحفظ کے بارے میں آگاہ کریں۔

دوسرا- گاؤں گاؤں جائیں اور لوگوں کو ڈیجیٹل لین دین کے بارے میں آگاہ کریں، انہیں آن لائن ادائیگی کے بارے میں سکھائیں۔

تیسرا: اپنے گاؤں، اپنے محلے، اپنے شہر کو صفائی میں نمبر ون بنانے کے لیے کام کریں۔

چوتھا- مقامی کو ، مقامی مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں، صرف ہندوستانی مصنوعات کا استعمال کریں۔

پانچویں- جتنا ہو سکے پہلے اپنا ملک کو دیکھیں، اپنے ہی ملک میں گھوم پھریں اور اگر آپ کسی دوسرے ملک جانا چاہتے ہیں، تو جب تک پورا ملک نہ دیکھ لیں بیرون ملک جانے کا  خیال  دل  میں نہ لائیں ۔  اور میں  آج کل تو  ان بڑے بڑے سیٹھوں  کو بھی کہتا رہتا ہوں کہ وہ پردیس میں جا کر شادی کیوں کر رہے ہو بھائی، تو میں نے کہا ‘ویڈ ان انڈیا’، ‘بھارت میں شادی کرو’۔

میں چھٹی بات کہتا ہوں – کسانوں کو قدرتی کھیتی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہ کرتے رہیں۔ میں نے پچھلی بار بھی آپ سے یہی گزارش کی تھی، اب دہرا رہا ہوں۔ یہ مدر کرہ  ارض  کو بچانے کے لیے ایک بہت اہم مہم ہے۔

میری ساتویں درخواست ہے – جوار کو شری انّ کے طور پر اپنی روزمرہ کی کھانے کی زندگی میں شامل کریں، اسے بڑے پیمانے پر فروغ دیں، یہ ایک بہترین  خوراک ہے۔

میری آٹھویں درخواست ہے – چاہے وہ فٹنس ہو، یوگ  ہو یا کھیل ہو، اسے اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں۔

اور نویں گزارش یہ ہے کہ کم از کم ایک غریب خاندان کا سہارا بنیں، ان کی مدد کریں۔ ہندوستان میں غریبی  کو دور کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔

آج کل آپ دیکھ رہے ہیں کہ وکست بھارت سنکلپ یاترا چل رہی ہے۔ میں نے کل شام اس سے متعلق پروگرام میں شرکت کی ہے۔ کچھ دیر بعد، میں یہاں سے دوبارہ وکست بھارت سنکلپ یاترا میں شامل ہونے جا رہا ہوں۔ اس سفر کے بارے میں آگاہی پھیلانا آپ سب کی اور ہر مذہبی رہنما کی ذمہ داری ہے۔ میں چاہوں گا کہ یہ سب ہماری ذاتی قراردادیں بھی بننی  چاہئیں۔ اگر ’گاؤوں  وشوسیہ ماتر‘ کا نعرہ ہماری  عقیدت کے ساتھ ساتھ ہمارے طرز عمل کا حصہ بن جائے تو ہندوستان تیزی سے ترقی کرے گا۔ اس احساس کے ساتھ، میں آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور پوجیہ  سنتوں  نے مجھے جو عزت اور احترام بخشا  ہے اس کے لیے میں اپنے دل کی گہرائیوں سےتمام  پوجیہ سنتوں   کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں! میرے ساتھ بولیں  –

بھارت ماتا کی – جے۔

بھارت ماتا کی – جے۔

بھارت ماتا کی – جے۔

شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

(ش ح-اع – ق ر)

U-2572