جے بدری وشال، جے بدری وشال، جے بدری وشال،
جے بابا کیدار، جے بابا کیدار، جے بابا کیدار،
اتراکھنڈ کے گورنر گرمیت سنگھ جی، یہاں کے مقبول نرم گو، ہر پل جس کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی ہے، ایسے ہمارے پشکر سنگھ دھامی جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جناب تیرتھ سنگھ راوت جی، بھائی دھن سنگھ راوت جی، مہندر بھائی بھٹ جی، دیگر تمام معززین اور میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں،
آج بابا کیدار اور بدری وشال جی کے درشن کرکے، ان کا آشیرواد حاصل کرکے زندگی مالا مال ہوگئی، دل خوش ہو گیا، اور یہ پل میرے لیے ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئے۔ بابا کے قدموں سے، بابا کے حکم سے، بابا کے کرم سے پچھلی بار آیا تھا، تو کچھ الفاظ میرے منہ سے نکلے تھے۔ وہ الفاظ میرے نہیں تھے، کیسے آئے؟ کیوں آئے؟ کس نے دیے، پتہ نہیں ہے۔ لیکن یوں ہی منہ سے نکل گیا تھا۔ یہ دہائی اتراکھنڈ کی دہائی ہوگی۔ اور مجھے پختہ یقین ہے، ان الفاظ پر بابا کے، بدری وشال کے، ماں گنگا کے، مسلسل آشیرواد کی طاقت بنی رہے گی، یہ میرا من کہتاہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے آج میں آپ کے درمیان، ان نئے پروجیکٹوں کے ساتھ پھر اسی عزم کو دہرانے آیا ہوں۔ اور میری خوش قسمتی ہے کہ آج مجھے آپ سبھی کے درشن کرنے کا موقع ملا ہے۔
مانا گاؤں، بھارت کے آخری گاؤں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہمارے وزیراعلیٰ نے خواہش ظاہر کی اب تو میرے لیے بھی سرحد پر بسا ہر گاؤں ملک کا پہلا گاؤں ہی ہے۔ سرحد پر بسے آپ جیسے سبھی میرے ساتھی ملک کے مضبوط محافظ ہیں۔ اور میں آج مانا گاؤں کی پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں۔ شاید کچھ پرانے لوگ ہوں ان کو یاد ہو، میں تو وزیر اعلیٰ بن گیا، وزیر اعظم بن گیا، اس لیے سرحد کے اس پہلے محافظ گاؤں کو یاد کر رہا ہوں، ایسا نہیں ہے۔ آج سے 25 سال پہلے جب میں اتراکھنڈ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک کارکن کے طور پر کام کرتا تھا۔ نہ کوئی مجھے زیادہ جانتا تھا، نہ میری اس قسم کی کوئی پبلک لائف تھی۔ میں تنظیم کے لوگوں کے درمیان میں ہی اپنی زندگی گزارتا تھا، کام کرتا تھا اور اس وقت مانا میں، میں نے اتراکھنڈ بی جے پی کی ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ بلائی تھی۔ تو میرے اتراکھنڈ کے سارے کارکن میرے سے بہت اس وقت ناراض تھے، سوال پوچھتے تھے کہ صاحب اتنا دور کتنی محنت سے جانا پڑے گا، کتنا وقت جائے گا۔ میں نے کہا بھائی جس دن اتراکھنڈ بی جے پی کے دل میں مانا کی اہمیت پختہ ہو جائے گی نا، اتراکھنڈ کے عوام کے دل میں بی جے پی کے لیے اہمیت بن جائے گی۔ اور اسی کا نتیجہ یہ مانا گاؤں کی مٹی کی طاقت ہے۔ یہ مانا گاؤں کے میرے بھائیوں بہنوں کا حکم ہے، آشیرواد ہے کہ آج لگاتار آپ کے آشیرواد بنے رہتے ہیں۔ اور میں تو اتراکھنڈ میں نئی سرکار بننے کے بعد عوامی پروگرام میں پہلی بار بول رہا ہوں۔ تو میں آج جب یہاں آیا ہوں، اور مانا کی سرزمین سے میں پورے اتراکھنڈ کے بھائی بہنوں کو، ہم سب کو دوبارہ خدمت کرنے کا موقع دیا ہے، اس لیے دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ساتھیوں،
21ویں صدی کے ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے دو بنیادی ستون ہیں۔ پہلا، اپنی وراثت پر فخر اور دوسرا، ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش۔ آج اتراکھنڈ، ان دونوں ہی ستونوں کو مضبوط کر رہا ہے۔ آج صبح میں نے بابا کیدار کی اور بعد میں بدری ناتھ وشال کے قدموں میں جا کر پرارتھنا کی اور ساتھ ساتھ، کیوں کہ پرماتما نے مجھے جو کام دیا ہے وہ بھی مجھے کرنا ہوتا ہے۔ اور میرے لیے تو ملک کے 130 کروڑ عوام وہ بھی پرماتما کی شکل ہے۔ اور اس لیے میں نے ترقیاتی کاموں کا بھی جائزہ لیا۔ اور اب آپ کے درمیان آ کر مجھے 2 روپ وے پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کا موقع ملا ہے۔ اس سے کیدار ناتھ جی اور گرودوارہ ہیم کنڈ صاحب کے درشن کرنا اور آسان ہو جائے گا۔ گرو گرنتھ صاحب کی ہم پر کرپا بنی رہے۔ سبھی قابل احترام گروؤں کی ہم پر کرپا بنی رہے، کہ ایسا مقدس کام کرنے کا گروؤں کے آشیرواد سے ہمیں موقع ملا ہے۔ بابا کیدار کے آشیرواد بنے رہیں۔ اور آپ تصور کر سکتے ہیں، یہ روپ وے کھمبے، تار، اندر بیٹھنے کے لیے کار، اتنا ہی نہیں ہے۔ یہ روپ وے تیز رفتار سے آپ کو بابا کے پاس لے جائے گا اتنا نہیں ہے۔ اس کے ہونے سے اس پر کام کرنے والے لوگوں سے آپ تصور نہیں کر سکتے ہیں، میرے ملک کے 130 کروڑ شہریوں کے آشیرواد ان پر برسنے والے ہیں۔ ہیم کنڈ صاحب دنیا بھر میں گرو گرنتھ صاحب کی مقدس پوجا کرنے والے جتنے بھی میرے بھائی بہن ہیں، آج ہمیں آشیرواد برساتے ہوں گے کہ آج ہیم کنڈ صاحب تک کا یہ روپ وے بن رہا ہے۔ آپ تصور نہیں کر سکتے ہیں اس کی طاقت کیا ہے۔ آپ دیکھنا آج یو کے ہو، جرمنی ہو، کناڈا ہو، وہاں پر جشن منایا جائے گا۔ کیوں کہ اب ہیم کنڈ صاحب تک جانے کا روپ وے بن جائے گا۔ اور وقت تو بچے گا، عبادت میں من اور زیادہ لگے گا۔
ترقی کے ان تمام پروجیکٹوں کے لیے اتراکھنڈ کو اور ملک و بیرون ملک کے ہر عقیدت مند کو میں آج بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ اور گروؤں کی کرپا بنی رہے، بابا کیدار کی کرپا بنی رہے، بدری وشال کی کرپا بنی رہے، یہی اور ہمارے سبھی مزدور ساتھیوں کو بھی طاقت ملے، تاکہ وہ بھی پوری طاقت سے مقررہ وقت پر اس کام کو پورا کریں۔ اور ہم پرارتھنا کریں، ہر بار پرارتھنا کریں، کیوں کہ ی بہت دشوار گزار علاقہ ہے۔ یہاں کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہوائیں تیز چلتی ہیں اور اتنی اونچائی پر جا کر کام کرنا ہوتا ہے۔ پرماتما سے پرارتھنا کریں کہ اس پورے کام کے درمیان کوئی حادثہ نہ ہو جائے، کسی ہمارے ساتھی کا نقصان نہ ہو جائے، یہ ہم پرارتھنا کرتے رہیں، اور جس بھی گاؤں کے پاس وہ کام کرتے ہیں وہ بھگوان کا کام کر رہے ہیں، آپ ان کو سنبھالنا، ان کو مزدور مت سمجھنا، ان کو مزدور مت سمجھنا، یہ مت سمجھنا کہ ان کو پیسے مل رہے ہیں، کام کر رہے ہیں، جی نہیں وہ پرماتما کی خدمت کر رہے ہیں۔ وہ آپ کے گاؤں کے مہمان ہیں۔ مشکل کام کرنے والے ہیں، ان کو جتنا سنبھالوگے کام اتنا تیزی سے ہوگا۔ کروگے نا؟ ان کو سنبھالوگے نا؟ اپنی اولادوں کی طرح سنبھالوگے، اپنے بھائی بہن کی طرح سنبھالوگے۔
ساتھیوں،
آج میں بابا کیدار کے دھام میں گیا تھا تو وہاں جو مزدور بھائی بہن کام کرتے تھے۔ ان سے بھی مجھے بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ جو انجینئر لوگ ہیں، ان کے بھی ساتھ بات کرنے کا موقع ملا۔ مجھے اتنا اچھا لگا اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہم کوئی روڈ کا یا عمارت کا کام نہیں کر رہے ہیں۔ ہم تو بابا کی پوجا کر رہے ہیں، بابا کی پوجا کر رہے ہیں، اور یہ ہمارا پوجا کرنے کا طریقہ ہے۔
ساتھیوں،
ملک کی آزادی کے 75 سال پورے ہونے پر میں نے لال قلعہ سے ایک اپیل کی ہے۔ یہ اپیل ہے، غلامی کی ذہنیت سے پوری طرح آزادی کا۔ آزادی کے اتنے برسوں کے بعد، آخرکار مجھے یہ کیوں کہنا پڑا؟ کیا ضرورت پڑی یہ کہنے کی؟ ایسا اس لیے، کیوں کہ ہمارے ملک کو غلامی کی ذہنیت نے ایسا جکڑا ہوا ہے کہ ترقی کا ہر کام کچھ لوگوں کو جرم کی طرح لگتا ہے۔ یہاں تو غلامی کے ترازو سے ترقی کے کام کو تولا جاتا ہے۔ اس لیے طویل عرصے تک ہمارے یہاں، اپنے عقیدت کے مقامات کی ترقی کو لے کر ایک نفرت کا جذبہ رہا۔ بیرونی ممالک میں ہاں کی ثقافت سے جڑے مقامات کی یہ لوگ تعریف کرتے کرتے نہیں تھکتے، لیکن بھارت میں اس قسم کے کام کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کی وجہ ایک ہی تھی- اپنی ثقافت کو لے کر حقیر جذبہ، اپنے عقیدت کے مقامات میں عدم اعتماد، اپنی وراثت سے نفرت۔ اور یہ ہمارے سماج میں آج بڑھا ہو، ایسا نہیں ہے۔ آزادی کے بعد سومناتھ مندر کی تعمیر کے وقت کیا ہوا تھا، وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اس کے بعد رام مندر کی تعمیر کے وقت کی تاریخ سے بھی ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ غلامی کی ایسی ذہنیت نے ہمارے مقدس مذہبی مقامات کو خستہ حالت میں لا دیا تھا۔ سینکڑوں برسوں سے موسم کی مار برداشت کرتے آ رہے پتھر، مندر کی جگہ، پوجا کے مقام تک جانے کے راستے، وہاں پر پانی کا انتظام ہو تو اس کی تباہی، سب کچھ تباہ ہو کر کے رکھ دیا گیا تھا۔ آپ یاد کیجئے ساتھیوں، دہائیوں تک ہمارے روحانی مراکز کی حالت ایسی رہی وہاں کا سفر زندگی کا سب سے مشکل سفر بن جاتا تھا۔ جس کے تئیں کروڑوں لوگوں کی عقیدت ہو، ہزاروں سال سے عقیدت ہو، زندگی کا ایک خواب ہو کہ اس دھام میں جا کر ماتھا ٹیک کر آئیں گے، لیکن سرکاریں ایسی رہیں کہ اپنے ہی شہریوں کو وہاں تک جانے کی سہولت دینا ان کو ضروری نہیںلگا۔ پتہ نہیں کون سی غلامی کی ذہنیت نے ان کو جکڑ کر رکھا تھا۔ یہ نا انصافی تھی کہ نہیں تھی بھائیوں؟ یہ نا انصافی تھی کہ نہیں تھی؟ یہ جواب آپ کا نہیں ہے، یہ جواب 130 کروڑ ہم وطنوں کا ہے اور آپ کے ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے ایشور نے مجھے یہ کام دیا ہے۔
بھائیوں بہنوں،
اس غفلت میں لاکھوں کروڑوں عوامی جذبات کی بے عزتی کا جذبہ چھپا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے پچھلی سرکاروں کی خودغرضی تھی۔ لیکن بھائیوں اور بہنوں، یہ لوگ ہزار سال پرانی ہماری ثقافت کی طاقت کو سمجھ نہیں پائے۔ وہ یہ بھول گئے کہ عقیدت کے یہ مراکز صرف ایک ڈھانچہ نہیں بلکہ ہمارے لیے یہ روح کی طاقت ہے، سانس کی طرح ہیں۔ وہ ہمارے لیے طاقت کے ایسے ذرائع ہیں جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی ہمیں تازہ دم بنائے رکھتے ہیں۔ انہیں پوری طرح نظرانداز کرنے کے باوجود نہ تو ہمارے روحانی مراکز کی اہمیت کم ہوئی، نہ ہی انہیں لے کر ہماری عقیدت میں کوئی کمی آئی۔ اور آج دیکھئے، کاشی، اجین، ایودھیا بے شمار ایسے عقیدت کے مراکز اپنے افتخار کو دوبارہ حاصل کر رہے ہیں۔ کیدار ناتھ، بدری ناتھ، ہیم کنڈ صاحب کو بھی عقیدت کو سنبھالتے ہوئے جدیدیت کے ساتھ سہولیات سے جوڑا جا رہا ہے۔ ایودھیا میں اتنا شاندار رام مندر بن رہا ہے۔ گجرات کے پاواگڑھ میں ماں کالیکا کے مندر سے لے کر دیوی وندھیاچل کی رہداری تک، بھارت اپنے ثقافتی عروج کی اپیل کر رہا ہے۔ عقیدت کے ان مراکز تک پہنچنا اب ہر عقیدت کے لیے آرام دہ اور آسان ہو رہا ہے۔ اور جو سہولیات تیار کی جا رہی ہیں، وہ ہمارے بڑے بزرگوں کے لیے تو سہولت ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے میرے ملک کی نئی نسل 22-20-18-15-12 سال کے نوجوان بیٹے بیٹیاں ان کے لیے بھی یہ عقیدت کی توجہ کا مرکز بنیں گے۔ وہ ہماری پالیسی ہونی چاہیے۔ اب ہمارے معذور ساتھی بھی ان مقامات پر جا کر درشن کر رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے میں نے جب گرنار میں روپ وے بنایا۔ 80-80 سال کے ماں باپ ایسے بزرگ لوگ وہاں آنے کے بعد مجھے خط لکھتے تھے کہ کبھی سوچا نہیں تھا کہ گرنار پہاڑ پر جا کر اتنے علاقوں کی ہم پوجا درشن کر پائیں گے۔ آج وہ اتنے آشیرواد دے رہے ہیں۔ ایک روپ وے بنایا۔
ساتھیوں،
اس طاقت کو کئی لوگ پہچان نہیں پاتے۔ آج پورا ملک اپنے روحانی مراکز کو لے کر فخر کے جذبے سے بھر گیا ہے۔ اتراکھنڈ کی یہ دیو بھومی خود اس تبدیلی کی گواہ بن رہی ہے۔ ڈبل انجن کی سرکار بننے سے پہلے کیدار ناتھ میں ایک سیزن میں زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ عقیدت مند آیا کرتے تھے۔ اب اس سیزن میں یہ تعداد مجھے بتا رہے ہیں 45 لاکھ، اب دیکھئے۔
ساتھیوں،
عقیدت اور روحانیت کے مقامات کی اس باز تعمیر کا ایک اور پہلو ہے، جس کی اتنی چرچہ نہیں ہو پاتی ہے۔ یہ پہلو ہے پہاڑ کے لوگوں کی ’ایز آف لیونگ‘ کا، پہاڑ کے نوجوانوں کو روزگار کا۔ جب پہاڑ پر ریل، روڈ اور روپ وے پہنچتے ہیں، تو اپنے ساتھ روزگار لے کر آتے ہیں۔ جب پہاڑ پر ریل روڈ اور روپ وے پہنچتے ہیں، تو یہ پہاڑ کی زندگی بھی جاندار، شاندار اور مزید آسان بنا دیتے ہیں۔ یہ سہولیات پہاڑ پر سیاحت کو بھی بڑھاتی ہیں، نقل و حمل کو بھی آسان کرتی ہیں۔ اب تو ہماری سرکار ڈرون کو بھی پہاڑوں پر سامان کے ٹرانسپورٹ کا بنیادی وسیلہ بنانے پر کام کر رہی ہے۔ کیوں کہ آج کل ڈرون آتے ہیں، 20 کلو، 25 کلو، 50 کلو تک سامان اٹھا کر کے تیز رفتار سے دوسری جگہ بھی اتار دیتے ہیں۔ ہم اس کو لانا چاہتے ہیں، تاکہ آپ کے یہاں جو پھل، سبزی پیدا ہوتی ہے، وہ تازہ تازہ بڑے شہروں میں پہنچے، تاکہ آپ کی زیادہ کمائی ہو۔ اور میں آج ہندوستان کی سرحد پر ملک کی حفاظت کر رہے گاؤوں والوں کے درمیان آیا ہوں تب ابھی میں آپ جو ہماری مائیں بہنیں سیلف ہیلپ گروپ کی بہنیں جو پیداوار کرتی ہیں، جو مسالہ، وہ پہاڑی نمک، یہ ساری چیزیں میں دیکھ رہا تھا۔ اور پیکیجنگ وغیرہ میں سچ مچ میں میرا من بڑا خوش کر گیا جی۔ ماؤں بہنوں کو پرنام کرتا ہوں، کیا بڑھیا کام کیا ہے آپ نے۔ لیکن میں یہاں سے ہندوستان بھر سے جو مہاجر آتے ہیں، جو مسافر آتے ہیں، جو ایڈونچر کے لیے آتے ہیں، جو عقیدت کے لیے، کسی بھی طریقے سے کیوں نہ آتے ہوں۔ ایک زندگی میں خاکہ بنائیے کہ آپ سفر میں جتنا خرچ کرتے ہیں۔ ٹریولنگ کا خرچہ کرتے ہوں گے، کھانے کے پیچھے خرچ کرتے ہوں گے، بڑے ہوٹل میں رہنے کے لیے خرچ کرتے ہوں گے۔ آپ من میں ایک خاکہ بنائیے۔
میں سبھی 130 کروڑ عوام کو ہندوستان کے اس گاؤں سے بتا رہا ہوں، جو چین کی سرحد پر بھارت کا یہ سرحد پر رکھوالی کرنے والے گاؤں کے بیچ سے بول رہا ہوں۔ میں ان کی طرف سے بول رہا ہوں۔ آپ جہاں بھی جائیں سفر کرنے کے لیے اس دشوار گزار علاقے میں آئیں یا پوری چلے جائیں یا کنیا کماری چلے جائیں یا سومناتھ، کہیں پر بھی جائیں ایک عزم کیجئے۔ جیسے میں ووکل فار لوکل کی بات کرتا ہوں نا۔ میں آج ایک اور عہد کے لیے پرارتھنا کرتا ہوں اور ملک کے عوام سے درخواست کرنا یہ تو میرا حق بنتا ہے جی۔ میں حکم تو نہیں دے سکتا ہوں۔ درخواست تو کر سکتا ہوں۔ میں درخواست کرتا ہوں آپ جتنا خرچ کرتے ہیں، طے کیجئے کم از کم 5 پرسینٹ جو ٹوٹل خرچ آپ کا سفر کا ہوگا اس میں 5 پرسینٹ، اگر 100 روپیہ خرچ کرتے ہو تو 5 روپیہ اس علاقے میں جو کچھ بھی مقامی پیداوار ہے، مقامی لوگ جو بناتے ہیں آپ اس کو ضرور خریدیئے۔ آپ کے گھر میں ہے تو دوسرا لے کر کے جائیے۔ کسی کو تحفہ دے دیجئے۔ لیکن وہاں سے ضرور لے کر جائیے۔ آپ کو میں یقین دلاتا ہوں بھائیوں بہنوں۔ ان تمام علاقوں میں اتنی روزی روٹی مل جائے گی، ابھی مجھے مائیں بہنیں کہہ رہی تھیں کہ اس بار مسافر اتنے آئے، میں نے کہا کتنی فروخت ہوئی – تو ذرا پہلے تو شرما گئے بتاتے بتاتے، میں نے کہا نہیں نہیں بتائیے بتائیے، پھر انہوں نے کہا ڈھائی لاکھ روپے کا فروخت ہو گیا اس بار۔ ان کو اتنا اطمینان تھا۔ اگر سبھی مسافر، سبھی مہاجر جہاں جائے وہاں مقامی جو غریب لوگ پیدا کرتے ہیں۔ ویسی مقامی بنی ہوئی چیز 5 پرسینٹ بجٹ یہ جوڑ دیجئے۔ آپ دیکھئے آپ کو زندگی میں اطمینان ہوگا اور گھر میں رکھیں گے، بچوں کو بتائیں گے کہ دیکھئے ہم نے اس سال جب اتراکھنڈ گئے تھے نا یہ تصویر تو تجھے اچھی لگتی ہے۔ اس تصویر کے پیچھے تو ہم نے 20 روپے خرچ کیا ہے، لیکن یہ جو چھوٹی چیز دکھائی دے رہی ہے نا وہاں کی ایک بوڑھی ماں بنا رہی تھی۔ میں اس سے لے کر کے آیا تھا۔ آپ کو خوشی ہوگی، آپ کو اطمینان ہوگا، اس لیے میں آج یہاں سے پورے ملک سے درخواست کر رہا ہوں۔
میرے پیارے بھائیوں بہنوں،
پہاڑ کے لوگوں کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ بہت محنتی ہوتے ہیں۔ انہیں ان کی ہمت، ان کی جدوجہد کرنے کی عادت کے لیے جانا جاتا ہے۔ وہ قدرت سے شکایت نہیں کرتے ہیں۔ بحران کے درمیان جینا سیکھ لیتے ہیں جی۔ لیکن صاحب پہلے کی سرکاروں کے وقت، پہاڑوں کے لوگوں کی صلاحیت کو ان کے خلاف ہی استعمال کیا گیا۔ دہائیوں تک سرکاریں یہ سوچ کر پہاڑ کو نظرانداز کرتی رہیں کہ وہ محنت کش لوگ ہیں، پہاڑ جیسا ان کا حوصلہ ہے، ارے ان کی تو طاقت اتنی ہے ان کو تو کچھ ضرورت نہیں ہے چل جائے گا۔ یہ ان کی طاقت کے ساتھ نا انصافی تھی۔ ان کی طاقت ہے اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ ان کو ایسے ہی رہنے دیا جائے۔ ان کو بھی تو سہولت چاہیے۔ مشکل حالات میں پہاڑ کے لوگوں کو مدد ملنی چاہیے۔ جب سہولیات پہنچانے کی بات ہو، جب سرکاری اسکیموں کا فائدہ پہنچانے کی بات ہو، تو پہاڑ کے لوگوں کا نمبر سب سے بعد میں آتا تھا۔ اس سوچ کے ساتھ ملک کیسے آگے بڑھتا؟ پہاڑ کے لوگوں کے ساتھ ہو رہی اس نا انصافی کو مجھے ختم کرنا ہی تھا۔ اس لیے، پہلے جن علاقوں کو ملک کی سرحدوں کا آخری مان کر نظرانداز کیا جاتا تھا، ہم نے وہاں سے خوشحالی کا آغاز مان کر کام شروع کیا ہے۔ پہلے ملک کا آخری گاؤں جان کر جس کو نظرانداز کیا جاتا تھا، ہم نے وہاں کے لوگوں کی محرومی پر فوکس کرکے کام کرنا شروع کیا ہے۔
پہلے ملک کی ترقی میں جن کے تعاون کو اہمیت نہیں دی گئی، ہم نے انہیں کو ساتھ لے کر ترقی کے عظیم مقاصد کی طرف بڑھنے کا عہد کیا ہے۔ ہم نے پہاڑ کی ان چنوتیوں کا حل نکالنے کی کوشش کی، جس سے جوجھنے میں وہاں کے لوگوں کی بڑی توانائی ضائع ہو جائے وہ ہمیں منظور نہیں ہے۔ ہم نے ہر گاؤں تک بجلی پہنچانے کی مہم چلائی، جس کا بہت بڑا فائدہ میرے پہاڑ کے بھائیوں اور بہنوں کو ملا۔ میں یہاں گاؤں کی ایک سرپنچ بہن سے ملا، میں پوچھ رہا تھا بیت الخلاء بن گئے ارے بولے صاحب بن گئے۔ میں نے کہا پانی پہنچ رہا ہے بولی پائپ لگ رہی ہے۔ اتنی چہرے پر خوشی تھی اپنے گاؤں میں کام ہونے کی خوشی تھی ان کے، سرپنچ عورت تھی۔ بڑے فخر سے مجھے بتا رہی تھی۔ ہم نے ہر گھر جل کی مہم چلائی، جس کی وجہ سے آج اتراکھنڈ کے 65 فیصد سے زیادہ گھروں میں پائپ سے پانی پہنچ چکا ہے۔ ہم نے ہر پنچایت کو آپٹکل فائبر سے جوڑنے کی مہم چلائی، جس کی وجہ سے اتراکھنڈ کے کونے کونے میں آج ڈیجیٹل کنیکٹویٹی پہنچ رہی ہے۔ میں آج دیکھ رہا تھا، یہ بھی آن لائن پیسے لے رہے تھے، ڈیجیٹل فن ٹیک۔ میں ذرا ہمارے پارلیمنٹ میں کچھ عقل مند لوگ بیٹھتے ہیں۔ ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ مانا آئیے مانا۔ یہ میرے مانا میں دیکھئے، آٹھویں کلاس پڑھی بوڑھی ماں بہنیں ڈیجیٹل پیمنٹ لے رہی ہیں۔ پے ٹی ایم ایسا لکھا ہوا ہے۔ کیو آر کوڈ لگایا گیا ہے اپنے مال کے سامنے، یہ طاقت میرے ملک کی یہ مانا گاؤں کے ان لوگوں کے پاس دیکھ کر کے اور فخر ہو رہا ہے۔
ہم نے گاؤں میں ہیلتھ اور ویلنیس سینٹر کھولنے کی مہم چلائی جس کی وجہ سے آج گاؤں کے پاس میڈیکل کی سہولت پہنچ رہی ہے۔ اس قسم کی مہم کا بہت بڑا فائدہ ہماری ماؤں بہنوں بیٹیوں کو ہوا ہے۔ ایک حساس سرکار، غریبوں کا دکھ درد سمجھنے والی سرکار کیسے کام کرتی ہے۔ یہ آج ملک کے ہر کونے میں لوگ محسوس کر رہے ہیں۔ کورونا کے اس دور میں، جب ویکسین لگوانے کی باری آئی، اگر پہلے کی سرکاریں ہوتیں تو شاید ابھی تک ویکسین یہاں تک نہ آتی، لیکن یہ مودی ہے۔ میں نے کہا کورونا جائے، اس سے زیادہ تیزی سے مجھے ویکسین پہاڑوں میں لے جانی ہے اور میں سرکار کو مبارکباد دیتا ہوں میرے اتراکھنڈ اور میرے ہماچل دو ریاستوں نے سب سے پہلے ویکسی نیشن کا کام پورا کر دیا بھائیوں۔ اس عالمی وبائی مرض میں لوگوں کو بھوک مری کا شکار نہ ہونا پڑے، بچوں کو کم غذائیت کا شکار نہ ہونا پڑے، اس کے لیے ہم نے پردھان منتری غریب کلیان انّ یوجنا شروع کی۔ اس اسکیم کی وجہ سے اتراکھنڈ کے بھی لاکھوں لوگوں کو مفت اناج ملا اور ہم نے پکا کیا کہ کسی غریب کے گھر میں بھی کوئی دن ایسا نہیں ہونا چاہیے، جب گھر میں چولہا نہ جلا ہو، روٹی نہ پکی ہو، کوئی بچہ بھوکا سویا ہو وہ دن میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا، اور ہم کامیابی کے ساتھ پورا کر پائے بھائیوں بہنوں۔
کچھ دنوں پہلے ہی ہماری سرکار نے اس مدت کو مزید تین مہینے بڑھا دیا ہے، تاکہ ان تہواروں کے دنوں میں ہمارے غریب خاندانوں کو دقت نہ ہو۔ ڈبل انجن کی سرکار کی کوششوں سے اب اتراکھنڈ میں ترقیاتی کاموں میں پھر تیزی آ رہی ہے۔ جو لوگ گھر سے نقل مکانی کرکے چلے گئے تھے، اب اپنے پرانے گھروں میں لوٹنے لگے ہیں۔ ہم اسٹے، گیسٹ ہاؤس، ڈھابوں، چھوٹی چھوٹی دکانوں میں اب رونق بڑھنے لگی ہے۔ ان سہولیات سے اتراکھنڈ میں سیاحت کی ہو رہی یہ توسیع یہاں کی ترقی کو بھی رفتار دینے والی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈبل انجن کی سرکار یہاں کے نوجوانوں کو ہوم اسٹے کی سہولت بڑھانے کے لیے، نوجوانوں کے اسکل ڈیولپمنٹ کے لیے مسلسل مالی مدد دے رہی ہے۔ سرحدی علاقوں کے نوجوانوں کو این سی سی سے جوڑنے کی مہم بھی یہاں کےنوجوانوں کو روشن مستقبل کے لیے تیار کر رہی ہے۔ پورے ملک میں سرحدی علاقوں میں جو اچھے اسکول ہوں گے، اب این سی سی ہم وہاں چلائیں گے۔ احمد آباد، ممبئی، چنئی وہاں این سی سی 75 سال چلی۔ اب این سی سی چلے گی ان گاؤوں میں، میرے گاؤں کے بچوں کو ملے گا فائدہ۔
ساتھیوں،
ہمارے پہاڑ کے لوگوں کی سب سے بڑی چنوتی رہتی ہے کنیکٹویٹی۔ کنیکٹویٹی نہ ہو تو پہاڑ پر زندگی واقعی پہاڑ جیسی ہو جاتی ہے۔ ہماری ڈبل انجن کی سرکار، اس چنوتی کا بھی حل تلاش کر رہی ہے۔ آج اتراکھنڈ کو ملٹی موڈل کنیکٹویٹی فراہم کرنے کے لیے ہر طریقے پر کام کیا جا رہا ہے۔ ہمالیہ کی سرسبز پہاڑیوں پر ریل گاڑی کی آواز اتراکھنڈ کی ترقی کی ایک نئی کہانی لکھے گی۔ دہرہ دون ایئرپورٹ بھی اب نئی شکل میں خدمات فراہم کر رہا ہے۔ ابھی میں ہماچل پردیش گیا تھا، وہاں میں نے وند ے بھارت ٹرین شروع کی اور مجھے کئی لوگوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں دو دو نسل پہلے کی جو عمر کے لوگ ہیں۔ ایسے گاؤوں میں ہر گاؤں میں لوگ ہیں، جنہوں نے ابھی تک ریل نہیں دیکھی ہے اور آپ ہمارے ہماچل میں وندے بھارت ٹرین لے آئے۔ وندے بھارت ٹرین تو ابھی تو ایک اسٹیشن پہنچی ہے، لیکن پورے ہماچل اور پہاڑ کے لوگوں کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔ وہ دن میں اتراکھنڈ میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں بھائیوں۔ آج چاہے ہماچل سے اتراکھنڈ آنا جانا ہو، یا پھر دہلی اور یوپی سے اتراکھنڈ آنا جانا، فون لین ہائی وے اور ایکسپریس وے جلد ہی آپ کا استقبال کرنے والے ہیں۔ چار دھام آل ویدر روڈ اتراکھنڈ کے لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاحوں اور عقیدت مندوں کو ایک نیا احساس دے رہے ہیں۔ اب ہر کوئی سیاح جو دوسری ریاستوں سے اتراکھنڈ آ رہا ہے، وہ یہاں سے سفر کا انوکھا تجربہ لے کر جاتا ہے۔ دہلی دہرہ دون اکنامک کوریڈور سے دہلی دہرہ دن کی دوری تو کم ہوگی ہی، اس سے اتراکھنڈ کی صنعتوں کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔
بھائیوں اور بہنوں،
جدید کنیکٹویٹی قومی سلامتی کی بھی گارنٹی ہوتی ہے۔ اس لیے گزشتہ 8 سالوں سے ہم اس سمت میں ایک کے بعد ایک قدم اٹھا رہے ہیں۔ کچھ سال پہلے ہم نے کنیکٹویٹی کی 2 بڑی اسکیمیں شروع کی تھیں۔ ایک بھارت مالا اور دوسری ساگر مالا۔ بھارت مالا کے تحت ملک کے سرحدی علاقوں کو بہترین اور چوڑے ہائی وے سے جوڑا جا رہا ہے۔ ساگر مالا سے اپنے سمندری ساحلوں کی کنیکٹویٹی کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں جموں و کشمیر سے لے کر اروناچل پردیش تک بارڈر کنیکٹویٹی کی بھی شاندار توسیع ہم نے کی ہے۔ 2014 کے بعد سے بارڈر روڈ آرگنائزیشن نے قریب قریب 7 ہزار کلومیٹر نئی سڑکوں کی تعمیر کی ہے، سینکڑوں پل بنائے ہیں۔ بہت سی اہم سرنگوں کا بھی کام پورا کیا ہے۔ ایک وقت تھا، جب بارڈر کنارے سڑک بنانے کے لیے بھی دہلی سے منظوری لینی پڑتی تھی۔ ہم نے نہ صرف اس لازمیت کو ختم کیا بلکہ باڈر کنارے اچھی سڑکیں بنانے پر، تیزی سے سڑکیں بنانے پر زور دے دیا۔ اب پہاڑی ریاستوں کی کنیکٹویٹی کو اور بہتر بنانے کے لیے ہم نے خاص طور پر جیسے ساگر مالا ہے، ویسے بھارت مالا ہے، ویسے اب پروت مالا کا کام آگے بڑھنے والا ہے۔ اس کے تحت اتراکھنڈ اور ہماچل میں روپ وے کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک بننا شروع ہو چکا ہے۔ ہمارے یہاں جب ہم بارڈر کی بات سنتے ہیں، تو یہی من میں آتا ہے کہ وہاں صرف فوجی ساتھی ہوں گے، باقی سب ویران ہوگا۔ لیکن اس تصور کو بھی ہمیں بدلنا ہے اور زمینی سطح پر بھی اس کو ہمیں بدل کر رہنا ہے۔ ہمارے بارڈر کے گاؤوں میں چہل پہل بڑھنی چاہیے، وہاں ترقی کی زندگی کا جشن مننا چاہیے، یہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔ اور ہم تو کہتے ہیں جو کبھی گاؤں چھوڑ کر کے گئے ہیں، ان کو اپنے گاؤں واپس لوٹنے کا من کر جائے، ایسے مجھے زندہ گاؤں کھڑے کرنے ہیں۔ اور میں کہہ رہا ہوں ایسا نہیں میں کرکے آیا ہوں۔ گجرات کے اندر پاکستان کی سرحد پر آخری گاؤں ہے کچھّ کے ریگستان میں دھورڑو۔ آج دھورڑو بہت بڑا ٹورسٹ سینٹر بنا ہوا ہے۔ لاکھوں لوگ ہر سال آتے ہیں، وہاں کے لوگوں کے لیے کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ آخری گاؤں کو زندہ کر دیا، اس کی وجہ سے پورا علاقہ زندہ ہو گیا۔
ابھی میں نے پاکستان کی سرحد پر گجرات کا ایک دوسرا علاقہ ہے ریگستان میں ایک تیرتھ استھان تھا، ایک ماں کا استھان تھا۔ وہاں بہت بڑا استھان بنا دیا۔ اور ابھی اتراکھنڈ کے افسروں کو میں نے بھیجا تھا۔ ذرا دیکھ کر آئیے، کیا مانا کے آس پاس ہم ایسا کچھ کر سکتے ہیں کیا؟ میں سوچ رہا ہوں، میں بارڈر کے گاؤوں میں کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے، اس میں دماغ میں کھپائے بیٹھا ہوں، اور اسی لیے میں آج آیا ہوں۔ کیوں کہ میں اس کو ذرا اور بڑی باریکی سے سمجھنا چاہتا ہوں۔ اور یہاں مانا سے مانا درّہ تک جو سڑک بنے گی، اس سے مجھے پختہ یقین ہے سیاحوں کو آنے جانے کے لیے ایک بڑا نیا دور شروع ہو جائے گا۔ لوگ اب بدری وشال سے واپس نہیں جائیں گے۔ جب تک مانا درّہ نہیں جاتے ہیں واپس نہیں جائیں گے، وہ حالت میں پیدا کرکے رہوں گا بھائیوں۔ اسی طرح جوشی مٹھ سے ملاری سڑک کو چوڑا کرنے سے عام لوگوں کے ساتھ ہی ہمارے فوجیوں کے لیے بھی بارڈر تک پہنچنا بہت آسان ہوگا۔
بھائیوں اور بہنوں،
ہماری پہاڑی ریاستوں کی چنوتیاں بھی ایک جیسی ہیں۔ ترقی کی آرزوئیں بھی بہت قوی ہیں۔ خاص طور سے اتراکھنڈ اور ہماچل تو جغرافیہ اور روایت کے حساب سے بھی ایک دوسرے سے کئی معاملوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ گڑھوال ہے، اور اترکاشی کے، دہرہ دون کے اس طرف آپ کے شملہ اور سرمور آ گئے۔ جونسار اور سرمور کے گیری پاری میں تو فرق کرنا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے۔ میں تو ابھی ہماچل کے کئی علاقوں میں جا کر آیا ہوں۔ وہاں اتراکھنڈ کی بہت چرچہ ہے۔ ہماچل والے کہہ رہے ہیں کہ جس طرح اتراکھنڈ نے تیز ترقی کے لیے، تاریخی مقامات، عقیدت کے مقامات کی ترقی کے لیے، بارڈر اور پہاڑی علاقوں کی سہولت بڑھانے کے لیے، ڈبل انجن کی سرکار کو دوبارہ لے آئے ہیں، وہی منتر ہماچل کو بھی حوصلہ فراہم کر رہا ہے۔ میں اتراکھنڈ کو پھر یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی امیدوں آرزوؤں کو پورا کرنے کے لیے ہماری محنت کبھی کم نہیں ہوگی۔ میں بابا کیدار اور بدری وشال سے اس عوامی اعتماد پر کھرا اترنے کا آشیرواد مانگنے بھی یہاں آیا ہوں۔ ایک بار پھر ترقی کے لیے ترقی کے پروجیکٹوں کے لیے میں آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ اور اتنی بڑی تعداد میں آپ آشیرواد دینے آئے، مائیں بہنیں آئیں۔ شاید آج گھر میں کوئی نہیں ہوگا۔ چھوٹا سا مانا آج پورا یہاں ماحول بدل دیا ہے۔ میں کتنا خوش قسمت ہوں، جب یہ مائیں بہنیں مجھے آشیرواد دیں۔ آج سچ مچ میری زندگی مالا مال ہو گئی ہے۔ میں دیوالی کی آپ سبھی کو پیشگی مبارکباد دیتا ہوں۔ اور میں آپ کی اچھی صحت کے لیے، آپ کے بچوں کی بہتر ترقی کے لیے بدری وشال کے قدموں میں پرارتھنا کرتے ہوئے اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں۔
میرے ساتھ پوری طاقت سے بولئے – بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے۔
جے بدری وشال، جے بدری وشال، جے بدری وشال۔
جے بابا کیدار، جے بابا کیدار، جے بابا کیدار۔
*****
ش ح – ق ت – ت ع
U: 11733
Kedarnath and Badrinath are significant to our ethos and traditions. https://t.co/68IErTo24N
— Narendra Modi (@narendramodi) October 21, 2022
PM @narendramodi begins his speech at a programme in Badrinath. pic.twitter.com/S62ckFYewx
— PMO India (@PMOIndia) October 21, 2022
For me every village on the border is the first village in the country, says PM @narendramodi pic.twitter.com/GwsI7fQQfM
— PMO India (@PMOIndia) October 21, 2022
Two major pillars for developed India of the 21st century. pic.twitter.com/iFhOtXprYz
— PMO India (@PMOIndia) October 21, 2022
We have to completely free ourselves from the colonial mindset. pic.twitter.com/qaQ6uEOoGl
— PMO India (@PMOIndia) October 21, 2022
आस्था के ये केंद्र सिर्फ एक ढांचा नहीं बल्कि हमारे लिए प्राणवायु हैं। pic.twitter.com/wsJjsh0aRJ
— PMO India (@PMOIndia) October 21, 2022
Enhancing 'Ease of Living' for the people in hilly states. pic.twitter.com/L0ZHHGXK6L
— PMO India (@PMOIndia) October 21, 2022
We began working with utmost priority in the areas which were ignored earlier. pic.twitter.com/ci5w2DNljL
— PMO India (@PMOIndia) October 21, 2022
Our focus is on improving multi-modal connectivity in the hilly states. pic.twitter.com/9hjG7AG1AI
— PMO India (@PMOIndia) October 21, 2022
आधुनिक कनेक्टिविटी राष्ट्ररक्षा की भी गांरटी होती है। pic.twitter.com/h69bxCI0En
— PMO India (@PMOIndia) October 21, 2022