Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

آئی این ایس سورت، آئی این ایس نیلگیری اور آئی این ایس واگھشیر کی  کمیشننگ پر وزیر اعظم کی تقریر کا متن

آئی این ایس سورت، آئی این ایس نیلگیری اور آئی این ایس واگھشیر کی  کمیشننگ پر وزیر اعظم کی تقریر کا متن


مہاراشٹر کے گورنر سی پی رادھا کرشنن جی،مہاراشٹر کے مقبول وزیر اعلی دیویندر فڑنویس جی،کابینہ کے میرے سینئر ساتھی محترم راجنات سنگھ جی،سنجے سیٹھ جی،مہاراشٹر کے وزیراعلی ،ان کے ساتھ آج ہمارے دونوں نائب وزرائےاعلی بھی ہیں،نائب وزرائے الی محترم  ایکناتھ شندے جی،اجیت پوار جی،سی ڈی ایس ،سی این ایس  ،بحریہ  کے ساتھ ساتھی،مجھگاؤں ڈاک یارڈ میں کام کرنے والے سبھی ساتھ ،دیگر  معزز مہمان ،خواتین و حضرات؛

15جنوری کے دن  آرمی ڈے کے طورپر بھی منایا جاتا ہے۔ملک کی حفاظت کےلئے اپنی زندگی  وقف کرنے والے ہر جانباز کو میں سلام کرتا ہوں ،ماں  بھارتی کی حفاظت میں لگے ہر ویر-ویرانگنا  کو میں آج کے دن مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

آج کا یہ پروگرام ہماری شاندار وراثت کو مستقبل کی امنگوں سے جوڑتا ہے۔ طویل سمندری سفر، تجارت، بحری دفاع، جہاز رانی کی صنعت، ان سب میں ہماری ایک خوشحال تاریخ رہی  ہے۔ اپنے ماضی سے تحریک لیتے ہوئے، آج کا بھارت دنیا کی ایک بڑی سمندری طاقت بن رہا ہے۔ آج جو پلیٹ فارمز لانچ ہوئے ہیں، ان میں بھی اس کی جھلک ہے۔

اب جیسے ہمارا نیلگری، چول خاندان کی سمندری صلاحیت کے لیے وقف ہے۔ سورت وارشپ، اس دور کی یاد دلاتا ہے، جب گجرات کی بندرگاہوں کے ذریعے بھارت مغربی ایشیا سے جڑا ہوا تھا۔ آج کے دن ان دونوں شپس کے ساتھ واگھشیر  سب میرین کی کمیشننگ بھی ہو رہی ہے۔

کچھ سال قبل مجھے پی-75 کلاس کی پہلی سب میرین، کلاوری  کی کمیشننگ میں شامل ہونے کا موقع ملا تھا۔ آج مجھے اس کلاس کی چھٹی سب میرین واگھشیر کو کمیشن کرنے کا اعزاز ملا ہے۔ یہ نئے فرنٹیئر پلیٹ فارمز بھارت کی سلامتی اور ترقی دونوں کو نئی صلاحیت دیں گے۔

ساتھیوں،

آج بھارت پوری دنیا اور خاص طور پر گلوبل ساؤتھ میں ایک قابل اعتماد اور ذمہ دار ساتھی کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔ بھارت توسیع پسندی نہیں، بلکہ ترقی پسندی کے جذبے کے ساتھ کام کرتا ہے۔ بھارت نے ہمیشہ کھلے، محفوظ، جامع اور خوشحال بھارت-بحرالکاہل خطے کی حمایت کی ہے۔اسی لیے جب سمندر سے لگنے والے ممالک کی ترقی کی بات آئی، تو بھارت نے ایک منتر دیا: ساگر۔ ساگر کا مطلب ہے – خطے میں سبھی کےلئے سکیورٹی اور ترقی ۔ ہم ساگر کے وژن کے ساتھ آگے بڑھے۔جب بھارت کو جی-20 کی صدارت سنبھالنے کی ذمہ داری ملی، تو دنیا کو ہم نے ایک نیا منتر دیا – ایک کرہ ارض،ایک کنبہ ،ایک مستقبل۔ جب دنیا کورونا سے لڑتے ہوئے تھک چکی تھی، تو بھارت نے وژن دیا – ایک کرہ ارض ایک صحت۔ہم پوری دنیا کو اپنا کنبہ  سمجھتے ہیں اور ‘‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’’ کے اصول پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ اسی لیے اس پورے خطے کی دفاع اور سلامتی کو بھی بھارت اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔

ساتھیوں،

گلوبل سیکیورٹی، معیشت، اور جیوپولیٹیکل ڈائنامکس کو سمت دینے میں بھارت جیسے سمندری ملک کا کردار بہت بڑا ہونے والا ہے۔ اقتصادی ترقی اور انرجی سکیورٹی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ٹیریٹوریل واٹرز کی حفاظت کی جائے، نیویگیشن کی آزادی کو یقینی بنایا جائے، اور تجارت کی سپلائی لائن اور سمندری راستے محفوظ رہیں۔

ہمیں دہشت گردی، ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ سے اس پورے خطے کو محفوظ رکھنا ہے۔ اسی لیے آج ضروری ہے کہ سمندر کو محفوظ اور خوشحال بنانے میں ہم عالمی شراکت دار بنیں، ہم لاجسٹکس کی کارکردگی بڑھانے اور جہاز رانی کی صنعت کے لیے کام کریں۔ ہمیں نایاب معدنیات، فش اسٹاک جیسے سمندری وسائل کے غلط استعمال کو روکنے اور انہیں منظم کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہے۔

ہمیں نئے بحری  راستے اور سی لینز آف کمیونیکیشن کو تلاش کرنے میں سرمایہ کاری کرنی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج بھارت اس سمت میں مسلسل قدم بڑھا رہا ہے۔ بھارت پورے بحر ہند خطے میں فرسٹ ریسپانڈر کے طور پر بھی ابھرا ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں ہی ہماری بحریہ نے سیکڑوں جانیں بچائی ہیں، ہزاروں کروڑ روپے کے قومی اور بین الاقوامی کارگو کی حفاظت کی ہے۔اس سے دنیا کا بھارت پر اعتماد بڑھا ہے، آپ سب کی وجہ سے بڑھا ہے، اور اسی لیے آج میں آپ سب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بھارتی بحریہ اور کوسٹ گارڈ پر بھی مسلسل اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔آج آپ بھی دیکھ رہے ہیں کہ آسیان ہو، آسٹریلیا ہو، گلف ہو، یا افریقہ کے ممالک، سب کے ساتھ بھارت کا اقتصادی تعاون مسلسل مضبوط ہو رہا ہے۔ ان تعلقات کی اس مضبوطی میں بحرہند خطے میں بھارت کی موجودگی اور اس کی صلاحیت ایک بہت بڑی  بنیاد ہے۔اسی لیے آج کا یہ پروگرام فوجی نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ اقتصادی نقطہ نظر سے بھی اتنا ہی اہم ہے۔

ساتھیوں،

21ویں صدی کے بھارت کی فوجی صلاحیت زیادہ قابل، جدید اور طاقتور ہو، یہ ملک کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ چاہے زمین ہو، سمندر ہو، آسمان ہو، گہرے سمندر ہوں یا لا محدود خلا، بھارت ہر جگہ اپنے مفادات کی حفاظت کر رہا ہے۔ اس کے لیے مسلسل اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا قیام، ایک اہم اصلاحات ہے۔ ہماری افواج کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے تھیٹر کمانڈز کی سمت میں بھی بھارت آگے بڑھ رہا ہے۔

ساتھیوں،

پچھلے 10 سالوں میں، جس طرح بھارت کی تینوں افواج نے خود انحصاری کے منتر کو اپنایا ہے، وہ بہت ہی قابلِ تعریف ہے۔ بحران کے وقت دوسرے ممالک پر بھارت کا انحصار کم سے کم ہو، اس سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے آپ سب اس کام کو آگے بڑھا رہے ہیں اور قیادت کر رہے ہیں۔ ہماری افواج نے پانچ ہزار  سے زیادہ ایسے سامان اور آلات کی فہرست تیار کی ہے، جو اب وہ بیرون ملک سے نہیں منگوائیں گی۔ جب بھارت کا سپاہی بھارت میں بنے سامان کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، تو اس کا اعتماد بھی کچھ الگ ہی ہوتا ہے۔

پچھلے 10 سالوں میں کرناٹک میں ملک کی سب سے بڑی ہیلی کاپٹر بنانے والی فیکٹری شروع ہوئی ہے۔ افواج کے لیے ٹرانسپورٹ ایئرکرافٹ بنانے والی فیکٹری شروع ہوئی۔ تیجس فائٹر پلین نے بھارت کی ساکھ کو آسمان کی نئی بلندیوں پر پہنچایا ہے۔ اتر پردیش اور تمل ناڈو میں بن رہے ڈیفنس کاریڈورز، دفاعی پیداوار کو مزید رفتار دینے والے ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ ہماری نیوی نے بھی میک ان انڈیا مہم کو بہت زیادہ وسعت دی ہے۔ اس میں مجھگاؤں ڈاکیارڈ کے آپ سبھی ساتھیوں کا بہت بڑا کردار ہے۔پچھلے 10 سالوں میں بحریہ  میں 33 جہاز اور 7 آبدوزیں شامل کی گئی ہیں۔ ان 40 نیول ویسلز میں سے 39 بھارتی شپ یارڈز میں ہی بنے ہیں۔ ان میں ہمارا عظیم الشان آئی این ایس  وکرانت ایئرکرافٹ کیریئر، اور آئی این ایس  ارِہنت اور آئی این ایس  اریگھات جیسی نیوکلیئر سب میرینز بھی شامل ہیں۔ میک ان انڈیا کو ایسی رفتار دینے کے لیے میں ملک کی تینوں افواج کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آج بھارت کی دفاعی پیداوار سوا لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ہم 100 سے زیادہ ممالک کو دفاعی ساز و سامان برآمد کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے تعاون سے، آج بھارت تیزی سے اپنے دفاعی شعبے کا مکمل بدلاؤ کر کے دکھائے گا۔

ساتھیوں،

میک ان انڈیا سے بھارت کی افواج کی صلاحیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ، اقتصادی ترقی کے نئے دروازے بھی کھل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، شپ بلڈنگ ایکو سسٹم کا ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے، ماہرین کہتے ہیں کہ شپ بلڈنگ میں جتنا سرمایہ لگایا جائے، اس کا دوگنا مثبت اثر معیشت پر پڑتا ہے۔ یعنی اگر ہم شپ بلڈنگ میں 1 روپیہ لگاتے ہیں، تو معیشت میں تقریباً 1 روپیہ 82 پیسے کا سرکولیشن ہوتا ہے۔

آپ سوچئے، ابھی ملک میں 60 بڑے جہاز زیر تعمیر ہیں۔ ان کی قیمت تقریباً ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے کے قریب ہے۔ یعنی اتنی سرمایہ کاری سے تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپے کا سرکولیشن ہماری معیشت میں ہوگا۔ اور روزگار کے معاملے میں تو اس کا چھ گنا ملٹی پلائر اثر ہوتا ہے۔ جہازوں کا زیادہ تر سامان اور پارٹس ملک کے ایم ایس ایم ای ز سے ہی آتا ہے۔ اس لیے اگر 2000 ورکرز ایک جہاز بنانے کے کام میں لگتے ہیں، تو دوسری انڈسٹری، جو ایم ایس ایم ای سپلائر ہے، اس میں تقریباً 12 ہزار روزگار پیدا ہوتے ہیں۔

ساتھیوں،

آج بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہماری مینوفیکچرنگ اور برآمداتی صلاحیت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آنے والے سالوں میں بھارت کو سیکڑوں نئے جہازوں اور کنٹینرز کی ضرورت ہوگی۔ اسی لیے پورٹ لیڈ ڈیولپمنٹ کا یہ ماڈل ہماری معیشت کو رفتار دینے اور روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیدا کرنے والا ہے۔

ساتھیوں،

اس شعبے میں روزگار کس طرح بڑھ رہا ہے، اس کی ایک مثال سی فیئررز کی تعداد ہے۔ 2014 میں بھارت میں سی فیئررز کی تعداد سوا لاکھ سے بھی کم تھی۔ آج یہ دوگنے سے زیادہ بڑھ کر تقریباً 3 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ آج بھارت سی فیئررز کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کے سرکردہ پانچ ممالک میں آ گیا ہے۔

ساتھیو،

ہماری حکومت کی  تیسری مدت  کار کئی بڑے فیصلوں کے ساتھ شروع ہوئی ہے۔ تیز رفتار سے ہم نے نئی پالیسیاں بنائیں، ملک کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے کام شروع کیے۔ ملک کے ہر کونے اور ہر شعبے کی ترقی کو ہدف بناتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے ہیں، اور پورٹ سیکٹر کا فروغ بھی اسی کا حصہ ہے۔

ہمارے تیسرے مدت کار کے پہلے بڑے فیصلوں میں سے ایک تھا، مہاراشٹر کے واڈھون پورٹ کو منظوری دینا۔ 75 ہزار کروڑ روپے کے خرچ سے اس جدید پورٹ کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے۔ اس سے بھی مہاراشٹر میں روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

ساتھیوں،

بہت لمبے وقت تک سرحدی اور ساحلی علاقوں سے جڑے رابطہ کاری کے انفراسٹرکچر پر اتنا دھیان نہیں دیا گیا۔ گزشتہ دس سالوں میں اس کے لیے بے مثال کام ہوا ہے۔ دو دن پہلے ہی مجھے جموں و کشمیر میں سونمرگ ٹنل کا افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ اس سے کارگل، لداخ جیسے سرحدی علاقوں تک پہنچنا بہت آسان ہوگا۔پچھلے سال اروناچل پردیش میں سیلا ٹنل کا افتتاح ہوا، جو ایل اے سی  تک ہماری فوج کی رسائی کو آسان بنا رہی ہے۔ آج شنکن لا ٹنل اور زو جیلا ٹنل جیسے کئی اہم انفراسٹرکچر پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ بھارت مالا منصوبے سے سرحدی علاقوں میں شاندار قومی شاہراہوں  کا نیٹ ورک بنایا جا رہا ہے۔ وائبریٹ ولیج پروگرام آج سرحدی دیہاتوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔گزشتہ دہائی میں ہم نے اپنے دور دراز کے جزائر پر بھی توجہ دی ہے۔ جہاں کوئی نہیں رہتا، ان جزائر کی بھی باقاعدہ نگرانی کی جا رہی ہے۔ یہی نہیں، اب ان جزائر کو نئی شناخت بھی دی جا رہی ہے اور انہیں نیا نام دیا جا رہا ہے۔

اتنا ہی نہیں، ہند مہا ساگر میں سمندر کی تہہ پر موجود سمندری پہاڑ یا سماؤنٹ کے بھی نام رکھے جا رہے ہیں۔ پچھلے سال بھارت کی پہل پر بین الاقوامی ادارے نے ایسے پانچ مقامات کو نام دیے ہیں۔ ہند مہا ساگر میں اشوک سماؤنٹ، ہرس وردھن سماؤنٹ، راجہ راجہ چولا سماؤنٹ، کلپ ترُو رج، اور چندرگپت رج بھارت کا فخر بڑھا رہے ہیں۔

ساتھیوں،

ہم سب جانتے ہیں کہ مستقبل میں لامحدود خلا اور گہرے سمندر دونوں کی کتنی اہمیت ہے۔ اسی لیے آج خلا اور گہرے سمندر دونوں جگہ بھارت اپنی صلاحیتوں کو بڑھا رہا ہے۔ ہمارا سمندر یان پروجیکٹ سائنس دانوں کو سمندر کی 6000 میٹر گہرائی تک لے جانے والا ہے، جہاں اب تک صرف چند ممالک پہنچ پائے ہیں۔ یعنی مستقبل کے کسی بھی امکان پر کام کرنے میں ہماری حکومت کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔

ساتھیوں،

21ویں صدی کا بھارت پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے، اس کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم غلامی کی علامتوں سے بھی آزاد ہوں۔ اور ہماری بحریہ نے اس میں بھی قیادت دکھائی ہے۔ بحریہ نے اپنے پرچم کو چھترپتی شیواجی مہاراج کی شاندار روایت سے جوڑا ہے۔ بحریہ  نے ایڈمرل رینک کے اپولٹس کو بھی چھترپتی شیواجی مہاراج کی روایت کے مطابق دوبارہ ڈیزائن کیا ہے۔ میک ان انڈیا کا مشن، بھارت کی خود انحصاری کا مشن بھی غلامی کی ذہنیت سے آزادی کو فروغ دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سب اسی طرح بھارت کو فخر سے بھرے لمحے دیتے رہیں گے۔ ہر وہ کام جو بھارت کو ترقی یافتہ بنانے میں مدد دے، ہمیں مل کر کرنا ہے۔ ہمارے فرائض مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن سب کا مقصد ایک ہی ہے—ترقی یافتہ بھارت۔

آج جو یہ نئے فرنٹیئر پلیٹ فارمز ملک کو ملے ہیں، ان سے ہمارے عزم کو مضبوطی ملے گی۔

اور ساتھیوں،

ذرا ہلکی پھلکی بات کرنی ہے تو میرا تجربہ یہ رہا ہے کہ میں جتنے بھی فوجی پروگراموں میں گیا ہوں، کھانے کے انتظامات میں اگر کسی کی سب سے اعلیٰ اہتمام ہوتا ہے تو وہ نیوی کا ہے، متنوع اور شاندار۔ اور آج اس میں سورت کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ہم سب کو ایک مشہور کہاوت یاد ہوگی، اور میں کیپٹن سندیپ سے کہوں گا کہ اسے غور سے سنیں، کہاوت ہے:”سورت کا جمّن اور کاشی کا مرن”،یعنی سورت کا کھانا اتنا ہی عظیم اور شاندار ہوتا ہے۔ اب جب سورت لانچ ہو رہا ہے، تو مجھے یقین ہے کہ کیپٹن سندیپ سورت کا کھانا بھی لوگوں کو کھلائیں گے۔

ساتھیوں،

یہ ایک شاندار موقع ہے، پورا ملک آپ کو مبارکباد دے رہا ہے، پورا ملک فخر محسوس کر رہا ہے۔ اور اسی لیے ایک نئے اعتماد، نئی امنگ، اور نئے جوش کے ساتھ ترقی یافتہ بھارت کے عزم کو پورا کرنے کے لیے ہم اپنی پوری طاقت سے ساتھ آئیں۔

آج کے اس موقع پر ان تینوں اہم اقدامات اور انمول تحفوں کے لیے آپ سب کو مبارکباد دیتے ہوئے، میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات۔ پوری قوت سے میرے ساتھ بولیے—

بھارت ماتا کی جے!

کم سے کم اس پروگرام میں یہ آواز سب سے زیادہ گونجنی چاہیے۔

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بہت بہت شکریہ۔

*************

(ش ح ۔ا م/ج 

U.No. 5233