Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

محترمہ اندراگاندھی

۲۴؍جنوری، ۱۹۶۶ - ۲۴؍مارچ، ۱۹۷۷ | (کانگریس)

محترمہ اندراگاندھی


۱۹ نومبر ۱۹۱۷ کو ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئیں، محترمہ اندرا گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے اکولے نوویلے، بیکس (سوئیٹزرلینڈ)، اکولے انٹرنیشنل، جنیوا، پونا اور بمبئی میں واقع پوپلس اون اسکول، بیڈمنٹن اسکول، برسٹل، وشوبھارتی، شانتی نکیتن اور سمر ولے کالج، آکسفورڈ جیسے معزز اداروں سے تعلیم حاصل کی۔ انہیں تمام عالم کی متعدد سرکردہ یونیورسٹیوں کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی۔ غیر معمولی علمی پس منظر رکھنے کی بنا پر انہیں کولمبیا یونیورسٹی کی جانب سے خصوصی میرٹ سرٹفکیٹ سے نوازا گیا۔ محترمہ اندرا گاندھی فعال طور پر جدوجہدِ آزادی میں شامل تھیں۔ اپنے بچپن کے زمانے میں انہوں نے عدم تعاون تحریک کے دوران، کانگریس پارٹی کی مدد کرنے کے مقصد سے ۱۹۳۰میں ’بال چرخہ سنگھ‘ اور بچوں کی ’وانر سینا‘ قائم کی۔ ستمبر ۱۹۴۲ میں وہ جیل گئیں اور ۱۹۴۷ میں گاندھی جی کی رہنمائی میں دہلی کے فساد زدہ علاقوں میں کام کیا۔
 
انہوں نے ۲۶؍ مارچ ۱۹۴۲ کو فیروز گاندھی سے شادی کی۔ ان کے دو بیٹے تھے۔ ۱۹۵۵میں محترمہ گاندھی کانگریس ورکنگ کمیٹی اور مرکزی انتخابی کمیٹی کی رکن بنیں۔ ۱۹۵۸ میں وہ کانگریس کی مرکزی پارلیمانی بورڈ کی رکن مقرر کی گئیں۔ وہ اے آئی سی سی کے قومی یکجہتی کونسل کی چیئرپرسن، ۱۹۵۶ میں آل انڈیا یوتھ کانگریس صدر اور اے آئی سی سی کے خواتین کے شعبے کی صدر رہیں۔ وہ ۱۹۵۹ سے ۱۹۶۰ تک انڈین نیشنل کانگریس کی صدر رہیں۔ بعد میں جنوری ۱۹۷۸ سے وہ دوبارہ اس عہدے پر فائز ہوئیں۔
 
وہ ۱۹۶۴ سے ۱۹۶۶ تک اطلاعات و نشریات کی وزیر رہیں۔ اس کے بعد وہ ۱۹۶۶ سے ۱۹۷۷ تک بھارت کی وزیر اعظم رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ، ستمبر ۱۹۶۷ سے مارچ ۱۹۷۷ کے دوران، ایٹمی توانائی کی وزیر رہیں۔ انہوں نے ۵؍ستمبر ۱۹۶۷ سے ۱۴؍ فروری ۱۹۶۹ کی مدت کے دوران، خارجی امور کی وزارت کا اضافی چارج بھی سنبھالا۔ محترمہ گاندھی نے، جون ۱۹۷۰ سے نومبر ۱۹۷۳ تک، خارجی امور کی وزارت اور جون ۱۹۷۲ سے مارچ ۱۹۷۷ تک خلائی امور کی وزارت سنبھالی۔ جنوری ۱۹۸۰ سے وہ منصوبہ بندی کمیشن کی چیئرپرسن رہیں۔ ۱۴؍ جنوری ۱۹۸۰، کو ایک مرتبہ پھر وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئیں۔
 
محترمہ اندرا گاندھی کا مختلف تنظیموں اور اداروں سے تعلق تھا، جن میں کملا نہرو میموریل اسپتال، گاندھی اسمارک ندھی اور کستوربہ گاندھی میموریل ٹرسٹ شامل ہیں۔ وہ سواراج بھون ٹرسٹ کی چئیرپرسن تھیں۔ ۱۹۵۵ میں وہ بال سہیوگ، بال بھون بورڈ اور چلڈرنس نیشنل میوزیم سے بھی وابستہ رہیں۔ محترمہ گاندھی نے الہٰ آباد میں کملا نہرو ودیالیہ قائم کیا۔ ۷۷۔۱۹۶۶ کے دوران وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور شمال مشرقی یونیورسٹی جیسے کچھ اہم اداروں سے بھی منسلک رہیں۔ انہوں نے دہلی یونیورسٹی کورٹ، یونیسکو کے لئے ہندوستانی وفد (۶۴۔۱۹۶۰)، ۱۹۶۰ سے ۱۹۶۴ یونیسکو کے اگزیکیوٹیو بورڈ کی رکن اور ۱۹۶۲میں قومی دفاعی کونسل کی رکن کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ سنگیت ناٹک اکادمی، قومی یکجہتی کونسل، ہمالیائی کوہ پیمائی ادارے، دکشن بھارت ہندی پرچار سبھا، نہرو میمورئیل میوزیم، لائبریری سوسائٹی اور جواہر لال نہرو میمورئیل فنڈ جیسے اداروں سے بھی وابستہ رہیں۔
 
محترمہ گاندھی اگست ۱۹۶۴ میں راجیہ سبھا کی رکن بنیں اور فروری ۱۹۶۷ تک رکن رہیں۔ چوتھے، پانچویں اور چھٹے سیشن کے دوران وہ لوک سبھا کی رکن رہیں۔ جنوری ۱۹۸۰ میں وہ رائے بریلی (اترپردیش) اور میدک (آندھرا پردیش) سے ساتویں مرتبہ لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئیں۔ انہوں نے رائے بریلی کی نشست ترک کرکے میدک نشست کو منتخب کیا۔ انہیں ۷۷۔۱۹۶۷ اور اس کے بعد ۱۹۸۰ میں کانگریس پارلیمانی پارٹی کا لیڈر منتخب کیا گیا۔
 
مختلف مضامین میں دلچسپی رکھنے والی محترمہ گاندھی، زندگی کو ایک مربوط عمل کے طور پر دیکھتی تھیں، جہاں اعمال اور دلچسپیاں زندگی کے دو الگ الگ پہلو ہیں، جنہیں نہ تو خانوں میں اور نہ ہی مختلف زمروں میں الگ الگ رکھا جا سکتا ہے۔
 
زندگی میں ان کی متعدد حصولیابیاں رہیں۔ ۱۹۷۲ میں انہیں بھارت رتن سے نوازا گیا، ۱۹۷۲ میں بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے میکسیکن اکادمی ایوارڈ، ایف اے او کا دوسرا سالانہ تمغہ اور ۱۹۷۶ میں ناگری پرچارنی سبھا کے ذریعہ ساہتیہ واچسپتی (ہندی) ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۱۹۵۳ میں یو ایس اے میں محترمہ گاندھی کو مدر ایوارڈ ملا، سفارتکاری کے میدان میں شاندار کارکردگی کے لئے اٹلی نے ازابیلا ڈی ایسٹے ایوارڈ اور ییل یونیورسٹی نے ہاؤلینڈ میمورئیل ایوارڈ سے نوازا۔ رائے عامہ کے فرانسیسی ادارے کے ایک جائزے کے مطابق وہ ۱۹۶۷ اور ۱۹۶۸ میں فرانس کی بہت ہی مقبول عام شخصیت تھیں۔ ۱۹۷۱ میں یو ایس اے کے ایک خاص گیلپ رائے شماری جائزے کے مطابق، وہ دنیا کی سب سے مقبول عام شخصیت تھیں۔ جانوروں کے تحفظ کے لئے ۱۹۷۱ میں ارجنٹائن سوسائٹی کے ذریعہ انہیں اعزازی ڈگری دی گئی۔
 
ان کی مشہور اشاعتوں میں ’دی ایئرس آف چیلینج‘ (۶۹۔۱۹۶۶)، ’دی ایئرس آف اینڈیور‘ (۷۲۔۱۹۶۹)، ’انڈیا‘ (لندن) ۱۹۷۵، ’اِنڈے‘ (لوسین) اور تصانیف و تقاریر کے مختلف مجموعے شامل ہیں۔ انہوں نے وسیع پیمانےپر بھارت اور پورے عالم کا سفر کیا۔ محترمہ گاندھی نے پڑوسی ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، میانمار، چین، نیپال اور سری لنکا کا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ فرانس، عوامی جمہوریہ جرمن، وفاقی جمہوریہ جرمن، گیانا، ہنگری، ایران، عراق اور اٹلی جیسے ممالک کا سرکاری دورہ کیا۔ محترمہ گاندھی نے الجیریا، ارجنٹائن، آسٹریلیا، آسٹریا، بیلجیم، برازیل، بلغاریہ، کناڈا، چلی، چیکوسلوواکیہ، بولیوا اور مصر جیسے بہت سے ممالک کا دورہ کیا۔ انہوں نے بہت سے یوروپی، امریکی اور ایشیائی ممالک کا دورہ کیا جن میں انڈونیشیا، جاپان، جمائیکا، کینیا، ملیشیا، ماریشس، میکسکور، نیدرلینڈس، نیوزی لینڈ، نائیجیریا، عمان، پولینڈ، رومانیہ، سنگاپور، سوئیٹزرلینڈ، شام، سویڈن، تنزانیہ، تھائی لینڈ، ترینیداد اینڈ ٹوبیگو، یو اے ای، برطانیہ، یو ایس اے، یو ایس ایس آر، یوراگوئے، وینیزویلا، یوگوسلاویہ، زامبیا اور زمبابوے جیسے ممالک شامل ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرس میں بھی اپنی موجودگی درج کرائی۔