پی رنگا راؤ کے بیٹے، جناب پی وی نرسمہا راؤ، ۲۸؍ جون ۱۹۲۱ کو، کریم نگر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد، بامبے یونیورسٹی اور ناگپور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ جناب پی وی نرسمہاراؤ کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔
پیشے سے ماہر زراعت اور وکیل، جناب نرسمہا راؤ سیاست میں داخل ہوئے اور کچھ اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ۶۴۔ ۱۹۶۲ کے دوران، وہ آندھرا پردیش حکومت میں وزیر برائے قانون و اطلاعات رہے؛ ۶۷۔۱۹۶۴ کے دوران، وہ قانون و اوقاف کے وزیر رہے؛ ۱۹۶۷ میں صحت و ادویہ اور ۱۹۶۸ سے ۱۹۷۱ تک وہ وزیر برائے تعلیم رہے۔ ۷۳۔۱۹۷۱ کی مدت کے دوران، وہ آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے؛ ۷۶۔۱۹۷۵ کے دوران، آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری کے فرائض انجام دیے۔ کی مدت کے دوران، تیلگو اکیڈمی، آندھرا پردیش کے چیئرمین رہے۔ ۱۹۷۲ سے دکشن بھارت ہندی پرچار سبھا، مدراس کے نائب صدر رہے؛ ۷۷۔۱۹۵۷ کی مدت کے دوران، وہ آندھرا پردیش لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن رہے؛ ۱۹۷۷ سے ۱۹۸۴ تک لوک سبھا کے رکن رہے اور دسمبر ۱۹۸۴ میں رام ٹیک سے آٹھویں لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئے۔ ۷۹۔۱۹۷۸میں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے، اسکول آف ایشین اینڈ افریکن اسٹڈیز، لندن یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں شرکت کی۔ جناب راؤ نے بھارتیہ ودیا بھون کے آندھرا سینٹر کی بھی صدارت کی؛ ۱۴جنوری، ۱۹۸۰ سے ۱۸؍ جولائی، ۱۹۸۴ تک وہ خارجی امور کے وزیر رہے؛ ۱۹؍جولائی ۱۹۸۴ سے ۳۱ دسمبر ۱۹۸۴ تک وہ داخلی امور کے وزیر رہے اور ۳۱ دسمبر ۱۹۸۴ سے ۲۵؍ ستمبر ۱۹۸۵ تک وہ وزیر دفاع رہے۔ اس کے بعد انہوں نے، ۲۵؍ستمبر، ۱۹۸۵کو، ترقی برائے وسائلِ انسانی کے وزیر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا۔
جناب راؤ موسیقی، سنیما اور تھئیٹر میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندوستانی فلسفہ اور ثقافت، کہانیاں لکھنا اور سیاسی تبصرہ نگاری، زبانیں سیکھنا، ہندی اور تیلگو زبانوں میں نظمیں لکھنا اور ادب، جیسے مشاغل ان کی خصوصی دلچسپیوں کا مرکز تھے۔ انہوں نے آنجہانی وشوناتھ ستیہ نارائن کے مشہور تیلگو ناول ’ویئی پداگالو‘ کے ہندی ترجمے ’سہسراپھن‘ اور سینٹرل ساہتیہ اکادمی کے ذریعہ شائع آنجہانی جناب ہری نارائن آپٹے کے مشہور مراٹھی ناول ’پان لکشت کون گھیٹو‘ کے تیلگو ترجمے ’ابالا جیوتم‘ کو کامیابی سے شائع کیا۔ انہوں نے مراٹھی سے تیلگو اور تیلگو سے ہندی میں متعدد مشہور کتابوں کا ترجمہ کیا، اور اپنے قلمی نام کے تحت مختلف رسائل میں کئی مضامین شائع کیے۔ انہوں نے یو ایس اے اور مغربی جرمنی کی یونیورسٹیوں میں سیاست اور اس سے متعلق موضوعات پر تقریریں کیں۔ وزیر برائے خارجی امور کی حیثیت سے انہوں نے ۱۹۷۴میں، برطانیہ، مغربی جرمنی، سویٹزرلینڈ، اٹلی اور مصر کا دورہ کیا۔
وزیر برائے امورِ خارجہ کی اپنی مدت کے دوران، جناب راؤ، بین الاقوامی ڈپلومیسی میں اپنے علمی پس منظر اور سیاسی و ایڈمنسٹریٹو تجربے کو بروئے کار لائے۔ عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی دنوں بعد، جنوری ۱۹۸۰میں، نئی دہلی میں، انہوں نے اقوام متحدہ کی صنعتی ترقیاتی تنظیم کے تیسرے اجلاس کی صدارت کے فرائض انجام دیے۔ انہوں نے مارچ ۱۹۸۰ میں، نیویارک میں، جی ۔ ۷۷ اجلاس کی بھی صدارت کی۔ ۱۹۸۱ میں، غیرجانبدار ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں ان کے کردار کی بڑی ستائش ہوئی۔ جناب راؤ نے بین الاقوامی اقتصادی معاملات میں انفرادی طور پر گہری دلچسپی دکھائی اور نجی طور پر مئی ۱۹۸۱ میں کاراکاس میں، ای سی ڈی سی پر منعقد ہوئے جی۔۷۷ کے اجلاس میں ہندوستانی وفد کی نمائندگی کی۔
۱۹۸۲ اور ۱۹۸۳ کے سال بھارت اور اس کی غیرملکی پالیسی کے لئے بہت اہم تھے۔ خلیجی جنگ کے سائے میں، غیر۔جانبدار تحریک نے بھارت سے ساتویں سربراہ کے طور پر ملاقات کی میزبانی کے لئے کہا۔ جس کا مطلب بھارت کو اس تحریک کا لیڈر اور محترمہ اندرا گاندھی کا اس کا چیئرپرسن بننا بھی تھا۔ سال ۱۹۸۲ میں جب بھارت کو اس کی میزبانی کرنے کے لئے کہا گیا اور اس کے اگلے سال، جب مختلف ملکوں کی ریاست اور حکومتی سربراہان کے درمیان، تحریک سے متعلق، نیویارک میں ایک غیر رسمی اجلاس منعقد کیا گیا، تب جناب پی وی نرسمہا راؤ نے غیر جانبدار ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ، نئی دہلی اور اقوام متحدہ میں ہونے والی میٹنگوں کی صدارت کی۔
جناب راؤ، غیرجانبدار تحریک کے ایک خاص مشن کے سربراہ بھی رہے، جس نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو سلجھانے کے لئے، نومبر ۱۹۸۳ میں، مغربی ایشیا کے ممالک کا دورہ کیا۔ جناب راؤ نئی دہلی حکومت میں دولت مشترکہ کے سربراہان اور قبرص کے متعلق معاملے پر ہوئی میٹنگ کے ذریعہ تشکیل دیے گئے گروپ کے ساتھ سرگرمی سے جڑے ہوئے تھے۔
وزیر برائے امور خارجہ کے طور پر، جناب نرسمہا راؤ نے امریکہ، یو ایس ایس آر، پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، ویتنام، تنزانیہ اور گیانا جیسے ممالک کے ساتھ ہوئے مختلف مشترکہ کمیشنوں کی بھارت کی جانب سے صدارت کی۔
جناب نرسمہاراؤ، ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۴ کو وزیر داخلہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ ۵ نومبر، ۱۹۸۴ کو، منصوبہ بندی کی اضافی وزارت کے ساتھ، ایک مرتبہ پھر انہیں وزیر داخلہ کے منصب پر فائز کیا گیا۔ ۳۱؍ دسمبر، ۱۹۸۴ سے ۲۵؍ ستمبر ۱۹۸۵ تک ، وہ وزیر دفاع کے عہدے پر فائز رہے۔ ۲۵؍ ستمبر ۱۹۸۵ کو انہیں وزیر برائے ترقی وسائل انسانی کا منصب ملا۔