پنڈت جواہر لال نہرو ۱۴؍ نومبر ۱۸۸۹ کو الہٰ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم نجی ٹیوٹروں سے گھر پر حاصل کی۔ پندرہ سال کی عمر میں وہ انگلینڈ چلے گئے اور دو سال ہیرو میں گزارنے کے بعد کیمبرج یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ جہاں انہوں نے قدرتی سائنسز میں کیمبرج یونیورسٹی کی آخری ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں اِنّر ٹیمپل سے وکالت کے لئے مدعو کیا گیا۔ وہ ۱۹۱۲ میں بھارت لوٹے اور براہِ راست سیاست سے وابستہ ہو گئے۔ ایک طالب علم کے طور پر بھی وہ ان تمام ممالک کی جدوجہد میں دلچسپی رکھتے تھے جو غیر ملکی اقتدار کے زیر نگیں تھے۔ انہوں نے آئرلینڈ میں سنفین تحریک میں بھی گہری دلچسپی لی تھی۔ بھارت میں وہ پورے جی جان سے جدوجہد آزادی میں شامل ہوگئے۔
۱۹۱۲ میں انہوں نے ایک مندوب کے طورپر بانکی پور کانگریس میں شرکت کی اور ۱۹۱۹ میں الہٰ آباد میں ہوم رول لیگ کے سکریٹری بن گئے۔ ۱۹۱۶ میں پہلی مرتبہ ان کی ملاقات گاندھی جی سے ہوئی اور ان سے انہیں کافی ترغیب حاصل ہوئی۔ انہوں نے ۱۹۲۰ میں اترپردیش کے ضلع پرتاپ گڑھ میں اولین کسان مارچ کا اہتمام کیا۔ انہیں ۲۲۔۱۹۲۰ میں تحریک عدم تعاون کے سلسلے میں دو مرتبہ جیل بھیجا گیا۔
ستمبر ۱۹۲۳ میں پنڈت نہرو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری مقرر کیے گئے۔ انہوں نے ۱۹۲۶ میں اٹلی، سویٹزرلینڈ، انگلینڈ، بیلجیم، جرمنی اور روس کا دورہ کیا۔ بیلجیم میں انہوں نے برسلز میں انڈین نیشنل کانگریس کے سرکاری نمائندے کے طور پر دبی کچلی قوموں کی کانگریس میں شرکت کی۔ انہوں نے ۱۹۲۷ میں ماسکو میں اکتوبر کے سوشلسٹ انقلاب کی تقریبات کی دسویں سالگرہ میں بھی شرکت کی۔ اس سے قبل ۱۹۲۶ میں مدراس کانگریس میں، نہرو کانگریس کو آزادی کو بطور نصب العین اختیار کرنے کے لئے راغب کرنے میں کافی سرگرم رہے تھے۔ ۱۹۲۸ میں لکھنؤ میں سائمن کمیشن کے خلاف ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے ان پر لاٹھی چارج ہوا۔ ۲۹؍ اگست ۱۹۲۸ کو انہوں نے آل پارٹی کانگریس میں شرکت کی اور بھارتی آئینی اصلاحات کے سلسلے میں نہرو رپورٹ پر دستخط کرنے والوں میں ان کا بھی نام شامل تھا۔ یہ رپورٹ ان کے والد موتی لال نہرو کے نام سے موسوم تھی۔ اسی سال انہوں نے ’انڈیپینڈینس فار انڈیا لیگ‘ قائم کی جو بھارت کو برطانوی بالادستی سے مکمل طور پر علیحدہ کرنے کی حمایت کرتی تھی اور اس کے جنرل سکریٹری مقرر ہوئے۔
۱۹۲۹ میں پنڈت نہرو، انڈین نیشنل کانگریس کے لاہور اجلاس کے صدر منتخب ہوئے۔ اسی اجلاس میں ملک کے لئے مکمل آزادی کو بطور نصب العین اختیار کیا گیا۔ ۳۵۔۱۹۳۰ کے دوران، نمک ستیا گرہ اور کانگریس کے ذریعہ شروع کی گئی دیگر تحریکات کی پاداش میں انہیں کئی مرتبہ جیل بھیجا گیا۔ ۱۴؍ فروری ۱۹۳۵ کو الموڑا جیل میں انہوں نے اپنی ’خودنوشت سوانح‘ مکمل کی۔ جیل سے باہر آنے کے بعد وہ اپنی علیل اہلیہ کی عیادت کے لئے سویٹزرلینڈ گئے اور فروری ۔ مارچ ۱۹۳۶ میں لندن کا دورہ کیا۔ جولائی ۱۹۳۸ میں وہ اسپین گئے جب ملک خانہ جنگی کے عہد سے گزر رہا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے فوراً پہلے انہوں نے چین کا بھی دورہ کیا۔
۳۱؍ اکتوبر ۱۹۴۰ کو پنڈنت نہرو کو بھارت کو زبردستی جنگ میں شامل کرنے کے خلاف احتجاج کے طور پر کیے گئے انفرادی ستیا گرہ کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں دسمبر ۱۹۴۱ میں دیگر رہنماؤں کے ساتھ انہیں بھی رہا کر دیا گیا ۔ ۷؍ اگست ۱۹۴۲ میں پنڈت نہرو نے بمبئی میں اے آئی سی سی کے اجلاس میں اپنی تاریخی ’بھارت چھوڑو‘ قرارداد پیش کی۔ ۸؍ اگست ۱۹۴۲ کو انہیں دیگر رہنماؤں کے ساتھ گرفتار کرکے احمدنگر قلعہ لے جایا گیا ۔ یہ ان کی طویل ترین اور آخری گرفتاری تھی۔ مجموعی طور پر وہ نو مرتبہ جیل گئے۔ جنوری ۱۹۴۵ میں جیل سے رہا ہونے کے بعد انہوں نے آئی این اے کے ان افسروں اور اہل کاروں کے دفاع کے لئے ایک قانونی دفاعی محاذ قائم کیا جن پر ملک سے غداری کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ مارچ ۱۹۴۶ میں پنڈت نہرو نے جنوب مشرقی ایشیا کا دورہ کیا۔ ۶؍ جولائی ۱۹۴۶ کو وہ چوتھی مرتبہ کانگریس کے صدر منتخب ہوئے اور اس کے بعد مزید تین مدت کار یعنی ۱۹۵۱ سے ۱۹۵۴ تک کے لئے از سر نو منتخب ہوئے۔