نئی دہلی ،24 جون : مجھے آپ لوگوں کی باتیں سن کر بہت اچھا لگا اور مجھے خوشی ہے کہ آج ہمارے ساتھی مرکزی وزیرپیوش جی،سنجے جی، یہ سارے لوگ بھی ہمارے ساتھ ہیں اور ساتھیوں ‘ٹوائے کیتھن’ میں جو ملک بھر کےشرکاء ہیں،اور جو دیگر معزز افراد ہیں اور بھی جو اس پروگرام کا نشریہ دیکھ رہے ہیں۔
دیکھیے ہمارے ہاں کہا جاتا ہے ‘ساہسے کھلو شری:وستی’ یعنی ہمت میں ہی شری رہتی ہے، خوشحالی رہتی ہے۔ یہ چیلنج سے بھر پور دور میں ملک کے پہلے ‘ٹوائے کیتھن’کا انعقاد اسی حوصلے کو مضبوط کرتا ہے۔ اس ‘ٹوائے کیتھن’میں ہمارے بچوں سے لے کر ، نوجوان ساتھیوں، ٹیچرس، اسٹارٹ اپس اور کاروباریوں نے بھی بہت زیادہ جوش و خروش سے حصہ لیا ہے۔ پہلی بار ڈیڑھ ہزار سے زیادہ ٹیموں کا اس شاندار فائنل مقابلے میں شامل ہونا، یہ خود میں ہی شاندار مستقبل کا ضامن ہے۔ یہ کھلونوں اور گیمز کے معاملے میں خودکفیل ہندوستان بنانے کی مہم کو بھی مضبوطی دیتا ہے۔ اس میں کچھ ساتھیوں کے بہت اچھے آئیڈیاز بھی ابھر کر آگے آئے ہیں۔ ابھی کچھ ساتھیوں کے ساتھ مجھے بات چیت کرنے کا موقع بھی ملا۔میں اس کے لیے انہیں ایک بار پھر سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
ساتھیوں!
گذشتہ پانچ برسوں میں ہیکاتھن کو ملک کے مسائل کے حل کا ایک بڑا پلیٹ فارم بنایا گیا ہے۔ اس کے پس پردہ سوچ ہے – ملک کی صلاحیت کو متحد کرنا، اسے ایک وسیلہ فراہم کرنا۔ کوشش یہ ہے کہ ملک کے چیلنجوں اور حل سے ہمارے نوجوانوں کا سیدھا رابطہ ہو۔ جب یہ رابطہ مضبوط ہوتا ہے تو ہمارے نوجوانوں کی طاقت اور ان کی صلاحیت بھی ابھر کر سامنے آتی ہے اور ملک کو بہتر حل بھی ملتے ہیں۔ ملک کے پہلے ‘ٹوائے کیتھن’کا مقصد بھی یہی ہے۔مجھے یاد ہے، میں نے کھلونوں اور ڈیجیٹل گیمنگ کی دنیا میں خود کفالت اور مقامی حل کے لیے نوجوان ساتھیوں سے اپیل کی تھی۔ اس کا ایک مثبت رسپانس ملک میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالانکہ چند لوگوں کو یہ بھی لگتا ہے کہ کھلونے ہی تو ہیں، ان کے تعلق سے اتنی سنجیدگی سے بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے؟اصل میں یہ کھلونے ، یہ گیمز ہماری ذہنی طاقت، ہماری تخلیقی صلاحیت اور ہماری معیشت پر، ایسے کئی پہلوؤں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے ان موضوعات پر بات کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بچوں کا پہلا اسکول اگر ان کا خاندان ہوا ہے، پہلی کتاب اور پہلا دوست ، یہ کھلونے ہی ہوتے ہیں۔معاشرے کے ساتھ بچوں کی پہلی بات چیت ان ہی کھلونوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا،بچے کھلونوں سے بات کرتے رہتے ہیں۔ انہیں ہدایت دیتے ہیں۔ ان سے کچھ کام کراتے ہیں۔ کیوں کہ اسی سے اس کی سماجی زندگی کی ایک طرح سے شروعات ہوتی ہے۔ اسی طرح، یہ کھلونے، یہ بورڈ گیمز، دھیرے دھیرے اس کے اسکول لائف کا بھی اہم حصہ بن جاتے ہیں۔ سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کھلونوں سے جڑا ایک اور بہت بڑا معاملہ ہے۔ جسے ہر ایک کو جاننے کی ضرورت ہے۔ یہ ہے کھلونوں اور گیمنگ کی دنیا کی معیشت۔ ٹوائے کونومی۔ آج ہم جب بات کر رہے ہیں تو دنیا بھر کے کھلونوں کے بازار تقریباً 100 بلین ڈالر کا ہے۔ اس میں بھارت کی شراکت داری محض ڈیڑھ بلین ڈالر کے ہی ارد گرد ہے۔ محض ڈیڑھ بلین۔ آج ہم اپنی ضرورت کی تقریباً 8 فیصد کھلونے غیرممالک سے درآمد کرتے ہیں۔ یعنی ان پر ملک کا کروڑوں روپیے باہر جا رہا ہے۔ اس حالت کو بدلنا ضروری ہے اور یہ صرف اعدادوشمار کی ہی بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ سیکٹر ملک کے اس طبقے تک، اس حصے تک ترقی کی روشنی پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہے، جہاں اس کی ابھی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ کھیل سے جڑی جو ہماری گھریلو تجارت ہے۔جو ہمارا فن ہے، جو ہمارے فنکار/کاریگر ہیں، وہ گاؤں، غریب، دلت، قبائلی معاشرے میں بڑی تعداد میں ہیں۔ ہمارے یہ ساتھی بہت محدود وسائل کے ذریعہ ہماری تہذیب، ثقافت کو اپنے بہترین فن سے نکھار کر اپنے کھلونوں میں ڈھالتے رہے ہیں۔ اس میں بھی خاص طور سے ہماری بہنیں، ہماری بیٹیاں بہت بڑا رول ادا کر رہی ہیں۔ کھلونوں سے جڑے سیکٹر کی ترقی سے ، ایسی خواتین کے ساتھ ہی ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے ہمارے قبائلی اور غریب ساتھیوں کو بھی بہت فائدہ پہنچے گا۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ، ہم اپنے لوکل(مقامی) کھلونوں کے لیے ووکل ہوں گے، لوکل کے لیے ووکل ہونا ضروری ہے اور ان کو بہتر بنانے کے لیے ، عالمی بازار میں مسابقت پیدا کرنے کے لیے ہر سطح پر حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے جدت طرازی سے لے کر فائننسنگ تک نئے ماڈل کو ترقی دینا بہت ضروری ہے۔ ہر نئے آئیڈیا کوپالنا اور اس کی نشونما کرنا ضروری ہے۔ نئے اسٹارٹ اپس کو کیسے پرموٹ کریں اور کھلونوں کے روایتی فن کو، فنکاروں کو، کیسے نئی تکنیک، نئے مارکٹ ڈیمانڈ کے مطابق تیار کریں، یہ بھی نہایت ضروری ہے۔‘ٹوائے کیتھن’جیسی تقریب کے انعقاد کے پس پردہ یہی سوچ اور عوامل کارفر ہے۔
ساتھیوں!
سستا ڈیٹا اور انٹرنیٹ میں آئی تیزی، آج گاؤں-گاؤں تک ملک کو ڈیجیٹل طور پر کنکٹ کر رہی ہے۔ ایسے میں جسمانی کھیل اور کھلونوں کے ساتھ ساتھ ورچول ، ڈیجیٹل، آن لائن گیمنگ میں بھی بھارت کے امکانات اور صلاحیت، دونوں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن جتنے بھی آن لائن یا ڈیجیٹل گیمس آج مارکٹ میں دستیاب ہیں ، ان میں زیادہ تر کا کانسپٹ ہندوستانی نہیں ہے، ہماری سوچ سے میل نہیں کھاتا ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ اس میں کئی گیمس کا کانسپٹ یا تو تشدد کو بڑھاوا دیتا ہے یا پھر ذہنی تناؤ کی وجہ بناتے ہیں۔ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسے متبادل کانپسٹ ڈیزائن کیے جائیں جس میں بھارت کی حقیقی سوچ، جو مکمل طور پر انسانیت کی فلاح سے جڑا ہو، وہ ہو۔ تکنیکی طور پر بہترین ہوں، مزہ بھی ہو، فٹنس بھی ہو، دونوں کو فروغ ملتا رہے۔ اورمیں یہ واضح طور پر دیکھ رہا ہوں کہ ڈیجیٹل گیمنگ کے لیے ضروری کنٹینٹ اور مسابقت ہمارے یہاں بھرپورہے۔ ہم ‘ٹوائے کیتھن’میں بھی بھارت کی اس طاقت کو واضح انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں بھی جو آئیڈیا منتخب ہوئے ہیں، ان میں ریاضی اور کیمسٹری کو آسان بنانے والے نظریات ہیں، اور ساتھ ہی اقدار کی حامل سوسائیٹی کو مضبوط کرنے والے آئیڈیاز بھی ہیں۔ اب جیسے ، یہ جوآئی کاگریٹو گیمنگ کا کانسپٹ آپ نے دیا ہے، اس میں بھارت کی اسی طاقت کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔یوگ سے وی آر اور اے آئی ٹکنالوجی سے جوڑ کر ایک نیا گیمنگ سولیوشن دنیا کو فراہم کرانا بہت اچھی کوشش ہے۔ اسی طرح آیوروید سے جڑا بورڈ گیم بھی قدیم و جدیدکا منفرد سنگم ہے۔ جیسے کے تھوڑی دیر قبل بات چیت کے دوران نوجوانوں نے بتایا بھی کہ مسابقتی گیمز، دنیا میں یوگ کو دور دراز تک پہنچا میں بہت مدد کر سکتا ہے۔
ساتھیوں!
بھارت کی موجودہ صلاحیت کو، بھارت کی فن و ثقافت کو، بھارت کے معاشرے کو آج دنیا زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے بہت زیادہ متجسس ہے، لوگ سمجھنا چاہتے ہیں۔ اس میں ہمارے کھلونے اور گیمنگ انڈسٹری بہت بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔ میری ہر نوجوان فنکار(انوویٹر) سے، ہر اسٹارٹ اپ سے یہ اپیل ہے کہ ایک بات پر بہت زیادہ توجہ دیں۔ آپ پر دنیا میں بھارت کی سوچ اور بھارت کی لیاقت و صلاحیت، دونوں کی سچی تصویر پیش کرنے کی بھی ذمہ داری ہے۔ ایک بھارت، سریشٹھ بھارت سے لیکر وسودھیو کٹبمکم کا ہمارا ابدی احساس کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری بھی اپ پر ہے۔ آج جب ملک آزادی کے 75 سال سا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تو یہ کھلونوں اور گیمنگ سے جڑے سبھی فنکاروں اور اسے بنانے والوں کے لیے بہت بڑا موقع ہے۔ آزادی کی تحریک سے جڑی کئی ایسی داستانیں ہیں، جن کو سامنے لانا ضروری ہے۔ ہمارے مجاہدین آزادی،اولوالعزم بہادروں کی ہمت و شجاعت کی، ان کی قائدانہ بصیرت کے متعدد واقعات کو کھلونوں اور گیمز کے کانسپٹ کے طور پر تیار کیا جا سکتا ہے۔ آپ بھارت کے رقص کو مستقبل سے جوڑنے والی بھی ایک مضبوط کڑی ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہمارا مطمح نظر ایسے کھلونوں، ایسے گیمز کو بنانے پر مرکوز ہو جو ہماری نوجوان نسل کو ہندوستانیت کے ہر پہلو کو مزیدار اور متاثر کن طریقے سے پیش کرے۔ ہمارے کھلونے اور گیمز لوگوں کو باندھ کر بھی رکھیں،انہیں تفریح بھی فراہم کریں اور انہیں کچھ نیا سکھائیں بھی، اسے ہمیں یقینی بنانا ہے۔ آپ جیسے نوجوان فنکاروں اور کھلونا سازوں سے ملک کو بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ اپنے خوابوں کی ضرور تکمیل کریں گے۔ ایک بار پھر اس‘ٹوائے کیتھن’کے کامیاب انعقاد کے لیے میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
شکریہ!
******
ش ح – س ک
U NO. 5853
Addressing #Toycathon-2021. Watch. https://t.co/6TqzP3A1Os
— Narendra Modi (@narendramodi) June 24, 2021
बीते 5-6 वर्षों में हैकाथॉन को देश की समस्याओं के समाधान का एक बड़ा प्लेटफॉर्म बनाया गया है।
— PMO India (@PMOIndia) June 24, 2021
इसके पीछे की सोच है- देश के सामर्थ्य को संगठित करना, उसे एक माध्यम देना।
कोशिश ये है कि देश की चुनौतियों और समाधान से हमारे नौजवान का सीधा कनेक्ट हो: PM @narendramodi
बच्चे की पहली पाठशाला अगर परिवार होता है तो, पहली किताब और पहले दोस्त, ये खिलौने ही होते हैं।
— PMO India (@PMOIndia) June 24, 2021
समाज के साथ बच्चे का पहला संवाद इन्हीं खिलौनों के माध्यम से होता है: PM @narendramodi
खिलौनों से जुड़ा एक और बहुत बड़ा पक्ष है, जिसे हर एक को जानने की जरूरत है।
— PMO India (@PMOIndia) June 24, 2021
ये है Toys और Gaming की दुनिया की अर्थव्यवस्था- Toyconomy: PM @narendramodi
Global Toy Market करीब 100 बिलियन डॉलर का है।
— PMO India (@PMOIndia) June 24, 2021
इसमें भारत की हिस्सेदारी सिर्फ डेढ़ बिलियन डॉलर के आसपास ही है।
आज हम अपनी आवश्यकता के भी लगभग 80 प्रतिशत खिलौने आयात करते हैं।
यानि इन पर देश का करोड़ों रुपए बाहर जा रहा है।
इस स्थिति को बदलना बहुत ज़रूरी है: PM @narendramodi
जितने भी ऑनलाइन या डिजिटल गेम्स आज मार्केट में उपलब्ध हैं, उनमें से अधिकतर का कॉन्सेप्ट भारतीय नहीं है।
— PMO India (@PMOIndia) June 24, 2021
आप भी जानते हैं कि इसमें अनेक गेम्स के कॉन्सेप्ट या तो Violence को प्रमोट करते हैं या फिर Mental Stress का कारण बनते हैं: PM @narendramodi
भारत के वर्तमान सामर्थ्य को, भारत की कला-संस्कृति को, भारत के समाज को आज दुनिया ज्यादा बेहतर तरीके से समझना चाहती है।
— PMO India (@PMOIndia) June 24, 2021
इसमें हमारी Toys और Gaming Industry बहुत बड़ी भूमिका निभा सकती है: PM @narendramodi