Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

شریمد بھگوت گیتا کے اشلوکوں کے مسودے کے اجرا ءکے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

شریمد بھگوت گیتا کے اشلوکوں کے مسودے کے اجرا ءکے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن


نئی دہلی،  09 مارچ2021:پروگرام میں  میرے ساتھ موجودجموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر  جناب منوج سنہا جی ،دھرمارتھ ٹرسٹ کے چیئر مین  ٹرسٹی، ڈاکٹر کرن سنگھ جی  ، اس پروگرام میں موجود  دیگر سبھی عمائدین  ،  خواتین وحضرات! 

آج ہم شریمد بھگوت گیتا کی 20 تشریحات کویکجاکرنے والی  11 جلدوں کو جاری کررہے ہیں ۔ میں ،ان تمام ودّوانوں کو ، جنہوں نے اس نیک کام کے لئے کوشش کی ہے ، اس سے وابستہ ہر فرد اور ان کی ہر کوشش کو، پورے احترام سے سلام پیش کرتا ہوں اور میں ان کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے آج کے نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کے لئے علم کے اتنے بڑے ذخیرے کو دستیاب کرنے  کا ایک بہت عظیم کام کیا ہے۔ میں خاص طور پر ڈاکٹر کرن سنگھ جی کو مبارکباد دیتا ہوں ، جن کی رہنمائی میں یہ کام مکمل ہوا ہے اور جب بھی میں ان  سے ملتا ہوں ، ایک طرح سے ، علم و ثقافت کا دھارا مسلسل بہہ رہا ہے ، اس طرح  کی مثال شاذ و نادر ہی ملتی ہےاور آج یہ بھی ایک بہت ہی اچھا موقع ہے کہ کرن سنگھ جی بھی اپنی سالگرہ منا رہے ہیں اور ایک طرح سے ان کا 90 سال کا ثقافتی سفر ہے۔ میں انہیں دل سے سلام پیش کرتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ آپ کی عمر لمبی ہو ، اچھی صحت ہو۔ ڈاکٹر کرن سنگھ نے ہندوستانی فلسفے کے لئے جو کام کیا ہے ، اس مقدس کام کے لئے جس طرح سے انہوں نے اپنی زندگی وقف کی ہے ، اس کی روشنی اور ہندوستان کی تعلیم کی دنیا پر،  اس کے اثر و رسوخ کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ آپ کی کاوشوں نے جموں وکشمیر کی شناخت کو بھی زندہ کردیا ہے ، جس نے صدیوں سے پورے ہندوستان کی فکر کی روایت کی رہنمائی کی ہے۔ کشمیر کے بھٹ بھاسکر ، ابینوا گوپت ، آنندوردھن ، وہ ودوان ہیں ، جنہوں نے گیتا کے اسراروں   کو ہمارے سامنے پیش کیا۔ آج ، وہ عظیم روایت ایک بار پھر ملک کی ثقافت کو تقویت دینے کے لئے تیار ہے۔ یہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے لئے باعث فخر ہے۔

ساتھیو!

کسی ایک صحیفے کے ہر اشلوک پر یہ مختلف تشریحات ، بہت سارے صوفیانہ خیالات کا اظہار ، گیتا کی گہرائی کی علامت ہے ،جس میں ہزاروں ودوانوں نے اپنی ساری زندگی وقف کردی ہے۔ یہ ہندوستان کی نظریاتی آزادی اور رواداری کی بھی ایک علامت ہے ، جو ہر شخص کو اپنا نظریہ ، اپنے خیالات رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کچھ کے نزدیک گیتا علم کا صحیفہ ہے ، کسی کے لئے یہ سنگھیا کا صحیفہ ہے ، کچھ کے لئے یوگ سترہے ، کچھ کے لئے یہ کرم کاسبق ہے۔ اب جب میں گیتا کودیکھتا  ہوں تو میرے نزدیک یہ وشوروپ کی طرح ہے جس کا درشن ہمیں 11 ویں باب میں ہوتا ہے-مم دیہے گڈھاکیش یاچھ انتیہ درشٹم  اچھاسی ۔ یعنی ، آپ مجھ میں جو کچھ دیکھنا چاہتے ہو وہ دیکھ سکتے ہیں۔ آپ ہر سوچ ، ہر طاقت کو دیکھ سکتے ہیں۔

ساتھیو ۱

گیتا کے وشورپ نے، مہا بھارت سے لے کر آزادی کی جدوجہد تک ،ہر دور میں ،ہماری قوم کی رہنمائی کی ہے۔ آپ دیکھئے، ہندوستان کو یکجہتی  کی ڈور  میں باندھنے والے اڈی شنکراچاریہ نے گیتا کو روحانی شعور کےروپ میں  دیکھا۔ رامانوجاچاریہ جیسے سنتوں نے گیتا کو روحانی علم کے اظہار کے طور پر دیکھا۔ سوامی ویویکانند کے لئے ، گیتا غیر متزلزل جذبہ اور ناقابل اعتماد کا ذریعہ رہا ہے۔ گیتا ،سری اروبندو کے لئے ،علم اور انسانیت کا ایک حقیقی منبع تھا۔ گیتا ،مہاتما گاندھی کے مشکل  سے مشکل ترین دور میں راہنما رہی ہے۔ گیتا، نیتا جی سبھاش چندر بوس کی حب الوطنی اور بہادری کی تحریک رہی ہے۔ یہ گیتا ہے ، جس کی وضاحت بال گنگادھر تلک نے کی اور آزادی کی  جدوجہد کو ایک نئی طاقت ، نئی توانائی دی۔ میرے خیال میں یہ فہرست  اتنی طویل  ہوسکتی ہے کہ اس کے لئے کئی گھنٹے بھی کم ہوں گے۔ آج جب ملک آزادی کے 75 سال منانے جارہا ہے ،  تو ہم سب کو گیتا کے اس رخ کو ملک کے سامنے رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ گیتا نے ہماری جدوجہد آزادی کو کس طرح متحرک کیا ، ہمارے آزادی پسند جنگجوؤں کو ملک کے لئے سب کچھ قربان کرنے کی ہمت کیسے دی ، کیسے گیتا نے ملک کو اتحاد کے روحانی تانے بانے  میں پرویا ، ہمیں بھی تحقیق کرنا چاہئے ، لکھنا چاہئے اور اسے اپنی نوجوان نسل کواس سے  متعارف کروانا چاہئے۔

ساتھیو۱

گیتا ،ہندوستان میں یکجہتی اور یکجہتی کی روح کا بنیادی متن ہے ، کیوں کہ گیتا کا کہنا ہے کہ – ‘سامم شروشو بھوتیشو تشتانتم پرمیشورم’۔ یعنی ہر مخلوق  میں  ایشور کا عکس  ہے۔ نر ہی نارائن ہے۔ گیتا ہمارے علم اور تحقیق کے رجحان کی علامت ہے ، کیوں کہ گیتا کا کہنا ہے کہ – ‘نا ہی  گیانن   سدشدم پوترم  اہہ ودیتہ  ۔ یعنی علم سے بڑھ کر کوئی اور چیز  مقدس نہیں ہے۔ گیتا ہندوستانی سائنسی مزاج کی، سائنسی سوچ کا بھی ذریعہ ہے ، کیوں کہ گیتا کا کہنا ہے – ‘گیانم وگیانم سہتیم یتہ گائتوا  موکشیہ سے اشوبھاتیہ’۔ یعنی جب علم اور سائنس یکجا  ہوجاتے ہیں  تو مسائل اور رنج وغم کا  حل نکلتا ہے۔ صدیوں سے گیتا، ہندوستان کی کرم ،وفاداری کی علامت رہی ہے ، کیوں کہ گیتا کہتی  ہے: ‘یوگا: کرماسو کوشلم’۔ یعنی ، اپنے فرائض کو موثر انداز میں انجام دینا  ہی یوگا ہے۔

ساتھیو!

گیتا ایسی روحانی کتاب ہے جس نے  یہ کہنے کی ہمت کی  – ‘نا انوواپتم اوپتوایم ورت او چا کرمنی’۔ یعنی ، ایک خدا بھی ، جو تمام نفع و نقصانات سے پاک ہے ،کرم  کئے  بغیر نہیں رہتا ہے ۔ اسی لئے ، گیتا پوری عملی تدبیر کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ کوئی بھی شخص کرم کیے بغیر نہیں جی سکتا۔ ہم کرم سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے اعمال کو ، کس طرح شکل دیں ،کس  سمت  میں  لے جائیں ۔ گیتا ،ہمیں راستہ دکھاتی ہے ، ہم پر کوئی حکم نہیں عائد کرتی ہے۔ گیتا نے ارجن پر  بھی کوئی حکم نہیں تھوپا تھا اور ا بھی ڈاکٹرصاحب بھی کہہ رہے تھے کہ گیتا کوئی  اُپدیش نہیں دیتی ۔ سری کرشنا نے پوری گیتا کے اپدیش   کے بعد آخری باب میں ارجن سے یہی کہا ، یعنی سب کچھ کرنے کے بعد ، جتنا زور لگانا تھا لگالیا ، لیکن آخر میں کیا کہا – ’یتھااچھسیہ تتھا کورو ‘ یعنی ، اب میں نے جتنا کہنا تھا کہہ دیا ، اب تمہیں  جیسا ٹھیک لگے ویسا تم  کرو۔ یہ اپنے آپ میں اس  سے زیادہ آزاد خیال مفکر کوئی   ہوسکتا ہے۔ کرم اور نظریات   کی یہ آزادی ہی ،  ہندوستان کی جمہوریت کی اصل شناخت رہی ہے۔ ہماری جمہوریت، ہمارےوچاروں   کی آزادی دیتی ہے ، کام کی آزادی دیتی ہے ،  ہماری زندگی کے ہر شعبے میں مساوی حقوق دیتی ہے۔ ہمیں یہ آزادی ، ان جمہوری اداروں سے ملتی ہے ،جو ہمارے آئین کے محافظ ہیں۔ اس لئے  ، جب بھی ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں ، تو  ہمیں اپنے جمہوری فرائض کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ آج کچھ لوگ ایسے  بھی ہیں  ،جو اس  کوشش میں رہتے ہیں کہ  آئینی اداروں کے وقار کو ، ان کی ساکھ کو کس طرح چوٹ پہنچائیں! چاہے وہ ہماری پارلیمنٹ ہو ، عدلیہ ہو ، یہاں تک کہ فوج ہی ہو ، اپنے سیاسی مفادات کے لئے  ، حملہ کرنے کی کوشش ہوتی رہتی  ہے۔ اس رجحان سے ملک کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ یہ اطمینان کی بات ہے کہ ایسے لوگ ملک کی مرکزی دھارے کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔ ملک توآج اپنے فرائض کوہی  سنکلپ  مان کر آگے بڑھ رہا ہے۔ گیتا کے کرم یوگ کو ، اپنا منتر بنا کر، ملک آج  گاؤں- غریب، کسانوں – مزدور، دلت- پسماندہ ، معاشرے کے ہر طبقے کی سیوا کرنے میں ان کا جیون بدلنے کے لئے کوشش کر رہا ہے۔

ساتھیو!

گیتاکے توسط سے ہندوستان نے ملک اورعہد کی سرحدوں سے باہرپوری انسانیت کی خدمت کی ہے ۔ گیتاتوایک ایسا صحیفہ ہے جو پوری دنیا کے لئے محض انسانوں کے لئے ہے ۔دنیا کی کتنی ہی زبانوں میں اس کاترجمہ کیاگیا، کتنے ہی ملکوں میں اس پرتحقیق کی جارہی ہے ۔ دنیا کے کتنے ہی ماہرین اور قابل لوگوں نے اس سے قربت حاصل کی ہے ۔ یہ گیتا ہی ہے جس نے دنیا کو بے لوث خدمت جیسے ہندوستان کے اصولوں سے متعارف کرایا ۔نہیں تو ہندوستان کی بے لوث خدمت ، وشوبندھتواکاہماراجذبہ ، یہ بہت سے لوگوں کے لئے کسی حیرت سے کم نہیں ہوتی ۔

آپ دیکھئے !

کورونا جیسی وباء دنیا کے سامنے آئی ، اس وقت جیسے پوری دنیا اس خطرے سے انجان تھی ۔یہ ایک انجان دشمن تھا ، دنیا تیارنہیں تھی ، انسان تیارنہیں تھا ، اوریہی کچھ صورتحال ہندوستان کے لئے بھی تھی ۔ لیکن ہندوستان نے خود کو بھی سنبھالا اور دنیا کی خدمت کے لئے جو بھی کرسکتاہے ، اس سے پیچھے نہیں رہا۔ دنیا کے ممالک کو دوائیں مہیاکیں ، جن اشیاکی ضرورت تھی ، انھیں پہنچایا۔ آج دنیا کے ایسے کئی ملک جن کے پاس ویکسین کے لئے ذرائع –وسائل نہیں تھے ، ہندوستان نے ان کے لئے بناکسی معاہدے اورشرط کے ویکسین مہیاکرائی ۔ وہاں کے لوگوں کے لئے بھی یہ خدمت کسی مسرت بخش حیرت سے کم نہیں ہے ۔ ان کے لئے یہ ایک الگ طرح کا تجربہ ہے ۔

ساتھیو !

اسی طرح دوسرے ممالک کے جو لوگ دنیا میں الگ الگ مقامات پر پھنسے ہوئے تھے ، ہندوستان نے انھیں بھی محفوظ باہرنکالااور ان کے ملک کو پہنچادیا۔ اس میں ہندوستان نے نفع نقصان کا کوئی حساب نہیں لگایا۔ محض انسان کی خدمت کو ہی کرم (کام ) مان کر ہندوستان نے یہ فرض اداکیا۔ جب دنیا کے لوگ ، دنیا کے لیڈران اسے ہندوستان کے ذریعہ کی گئی مدد قراردیتے ہیں ، بھارت کے حوالے سے میراشکریہ اداکرتے ہیں ، تو میں کہتاہوں کہ ہندوستان کے لئے یہ مدد نہیں روایت ہے ۔ ہندوستان کے نقطہ نظرسے یہ عظمت نہیں ، انسانیت ہے ۔ہندوستان صدیوں سے اسی بے لوث جذبے سے انسانوں کی کس طرح خدمت کرتاآرہاہے ۔یہ فلسفہ دنیا کو تب سمجھ میں آتاہے جب وہ گیتاکے صفحات کھولتی ہے ۔ ہمیں تو گیتانے قدم قدم پر یہی سبق دیاہے –کرمنی ایوم ادھیکارا:تے ما پھلیسو کداچن ۔یعنی کسی صلہ کی فکر کئے بغیر سچے اوربے لوث جذبے سے کام کرتے رہو۔گیتا نے ہمیں بتایاہے –یکتاکرم فلم تیکتوا شانتیم آپنوتی نیشٹھی کیم ۔یعنی صلہ یا فائدے کی فکرکئے بغیرکام کو فرض کے جذبے سے ، خدمت کے جذبے سے کرنے میں ہی دلی سکون حاصل ہوتاہے ، یہی سب سے بڑا سکھ ہے ، سب سے بڑا انعام ہے ۔

ساتھیو!

گیتا میں ظلمت پسندی ، مدبرانہ اور الوہیت کے  رویوں کا ذکربھگوان کرشن نے کیاہے ۔ یہاں ایک طرح سے گیتاسے جڑے ہوئے جانکار لوگ بھی میرے سامنے ہیں ۔ آپ سب جانتے ہی ہیں کہ گیتا کے 17ویں باب میں اس پرکئی اشلوک ہیں اورمیرے تجربے کے حساب سے اگرہم آسان لفظوں میں ان ظلمت پسندی ، مدبرانہ اور الوہیت جیسی عادتوں کابیان کریں تو جو کچھ بھی سب کے پاس ہے وہ میراہوجائے ، ہمیں مل جائے ، یہی ظلمت پسندانہ رویہ ہے ۔ اس کی وجہ سے دنیا میں جنگیں ہوتی ہیں ، بدامنی پھیلتی ہے اورسازشیں ہوتی ہیں ۔ جو میراہے ، وہ میرے پاس رہے ، جوکسی اورکا ہے وہ اس کا ہے ، وہ اس میں اپناگذاراکرے ۔یہ مدبرانہ یعنی عام دنیاوی سوچ ہے ۔ لیکن جو میراہے وہ اتنا ہی سب کا ہے ، میراسب کچھ محض انسانوں کے لئے ہے ، یہ الوہیت کارویہ ہے ۔ اسی الوہیت کی فطرت پر ہندوستان نے ہمیشہ سے اپنی انسانی قدروں کو ایک شکل دی ہے ۔ معاشرے کے لئے ایک پیمانہ وضع کیاہے ۔ ہمارے یہاں خاندانوں میں بچوں کو بھی سب سے پہلے یہی سکھاتے ہیں ۔ کچھ بھی ملے پہلے سب کو لو ، بعد میں خود رکھو، میں میرانہیں کرتے ، مل کرچلتے ہیں ۔ ان ہی عادتوں کی وجہ سے ہندوستان نے کبھی اپنے اثاثے  کو ، اپنے علم کو اور اپنی اختراعات کو صرف مالی بنیاد پر نہیں دیکھا ۔ہمارا حساب کاعلم ہو ، ٹیکسٹائل ہو ، میٹالرجی ہو، کئی طرح کے کاروباری تجربات یاپھر آیوروید کی سائنس ہو ، ہم نے انھیں انسانیت کااثاثہ تسلیم کیاہے ۔ آیوروید کی سائنس تو اس عہدسے انسانیت کی خدمت کررہی ہے ، جب جدیدمیڈیکل سائنس اس شکل میں نہیں تھی ۔آج بھی جب دنیا ایک بارپھر ہربل اورنیچرل کی بات کررہی ہے ، علاج سے قبل مرہم کی طرف دیکھ رہی ہے ،آج جب آیوروید پرالگ الگ ملکوں میں تحقیق ہورہی ہے ، توہندوستان اس کی حوصلہ افزائی کررہاہے ۔ اپنا تعاون بھی دے رہاہے ۔ماضی میں بھی ہماری قدیم یونیورسٹیوں میں غیرملکی طلباء آئے ، غیرملکی مسافرآئے ، ہرکسی کو ہم نے اپنا علم –سائنس پورے خلوص سے دیا۔ ہم نے جتنی زیادہ تحقیق کی، اتنا ہی انسان کی ترقی کے لئے مزید کوششیں ہم کرتے رہے ہیں ۔

ساتھیو!

ہمارایہی رویہ ، ہماری یہی تاریخ آج آتم نربھربھارت کے عہد کی شکل میں ایک بارپھر زندہ ہورہاہے ۔آج ایک بارپھر ہندوستان اپنی صلاحیت کوسنواررہاہے تاکہ وہ پوری دنیا کی ترقی کو رفتاردے ، انسانیت کی اورزیادہ خدمت کرسکے ۔ حال کے مہینوں میں دنیا نے ہندوستان کی جس حصولیابی کو دیکھا ہے ، آتم نربھربھارت کی  وہی حصولیابی اورزیادہ وسیع شکل ،دنیا کے کام آئے گی ۔ اس نشانے کو پوراکرنے کے لئے آج ملک کو گیتا کے کرم یوگ کی ضرورت ہے ۔ صدیوں کے اندھیرے سے نکل کر ایک نئے بھارت کی تعمیر کے لئے آتم نربھربھارت کی تعمیر کے لئے ہمیں اپنے فرائض کو پہچاننا بھی ہے اوران کے لئے عہدبندبھی ہوناہے ۔ جیسے بھگوان کرشن نے ارجن سے کہاتھا –‘چھدرم ہردیے دربلیم ، تیکتواتّیشٹھ پرنتپ ۔یعنی چھوٹی سوچ ، چھوٹے دل اور داخلی کمزوری کو چھوڑکر اب کھڑے ہوجاؤ۔ بھگوان کرشن نے یہ اُپدیش دیتے ہوئے گیتامیں ارجن کو بھارت کہہ کر مخاطب کیاہے ۔ آج گیتا کا یہ خطاب ہمارے بھارت ورش کے لئےہے۔130کروڑبھارت واسیوں کے لئے ہے ۔آج اس پہل کے تعلق سے بھی نئی بیداری آرہی ہے ۔ آج دنیا ہندوستان کو ایک نئے نظریے سے دیکھ رہی ہے ، ایک نئے احترام کے ساتھ دیکھ رہی ہے ، ہمیں اس تبدیلی کو ہندوستان کی جدید شناخت ، جدید سائنس کی بلندی تک لے کر جاناہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر یہ ہدف حاصل کرلیں گے ۔ آزادی کے 75سال ملک کے ایک نئے مستقبل کے آغاز کی بنیاد بنیں گے ۔ میں ایک بارپھرڈاکٹرصاحب کو ، اس ٹرسٹ کو چلانے والے تمام احباب کو اوراس کا م کو کرنے کے لئے آپ نے جو محنت کی ، اس کے لئے میں دل کی گہرائی سے بہت بہت مبارکباد پیش کرتاہوں اورمجھے یقین ہے کہ اس کتاب سے جو لوگ حوالہ کے شکل میں کتاب کا استعمال کرنے کے عادی ہوتے ہیں ، ان کے لئے یہ طریقہ بہت زیادہ کام آئے گا۔ کیونکہ ہم جیسے جولوگ ہیں ان کو کچھ زیادہ ضرورت پڑتی ہے ۔ اس میں حوالہ کی سہولت بہت رہتی ہے اوراس کے لئے بھی میں مانتاہوں کہ آپ نے ایک انمول خزانہ دیاہے ، اورمیں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں ، شایددنیا کا یہ پہلا فکری رویہ ہے ، دنیا کا پہلا ایسا صحیفہ ہے ، دنیا کا پہلا ایساذریعہ ہے جو جنگ کی زمین پر رکھاگیاہے ۔ جنگ کے اعلانات کے درمیان تخلیق ہواہے ، جہاں کامیابی –ناکامی دروازے پر دستک دے رہی تھی ۔ اس وقت کہاگیا ایسے مخالف ماحول ، بدامنی کے ماحول میں اس میں اتنا سکون آمیز فکر کا باہرنکلنایہ اس امرت پرسار کے سوااورکچھ نہیں ہوسکتاہے ۔ گیتا کا یہ علم آنے والی نسلوں کو وہ جس زبان کو بھی سمجھیں ، جس روپ میں سمجھیں ، اس روپ میں دیتے رہنا ، ہرنسل کا کام ہے ۔ ڈاکٹرکرن سنگھ جی نے، ان کے پورے خاندان  نے، ان کی عظیم روایت نے اس کام کو ہمیشہ زندہ رکھاہے ۔ آگے کی نسلیں بھی اسے زندہ رکھیں گی ، مجھے اس کا پورایقین ہے اور ڈاکٹرکرن سنگھ جی کی خدمات ہم ہمیشہ یادرکھیں گے ۔ اس عظیم کام کے لئے میں احترام کے ساتھ سرتسلیم خم کرتاہوں ۔ وہ عمرمیں اتنے بڑے ہیں ، عوامی زندگی میں ، اتنے سینئرکہ ان کا آشیرواد ہم پربنارہے تاکہ ہم بھی ان قدروں کو لے کر کچھ نہ کچھ ملک کے لئے کرتے رہیں ۔

بہت بہت شکریہ !

*****************

(10.03.2021 ،ش ح ۔ اع ۔رم۔ج ق۔ع آ)

U-2347