Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

چار ممبران کی، راجیہ سبھا سے رخصتی کے موقع پر ، وزیراعظم کے خطاب کا متن


اس ایوان کا  حسن بڑھانے والے ، ایوان میں زندگی لانے والے اور  ایوان کے توسط سے عوام کی خدمت  میں مصروف ایسے چار  ہمارے ساتھی،  اُن کی مدت کار  مکمل ہونے کی وجہ سے  نئے کام کی طرف  قدم رکھ رہے ہیں۔

جناب غلام نبی آزاد جی،  جناب شمشیر سنگھ جی،  میر محمد فیاض جی، ناظر احمد جی، میں آپ چاروں شخصیتوں کو  اس ایوان کا حسن بڑھانے کے لئے  آپ کے تجربات  کا، آپ کی ٹیم کا  ایوان کو اور ملک کو  فائدہ پہنچانے کے لئے اپنے علاقے کے مسائل کا حل نکالنے کے لئے آپ نے  جو کچھ بھی  تعاون کیا ہے، اس کے لئے میں سب سے پہلے تو  آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میر محمد جی  اور ناظر احمد جی ، یہ دونوں ایسے ساتھی ہیں، ایوان میں شائد ان کی طرف  بہت کم لوگوں کی  توجہ گئی ہوگی۔ لیکن  کوئی بھی  سیشن ایسا نہیں ہوگا کہ جب مجھے ، میرے چیمبر میں بیٹھ کر  الگ الگ موضوعات پر  انہیں سننے کا ، سمجھنے کا موقع  نہ ملا ہو۔ یہاں تک کہ  کشمیر  باریکیاں بھی،  جب ان کے ساتھ بیٹھتا تھا ، کبھی کبھی جب وہ  اہل خانہ کے  ساتھ بھی آتے تھے، تو متعدد پہلو  وہ میرے سامنے رکھتے تھے۔ مجھے بھی  اس سے  بڑی توانائی ملتی تھی، تو میرا  ان دونوں ساتھیوں سے  ذاتی طور پر رابطہ رہا  اور جو  معلومات ان کے ذریعے مجھے ملتی تھی، میں اس کے لئے  دل سے ان کے تعلق سے ممنونیت کا  اظہار کرتا ہوں اور مجھے  یقین ہے کہ  ان کا عہد  اور ان کی صلاحیت  دونوں  ملک کے لئے  اور خاص طور پر  جموں وکشمیر کے لئے  کام آئے گی۔ ملک کا اتحاد ،  ملک کا امن وسکون، وقار کو بڑھا نے میں کام آئے گی، یہ میرا  یقین ہے۔

ہمارے ایک ساتھی  شمشیر سنگھ جی ،  اب تو یاد بھی نہیں رہا کہ کتنے  برسوں سے  میں ان  کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں۔ کیونکہ میں  تنظیم سے  جڑا  شخص رہا۔ اس شعبے میں  میں کام کرتا تھا۔ کئی برسوں تک  جموں وکشمیر میں بھی کام کرنے کا موقع ملا، تو میرے ساتھی کارکن  کے طور پر   کبھی  کبھی  ایک اسکوٹر  پر سفر کرنے کا موقع ملتا تھا۔ بہت چھوٹی عمر میں ، جو لوگ  ایمرجنسی میں جیل گئے، ان میں شمشیر سنگھ بھی تھے۔ اس ایوان میں  شمشیر جی کی موجودگی  96  فیصد رہی، یہ اپنے آپ میں ایک بڑی  بات ہے، یعنی  جو ذمہ داری عوام نے  ان کو دی ، اس کو بالکل  صد فیصد ادا کرنے کی کوشش کی۔ نرم گفتار ہیں، سادہ ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جموں وکشمیر سے ریٹائر ہونے والے چاروں معزز ممبران  کے لئے  ان کی زندگی کا  یہ عہد  سب سے  اعلیٰ عہد ہے۔ کیونکہ تاریخ  نے ایک نئی کروٹ لی ہے اور  جس  کے وہ  گواہ بنے ہیں،  ہم سفر  بنے ہیں، یہ ان کی زندگی  کا  بہت  بڑا واقعہ ہے۔

جناب غلام نبی  جی، مجھے فکر  اس بات کی  ہے کہ  غلام نبی جی کے بعد  اس عہدے کو  جو سنبھالیں گے، انہیں  غلام نبی جی  سے  میچ کرنے میں بہت دقت آئے گی۔ کیو نکہ غلام نبی جی  اپنی پارٹی کی فکر کرتے تھے،  لیکن  ملک  اور  ایوان  کی بھی  اتنی  ہی فکر  انہیں رہتی تھی۔ یہ  معمولی بات نہیں ہے، یہ بہت بڑی بات ہے، ورنہ  حزب اختلاف کے لیڈر کی شکل میں  اپنا  دبدبہ پیدا کرنا ،  اس کا موہ کسی کو بھی ہوسکتا ہے، لیکن انہوں نے ایوان سے محبت کی۔ میں  شرد پوار جی کو بھی اسی فہرست میں رکھتا ہوں، وہ  ایوان کی  اور ملک کی  فکر کو  اولیت دینے والے  لیڈران میں سے رہے ہیں۔ غلام نبی جی نے  بخوبی اس کام کو  انجام دیا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ  اس کورونا عہد میں ایک فلور لیڈرس کی  میٹنگ کر ر ہا تھا تو اسی دن  غلام نبی جی کا فون آیا، کہ  مودی جی  آپ یہ تو ٹھیک ہے کررہے ہیں، لیکن  ایک کام کیجئے  تمام پارٹی کے لیڈروں کی  میٹنگ ضرور بلوایئے، مجھے اچھا لگا کہ انہوں نے  پارٹی لیڈرو کے ساتھ  تمام پارٹی صدور کے ساتھ  بیٹھنے  کا مجھے مشورہ دیا  اور میں نے وہ میٹنگ کی اور ایسا  غلام نبی جی کے  مشورے پر کیا تھا۔ اور مجھے یہ کہنے میں  کوئی  تامل نہیں، یعنی اس طرح کا  ربط اور  اس کی بنیادی  وجہ ہے کہ انہیں  دونوں طرف کا تجربہ رہا ہے، برسراقتدار پارٹی کا بھی اور  اپوزیشن کا بھی۔  28  سال کی مدت کار  یہ اپنے آپ میں  بہت بڑی بات  ہوتی ہے۔

بہت سال پہلے کی بات ہے کہ  شائد اٹل جی کی سرکار ہوگی، مجھے یاد نہیں رہا ، میں یہاں ایوان میں  کسی کام سے آیا تھا، میں تب سیاست میں  نہیں تھا، یعنی  یہ جو انتخابی سیاست ہوتی ہے، اس میں نہیں تھا، میں تنظیم کا کام کرتا تھا، تو میں  اور  غلام نبی جی  ایسے  لابی میں  گپ شپ کر رہے تھے، صحافیوں کا جیسا  مزاج ہوا کرتا ہے، وہ برا بر  نظر گڑائے بیٹھے تھے، کہ  ان دونوں کا  میل کیسے ہوسکتا ہے، ہم  ہنس ہنس کر  ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے، پھر جب ہم  نکلے تو صحافیوں نے گھیر لیا، اس وقت  غلام نبی جی نے  بہت اچھا جواب دیا تھا، وہ جواب  ہم لوگوں کے لئے  بہت کام آنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ  بھائی  دیکھئے آپ لوگوں نے  ہم کو  اخباروں میں،  ٹی وی پر  یا  عوامی میٹنگ میں  لڑتے جھگڑتے  دیکھا ہوگا لیکن سچ یہ ہے کہ  اس چھت کے نیچے ایک خاندان کا  جو ماحول ہوتا ہے، ویسا کہیں نہیں ہوتا۔ ہم   میں اتنی اپنائیت ہوتی ہے ، اتنے سکھ دکھ ہوتے ہیں، یہ جو  جذبہ ہے، وہ  جذبہ  اپنے آپ میں  بہت بڑی بات ہوتی ہے۔

غلام نبی جی کا ایک شوق  شائد  بہت کم لوگوں کو  معلوم ہوگا  اور کبھی ان کے ساتھ بیٹھو گے تو بتائیں گے۔ ہم  سرکاری بنگلوں میں رہتے ہیں، تو  بنگلہ  کی  دیواروں  ،اپنا صوفہ سیٹ، اس کے آس پاس ہمار دماغ رہتا ہے لیکن  غلام جی نے  اس بنگلے میں  جو باغیچہ  لگایا ہے، وہ ایک طرح سے  وادی کشمیر  کی یاد دلا تا ہے۔ کچھ اس طرح  ہی  باغیچہ  انہوں نے لگایا ہے اور اس کا ان کو فخر بھی ہے ، وہ وقت دیتے ہیں، نئی نئی چیزیں جوڑتے ہیں اور ہر بار  جب مقابلہ ہوتا ہے تو ا ن کا بنگلہ  نمبر ون آتا ہے۔ یعنی  اپنی سرکاری جگہ کو بھی  پیار سے سنوارنا  ،  یعنی بالکل من سے  انہوں نے اس کو  سنبھالا ہے۔

جب آپ وزیر اعلیٰ تھے، میں بھی  ایک ریاست کے وزیراعلیٰ کے طور پر  کام کرتا تھا۔ ہماری  بہت گہری  رفاقت رہی ہے اس دور میں، شائد ہی کوئی  ایسا واقعہ  ڈھونڈنے سے مل سکتا ہے، کہ جب  ہم دونوں کے درمیان  کوئی رابطے کا پل  نہ رہا ہو۔ جموں وکشمیر میں  جانے والے سیاحوں میں  گجرات  کا  بڑا  نمبر رہتا ہے۔ ایک بار گجرات کے  مسافروں پر  دہشت گردو ں نے حملہ کردیا تھا۔ تقریبا  8  لوگ مارے گئے تھے۔ سب سے پہلے  غلام نبی جی کا  فون میرے پاس آیا اور وہ فون  محض اطلاع دینے کے لئے نہیں تھا، فون پر  ان کے آنسو رک نہیں رہے تھے، اس وقت  پرنب مکھرجی  صاحب وزیر دفاع تھے، میں  نے ان کو فون کیا  اور کہا کہ صاحب اگر  مرنے والوں کی  لاشیں لانے کے لئے فوج کا جہاز مل جائے ، رات دیر ہوگئی تھی،  مکھرجی  صاحب نے کہا کہ  آپ فکر مت کیجئے میں انتظام کرتا ہوں۔ لیکن  رات میں  ایک بار پھر  غلام نبی جی کا فون آیا  وہ ایئر پورٹ پر تھے، اس رات کو  ایئر پورٹ سے  انہوں نے مجھے فون کیا  اور اس طرح  اپنے خاندان کے فرد کی فکر کرتے ہیں، ویسی  ہی  فکر انہیں تھی۔

عہدہ ، اقتدار زندگی میں آتے رہتے ہیں، لیکن  میں نے اسے  کیسے پہچانا  میرے لئے وہ  بڑا جذباتی لمحہ تھا، دوسرے دن  صبح   فون آیا  کہ وہ سارے لوگ پہنچ گئے؟  اس لئے  ایک دوست کے طور پر  واقع  اور  تجربات کی بنیاد پر  میں احترام کرتا ہوں  اور مجھے  پورا یقین  ہے کہ  ان کی  خاکساری ،  ان کی نرم مزاجی ،  اس ملک کے لئے  کچھ کر گزرنے کی ان کی خواہش ، ان کو  کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دے گی۔ مجھے  اعتماد ہے کہ وہ  جو بھی ذمہ داری  سنبھالیں گے، اس کی   اہمیت  میں اضافہ کریں گے، تعاون دیں گے اور  ملک  اس سے مستفید ہوگا، ایسا میرا پختہ یقین ہے۔ میں ایک بار پھر ان کی خدمات کے لئے  احترام کے ساتھ  شکریہ ادا کرتا ہوں اور ذاتی طور پر بھی  میری  ان سے  یہ گزارش ہوگی کہ  اس بات کو  کبھی دل سے  تسلیم  مت کریں کہ اب آپ  اس ایوان میں  نہیں ہیں۔ آپ کے لئے  میرے دروازے  ہمیشہ  کھلے ہیں، ان چاروں  معزز  ممبران کے لئے کھلے ہیں، آپ کے خیالات ، آپ کے مشورے  ضروری ہیں، کیونکہ  ملک کے لئے  یہ سب ضروری ہوتا ہے۔ یہ تجربہ بہت کام آتا ہے اور میں  امید کرتا ہوں کہ آپ کا یہ تجربہ  مجھے  ملتا رہے گا۔ آپ کو میں سبکدوش تو ہونے نہیں دوں گا۔  ایک با ر پھر بہت بہت  نیک خواہشات۔ شکریہ!

 

********

ش ح۔ج ق ۔ق ر

1326U-