Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

جی ایچ ٹی سی-انڈیا کے تحت لائٹ ہاؤس پروجیکٹس (ایل ایچ پی) کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی کےخطاب کا متن

جی ایچ ٹی سی-انڈیا کے تحت لائٹ ہاؤس پروجیکٹس (ایل ایچ پی) کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی کےخطاب کا متن


 

نئی دہلی:یکم جنوری، 2021:

نمسکار

مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب ہردیپ سنگھ پوری جی، تریپورہ کے وزیراعلیٰ بپلب کمار دیو جی، جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ بھائی ہیمنت سورین جی، اترپردیش کے وزیراعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیواج سنگھ چوہان جی، گجرات کے وزیراعلیٰ جناب وجئے روپانی جی، تملناڈو کے وزیراعلیٰ تھرو ای کے پلانی سوامی جی، آندھراپردیش کے وزیراعلیٰ جناب وائی ایس جگموہن ریڈی جی، پروگرام میں موجود سبھی معزز گورنر صاحبان ودیگر معزز مہمان، بھائیو اور بہنوں ، آپ سبھی ہم وطنوں کو 2021 کی بہت بہت مبارکباد اور نیک خواہشات اور بہت بہت دلی خواہشات، آج نئی توانائی کے ساتھ نئے عہد کے ساتھ اور نئے عزم کو پورا کرنے کے لئے تیز رفتار سے آگے بڑھنے کا آج نیک شگون ہے۔ آج غریبوں کے لئے، متوسط طبقے کے لئے، گھر بنانے کے لئے نئی ٹیکنالوجی ملک کو مل رہی ہے۔ تکنیکی زبان میں آپ اسے لائٹ ہاؤس پروجیکٹ کہتے ہیں۔ میں مانتا ہوں یہ 6 پروجیکٹ واقعی لائٹ ہاؤس ، روشن کھمبے کی طرح ہیں۔ یہ چھ لائٹ ہاؤس پروجیکٹ ملک میں ہاؤسنگ کنکشن کو نئی سمت دکھائیں گے۔ ملک کے مشرق مغرب، شمال وجنوب ہر خطے سے ریاستوں کی اس مہم میں جڑنا کوآپریٹیو فیڈرل اِزم کے ہمارے جذبے کو اور مضبوط کرتا ہے۔

ساتھیو،

یہ لائٹ ہاؤس پروجیکٹ اب ملک کے کام کرنے کے طور طریقوں کی بھی ایک عمدہ مثال ہے۔ ہمیں اس کے پیچھے کے بڑے وِژن کو بھی سمجھنا ہوگا۔ ایک وقت میں ہاؤسنگ اسکیمیں مرکزی سرکاروں کی ترجیحات میں اتنی نہیں تھیں جتنی ہونی چاہئے۔ سرکار گھر/ مکان کی تعمیر کی باریکیوں اور کوالٹی پر نہیں جاتی تھی لیکن ہمیں پتہ ہے کہ بنا کام کے وسعت میں یہ جو تبدیلیاں دکھائی گئی ہیں، اگر یہ تبدیلی نہ کی گئی ہوتی تو کتنا مشکل ہوتا۔ آج ملک نے ایک الگ طریقہ کار (اپروچ) چنا ہے ایک الگ راستہ اپنایا ہے۔

ساتھیو،

ہمارے یہاں ایسی کئی چیزیں ہیں جوعمل میں تبدیلی کیے بغیر ایسے بھی لگاتار چلتی جاتی ہیں۔ مکانات سے جڑا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی رہا ہے۔ ہم نے اس کو بدلنے کی ٹھانی۔ ہمارے ملک کو بہتر ٹیکنالوجی کیوں نہیں ملنی چاہئے؟ ہمارے غریب کو لمبے عرصے تک ٹھیک رہنے والے دکان کیوں نہیں ملنے چاہیے، ہم جو گھر بناتے ہیں۔ وہ تیزی سے پورے کیوں نہ ہوں، سرکار کی وزارتوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بڑے سست اسٹرکچر جیسے نہ ہوں بلکہ اسٹارٹ اپ کی طرح چست بھی ہوں۔ اور درست بھی ہونے چاہئیں۔ اس لیے ہم نے گلوبل ہاؤسنگ ٹیکنالوجی چیلنج کا اہتمام کیا اور دنیا بھر کی صف اول کی کمپنیوں کو ہندوستان میں مدعو کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ دنیا بھر کی 50 سے زیادہ اختراعی تعمیری ٹیکنالوجیوں نے اس تقریب میں حصہ لیا، مقابلے میں حصہ لیا۔ اس گلوبل چیلنج سے ہمیں نئی ٹیکنالوجی کو لے کر اختراع اور انکیوبیٹ کرنے کا اسکوپ ملا ہے۔ اسی عمل کے اگلے مرحلے میں اب آج سے الگ الگ سائٹس پر 6 لائٹ ہاؤس پروجیکٹس کاکام شروع ہورہا ہے۔ یہ لائٹ ہاؤس پروجیکٹس جدید ٹیکنالوجی اور اختراعی عمل سے بنے گا۔ اس سے تعمیر کا ٹائم کم ہوگا اور غریبوں کو زیادہ سستا آرام دہ اور لچکدار گھر تیار ہوں گے۔ جو ایکسپرٹس  ہیں انہیں تو اس کے بارے میں پتہ ہے لیکن ملک کے لوگوں کوبھی ان کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ کیونکہ آج یہ ٹیکنالوجی ایک شہر میں استعمال ہورہی ہے کل کو انہی کی وسعت پورے ملک میں کی جاسکتی ہے۔

ساتھیو،

اندور میں جو گھر بن رہے ہیں وہ ان میں اینٹ اور گارے کی دیواریں نہیں ہوں گی، بلکہ پری فیبریکیٹڈ سینڈوچ پینل سسٹم اس میں استعمال ہوگا۔ راج کوٹ میں ٹنل کے ذریعے مونولیتھک کنکریٹ کنسٹرکشن اس ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے۔ فرانس کی اس ٹیکنالوجی سے ہمیں رفتار بھی ملے گی اور گھر آفات کو جھیلنے میں زیادہ صلاحیت بھی بنے گی۔ چنئی میں امریکہ اور فن لینڈ کی پری کاسٹ کنکریٹ سسٹم کا استعمال کریں گے جس سے گھر تیزی سے بھی بنے گا اور سستا بھی ہوتا۔ رانچی  میں جرمنی کی 3ڈی کنسٹرکشن سسٹم سے گھر بنائیں گے۔ اس میں ہر کمرہ الگ سے بنے گا اور پھر پورے اسٹرکچر کو ویسے ہی جوڑا جائے گا جیسے لیگو بلاکس کے کھلونوں کو جوڑتے ہیں۔ اگرتلہ میں نیوزی لینڈ کی اسٹیل فریم سے جڑی ٹیکنالوجی سے گھر بنائے جارہے ہیں۔ جہاں زلزلے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، وہاں ایسے گھر بہتر ہوتے ہیں۔ لکھنؤ میں کناڈائی ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں جس میں پلاسٹر اور پینٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اس میں پہلے سے تیار پوری دیواروں کا استعمال کیا جائیگا۔ اس سے گھر اور تیزی سے بنیں گے۔ ہر لوکیشن پر 12 مہینوں میں ہزار گھر بنائے جائیں گے۔ ایک سال میں ہزار گھر۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر دن ڈھائی سے تین گھر بنانے کی ایوریج آئے گی۔ ایک مہینے میں قریب قریب نوے سو مکان بنیں گے اور سال بھر میں ایک ہزار مکان بنانے کا ہدف ہے۔ اگلی 26 جنوری کے پہلے اس کام میں یہ کامیابی پانے کا ارادہ ہے۔

ساتھیو،

یہ پروجیکٹ ایک طرح سے انکیوبیشن سینٹرس ہی ہوں گے۔ جس سے ہمارے پلانرس، آرکیٹیکس، انجینئرس اور اسٹوڈنٹس سیکھ پائیں گے اور نئی ٹیکنالوجی کا ایکسپری منٹ کرپائیں گے۔میں ملک بھر کی اس طرح کی سبھی یونیورسٹی سے اپیل کرتا ہوں۔ سبھی انجینئرنگ کالج سے اپیل کرتا ہوں کہ اس فیلڈ میں جڑے ہوئے آپ کے پروفیسرز، آپ کی فیکلٹی، آپ کے اسٹوڈنٹس، دس۔ دس ، پندرہ۔ پندرہ کے گروپ بنائیں گے، ایک۔ایک ہفتے کے لئے ان 6 سائٹ پر رہنے کیلئے چلے جائیں، پوری طرح اس کا مطالعہ کریں، وہاں کی سرکاریں بھی ان کی مدد کریں اور ایک طرح سے ملک بھر کی ہماری یونیورسٹی کے لوگ یہ جو پائلٹ پروجیکٹ ہورہے ہیں۔ ایک طرح سے انکیوبیٹرس ہورہے ہیں۔ وہاں جاکر کے ٹیکنالوجی اور میں یہ چاہوں گا کہ ہمیں آنکھ بند کرکے کسی ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ضرورت ن ہیں ہے۔ ہم دیکھیں اور پھر ہمارے  ملک کی ضرورت کے حساب سے، ہمارے ملک کے وسائل کے حساب سے، ہمارے ملک کی ضرورت کے حساب سے ہم اس ٹیکنالوجی کی شکل بدل سکتے ہیں کیا؟ اس کی سرگرمی بدل سکتے ہیں کیا؟ اس کی کارکردگی کی سطح کو بدل سکتے ہیں کیا؟ میں پکاّ مانتا ہوں ہمارے ملک کے نوجوان یہ دیکھیں گے اس میں ضرور ویلیو ایڈیشن کریں گے، کچھ نیا پن جوڑیں گے اور سچ مچ میں ملک ایک نئی سمت میں تیزی سے آگے بڑھے گا۔ اسی کے ساتھ ساتھ گھر بنانے سے جڑے لوگوں کو نئی ٹیکنالوجی سے جڑی اسکل اپ گریڈ کرنے کیلئے سرٹیفکیٹ کورس بھی شروع کیا جارہا ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ ہم نے اس کے ساتھ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ، اسکل ڈیولپمنٹ، اس کو ایک ساتھ شروع کیا ہے۔ آن لائن آپ پڑھ سکتے ہیں۔ اس نئی ٹیکنالوجی کو سمجھ سکتے ہیں۔ اب امتحان دیکر کے سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ ملک کے لوگوں کو گھر تعمیر کرنے میں دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی اور میٹریل مل سکے۔

ساتھیو،

ملک میں ہی جدید ہاؤسنگ ٹیکنالوجی سے جڑی ریسرچ یا تحقیق اور اسٹارٹ اپس کو پرموٹ کرنے کے لئے آشا- انڈیا پروگرام چلایا جارہا ہے۔ اس کے توسط سے بھارت میں ہی 21ویں صدی کے گھروں کی تعمیر کی نئی اور سستی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائیگا۔ اس مہم کے تحت 5 سب سے اعلیٰ تکنیکوں کاانتخاب بھی کیا گیا ہے۔ ابھی مجھے بہترین کنسٹرکشن ٹیکنالوجی پر مبنی کتاب اور آن لائن سرٹیفکیٹ کورس نوریتی سے جڑی کتاب کے اجراء کا بھی موقع ملا ہے۔ ان سے جڑے سبھی ساتھیوں کو بھی ایک طرح سے ہالسٹک ایپروچ کے لئے میں سبھی ساتھیوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو،

شہر میں رہنے والے غریب ہوں یا پھر متوسط طبقے لوگ، ان سب کاایک سب سے بڑا خواب کیا ہوتا ہے؟ ہر کسی کا خواب ہوتا ہے۔ اپنا گھر۔ کسی کو بھی پوچھو اس کے دل میں ہوتا ہے کہ گھر بنانا ہے۔ بچوں کی زندگی اچھی چلی جائی۔ وہ گھر جس میں ان کی خوشیاں جڑی ہوئی ہیں، سکھ -دکھ جڑے ہوتے ہیں، بچوں کی پرورش جڑی ہوتی ہے، مشکل کے وقت ایک گارنٹی بھی جڑی ہوتی ہے کہ چلو کچھ نہیں ہے تو یہ اپنا گھر تو ہے ہی۔لیکن گزشتہ  کچھ سالوں میں اپنے گھر کو لیکر، لوگوں کا بھروسہ ٹوٹتا جارہا تھا۔ زندگی بھر کی پونجی لگاکر گھر خرید تو لیا، پیسے تو جمع کردیے لیکن گھر کاغذ پر ہی رہتا تھا۔ گھر مل جائے گا اس کا بھروسہ نہیں رہ گیا تھا۔ کمائی ہونے کے باوجود بھی، اپنی ضرورت بھر کاگھر خرید پائیں گے، اس کا بھروسہ بھی  ڈگمگاگیا تھا۔ وجہ۔ کیونکہ قیمتیں اتنی زیادہ ہوگئی تھی! ایک اور بھروسہ جو ٹوٹ گیا تھا وہ یہ کہ کیا قانون ہمارا ساتھ دیگا کہ نہیں دیگا؟ اگر بلڈر کے ساتھ کوئی جھگڑا ہوگیا، مصیبت آگئی تو یہ بھی فکرکی بات تھی۔ ہاؤسنگ سیکٹر کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ کسی گڑبڑی کی حالت میں عام شخص کو یہ بھروسہ ہی نہیں تھا کہ قانون اس کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

ساتھیو،

ان سب  سے وہ کسی طرح نپٹ کر آگے بڑھنا بھی چاہتا تھا، تو بینک کی اونچی شرح قرض ملنے میں ہونے والی مشکلیں، اس کے ان خوابوں کو پھر ایک بار نیچے پست کردیتی تھی۔ آج مجھے اطمینان ہے کہ گزشتہ چھ سالوں میں ملک جو قدم اٹھائے گئے ہیں، اس میں ایک عام شخص کا، خاص کر محنت کش متوسط کنبے کا یہ بھروسہ لوٹایا ہے کہ اس کا بھی اپنا گھر ہوسکتا ہے۔ اپنی ملکیت کا گھر ہوسکتا ہے۔ اب ملک کا فوکس ہے غریب اور متوسط طبقے کی ضرورتوں پر، اب ملک نے ترجیح دی ہے شہر میں رہنے والے لوگوں کے احساسات کو، ان کی جذبات کو۔  پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت شہروں میں بہت ہی کم وقت میں لاکھوں گھر بناکر دیئے جاچکے ہیں۔ لاکھوں گھروں کی تعمیر کاکام جاری بھی ہے۔

ساتھیو،

اگر ہم پی ایم آواس یوجنا کے تحت بنائے گئے لاکھوں گھروں کے کام پر نظر ڈالیں تو، اس میں اختراع اور نفاذ، دونوں پر فوکس ملے گا۔ بلڈنگ میٹریل میں مقامی ضرورتوں اور گھر کے مالک کی امیدوں کے مطابق اختراع نظر آئے گی۔ گھر کے ساتھ ساتھ دوسری اسکیموں کو بھی ایک پیکیج کی شکل میں اس سے جوڑا گیا ہے۔ اس سے جو غریب کو گھر مل رہا ہے اس میں پانی، بجلی، گیس، ایسی جو اس کی ضروری سہولتیں ہیں ایسی متعدد سہولتیں  یقینی کی جارہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں، شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے ہر گھر کی جی او – ٹیگنگ کی جارہی ہے، جیو-ٹیگنگ کے سبب ہر چیز کا پتہ چلتا ہے۔ اس میں بھی ٹیکنالوجی کا پورا استعمال کیا جارہا ہے۔ گھر تعمیر کے ہر اسٹیج کی تصویر ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنی پڑتی ہے۔ گھر بنانے کیلئے جو سرکاری مدد ہے وہ سیدھے مستفیدین کے بینک کھاتے میں بھیجی جاتی ہے۔ اور میں ریاستوں کا بھی شکر گزار ہوں گا کیوں کہ اس میں وہ بھی بہت سرگرمی کےساتھ چل رہے ہیں۔ آج کئی ریاستوں کو اس کے لئے اعزازسے نوازنے کا بھی مجھے موقع ملا ہے۔ میں ان ریاستوں کو جوکامیاب ہوئی ہیں، جو آگے بڑھنے کیلئے میدان میں آئے ہیں، ان سبھی ریاستوں کو خاص طور سے مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو،

سرکار کی کوششوں کا بہت بڑا فائدہ شہروں میں رہنے وا لے متوسط طبقوں کو ہورہا ہے۔ متوسط طبقے کو اپنے پہلے گھر کے لئے ایک طے رقم کے ہوم لون پر سود میں چھوٹ دی جارہی ہے۔ ابھی کورونا بحران کے دوران بھی سرکار نے ہوم لون پر سود میں چھوٹ کی خاص اسکیم شروع کی۔ متوسط طبقے کے ساتھیوں کے جو گھر برسوں سے ادھورے پڑے تھے، ان کے لئے 25 ہزار کروڑ روپئے کا مخصوص فنڈ بھی بنایا گیا ہے۔

ساتھیو،

ان سارے فیصلوں کے ساتھ ہی، لوگوں کے پاس اب آر ای آر اے جیسے قانون کی طاقت بھی ہے۔ آر ای آر اے  نے لوگوں میں یہ بھروسہ لوٹایا ہے کہ جس پروجیکٹ میں وہ پیسہ لگا رہے ہیں، وہ پورا ہوگا، ان کا گھر اب پھنسے گا نہیں۔ آج ملک میں لگ بھگ 60 ہزار ریئل اسٹیٹ پروجیکٹس ریرا کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ اس قانون کے تحت ہزاروں شکایتوں کو نمٹایا جاچکا ہے، یعنی ہزاروں کنبوں کو ان کا گھر ملنے میں مدد ملی ہے۔

ساتھیو،

سب کے لئے مکان، یعنی ہاؤسنگ فار آل، اس ہدف کے حصول کیلئے جو چوطرفہ کام کیا جارہا ہے، وہ کروڑوں غریبوں اور متوسط کنبوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی لارہا ہے۔ یہ گھر غریبوں کے خوداعتمادی کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ گھر ملک کے نوجوانوں کے اعتماد کو بڑھا رہے ہیں۔ ان گھروں کی چابی سے کئی دروازے ایک ساتھ کھل رہے ہیں۔ جب کسی کو گھر کی چابی ملتی ہے  نا تب وہ دروازہ یا چار دیوار اتنا تک نہیں ہوتا ہے ، جب گھر کی چابی ہاتھ آتی ہے تو ایک باعزت زندگی کا دروازہ کھل جاتا ہے، ایک محفوظ مستقبل کا دروازہ  کھلتا ہے، جب گھر کے مکان کی ملکیت کا حق آ جاتا ہے، چابی ملتی ہے تب بچت کا بھی دروازہ کھلتا ہے، اپنی زندگی کی وسعت کا دروازہ کھلتا ہے، پانچ- پچیس لوگوں کے درمیان، سماج میں، برادری میں ایک نئی پہچان کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ایک عزت کا جذبہ لوٹ آتا ہے۔ اعتماد پنپتا ہے۔ یہ چابی لوگوں کی ترقی کا، ان کو آگے بڑھنے کا دروازہ بھی کھول رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں، یہ چابی بھلے ہی دروازے کی چابی ہوگی لیکن وہ دماغ کے بھی وہ تالے کھول دیتی ہے۔ جو نئے خواب بننے لگ جاتا ہے۔ نئے عہد کی طرف بڑھ چلتا ہے اور زندگی میں کچھ کرنے کے خواب نئے طریقے سے بننے لگ جاتا ہے۔ اس چابی  کی اتنی طاقت ہوتی ہے۔

ساتھیو،

پچھلے سال کورونا بحران کے دوران ہی ایک طرف بڑا قدم بھی اٹھایا گیا ہے۔ یہ قدم ہے۔ افورڈیبل رینٹل ہاؤسنگ کمپلیکس یوجنا۔ اس یوجنا کا ہدف ہمارے وہ مزدور ساتھی ہیں، جو ایک ریاست سے دوسری ریاست میں یا پھر گاؤں سے شہر آتے ہیں۔ کورونا کے پہلے تو ہم نے دیکھا تھا کہ کچھ جگہ سے دیگر ریاست سے آئے لوگوں کیلئے اناپ شناپ کبھی کبھی باتیں بولی جاتی تھیں، ان کو بے عزت کیا جاتا تھا لیکن کورونا کے وقت سارے مزدور اپنے اپنے یہاں واپس گئے تو بقیوں کو پتہ چلا کہ ان کے بنا زندگی جینا کتنا مشکل ہے۔ کاروبار چلانا کتنا مشکل ہے۔ صنعتی کاروبار چلانا کتنا مشکل ہے اور ہاتھ  پیر جوڑ کر کے لوگ لگے واپس آؤ واپس آؤ۔ کورونا نے ہمارے مزدوروں کی عزت کو جو لوگ قبول نہیں کرتے تھے۔ ان کو قبول کرنے کیلئے مجبور کردیا۔ہم نے دیکھا ہے کہ شہروں میں ہمارے مزدور بھائیوں کو مناسب کرائے پر مکان دستیاب نہیں ہوپاتے۔ اس کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کمروں میں بڑی تعداد میں مزدوروں کو رہنا پڑتا ہے۔ ان جگہوں پر پانی، بجلی، ٹوائلٹ سے لیکر گندگی ایسے بہت سے مسائل بھڑے پڑے رہتے ہیں۔ ملک کی  خدمت میں اپنی محنت لگانے والے یہ سبھی ساتھی عزت کے ساتھ زندگی جیئیں یہ بھی ہم سبھی  ملک کے لوگوں کا فرض ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ سرکار صنعتوں کے ساتھ اور دوسرے سرمایہ کاروں کے ساتھ ملکر مناسب  کرائے والے گھروں کی تعمیر کرنے پر زور دے رہی ہے۔ کوشش یہ بھی ہے کہ یہ گھر اسی علاقے میں ہوں جہاں وہ کام کرتے ہیں۔

ساتھیو،

ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو فروغ دینے کیلئے بھی لگاتار فیصلے کیے جارہے ہیں۔ خریداروں میں جوش بڑھانے کیلئے گھروں پر لگنے والے ٹیکس کو بھی بہت کم کیاجارہا ہے۔ سستے گھروں پر جو ٹیکس پہلے 8  فیصد لگا کرتا تھا وہ اب صرف ایک فیصد ہے۔ وہیں عام گھروں پر لگنے والے 12فیصد ٹیکس کی جگہ اب صرف 5فیصد جی ایس ٹی لیا جارہا ہے۔ سرکار نے اس سیکٹر کو بنیادی ڈھانچے کی بھی منظوری دی  ہے تاکہ انہیں سستی شرحوں پر قرض مل سکے۔

ساتھیو،

گزشتہ سالوں میں جو اصلاحات کی گئی ہیں اس میں، کنسٹرکشن پرمٹ کو لیکر تین سال میں ہی ہماری رینکنگ 185 سے سیدھے 27 پر پہونچی ہے۔ کنسٹرکشن سے جڑی پرمیشن کیلئے آن لائن بندوبست کی توسیع بھی دو ہزار سے زیادہ شہروں میں ہو چکی ہے۔ اب اس نئے سال میں اس کو ملک بھر کے سبھی شہروں میں لاگو کرنے کیلئے ہم سبھی کو ملکر کام کرنا ہے۔

ساتھیو،

بنیادی ڈھانچے اور کنسٹرکشن پر ہونے والی سرمایہ کاری، اور خاص کر ہاؤسنگ سیکٹر پر کیا جارہا خرچ، معیشت میں فورس- ملٹی پلائر کا کام کرتا ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں اسٹیل کا لگنا، سیمنٹ کا لگنا، کسٹرکشن میٹریل کا لگنا، پورے سیکٹر کو رفتار دیتا ہے۔ اس سے ڈیمانڈ تو بڑھتی ہی ہے ، روزگار کے بھی نئے مواقع بنتے ہیں۔ ملک کا ریئل اسٹیٹ سیکٹر لگاتار مضبوط ہو، اس  کے لئے سرکار کی کوشش لگاتار جاری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہاؤسنگ فار آل کا خواب ضرور پورا ہوگا۔ گاوؤں میں بھی ان سالوں میں دو کروڑ گھر بنائے جاچکے ہیں۔ اس سال ہمیں گاؤوں میں بن رہے گھروں میں بھی اور تیزی لانی ہے۔ شہروں میں اس نئی ٹیکنالوجی کے وسعت سے بھی  گھروں کی تعمیر اور ڈلیوری، دونوں میں ہی تیزی آئے گی۔ اپنے ملک کو تیز رفتار سے آگے بڑھانے کیلئے ہم سبھی کو تیز رفتار سے چلنا ہی ہوگا، ملکر چلنا ہوگا، طے شدہ سمت میں چلنا ہوگا۔ ہدف کو اوجھل ہونے دینا نہیں ہے اور چلتے رہنا ہے  اور اس کے لئے تیز رفتار سے فیصلے بھی لینے ہی ہوں گے۔ اسی عہد کے ساتھ میں آج آپ سب کو اس 6 لائٹ ہاؤس ایک طرح سے ہماری نئی پیڑھی کو، ہمارے ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے طلباء کے لئے یہ سب سے زیادہ مفید ہو یہ میری خواہش رہے گی۔ میں چاہوں گا سبھی  یونیورسٹیز کو، میں چاہوں گا سبھی کالجیز کو اس طرح کے جو اہم پروجیکٹس ہوتے ہیں اس کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ جاکر کے دیکھنا چاہیے کہ کیسے ہورہا ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے ہوتا ہے۔ حساب – کتاب کیسے لگایاجاتا ہے، یہ اپنے آپ میں تعلیم کا بہت بڑا ایک دائرہ بن جائیگا اور اس لئے میں ملک کے سبھی نوجوان انجینئروں کو، ٹیکنیشینوں کو، خاص طور سے دعوت دیتا ہوں۔ اس لائٹ ہاؤس سے جتنی لائٹ وہ لے سکتے ہیں لیں اور اپنی لائٹ جتنی اس میں ڈال سکتے ہیں ڈالیں، اپنے دماغ کی لائٹ جتنی لگا سکتے ہیں لگائیں۔ آپ سب کو اس  نئےسال کی بہت بہت نیک خواہشات۔ اس چھ لائٹ ہاؤس کے لئے بہت بہت نیک خواہشات۔

بہت بہت شکریہ۔

 

———————–

م ن۔ح ا۔ ع ن

U NO:30