Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

وشو بھارتی یونیورسٹی کی صدی تقریبات کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

وشو بھارتی یونیورسٹی کی صدی تقریبات کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن


 

نمسکار

ہے ودھاتا، داؤ-داؤ مودیر گوربھ داؤ— گرودیو نے کبھی  یہ خواہش طلبا و طالبات کے روشن مستقبل کے لیے کی تھی۔ آج وشو بھارتی کے قابل فخر 100 سال مکمل ہونے پر میری طرح پورا ملک اس عظیم ادارے کے لیے یہی خواہش کرتا ہے۔  ہے ودھاتا، داؤ-داؤ مودیر گوربھ داؤ— مغربی بنگال کے گورنر جناب جگدیپ دھنکھڑ جی، مرکزی وزیر تعلیم ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشنک جی، وائس چانسلر پروفیسر بدیوت چکربرتی جی، پروفیسر صاحبان، رجسٹرار، وشوبھارتی کے سبھی اساتذہ کرام، طلبا و طالبات، ابنائے قدیم، خواتین و حضرات! وشو بھارتی اس یونیورسٹی کا 100 سال مکمل ہونا، ہر بھارت باسی کے لیے بہت ہی فخر کی بات ہے۔ میرے لیے بھی یہ بڑا ہی خوشگوار ہے کہ آج کے دن اس سرزمین کو یاد کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

ساتھیو!

وشوبھارتی 100 سالہ سفر بہت ہی خاص ہے۔ وشوبھارتی، ماں بھارتی کے لیے گرودیو کی فکر، فلسفہ اور محنت کی ایک عملی شکل ہے۔ بھارت کے لیے گرودیو نے جو خواب دیکھا تھا،ا س خواب کو عملی شکل دینے کےلیے ملک کو مسلسل توانائی دینے والا یہ ایک طرح سے مقدس مقام ہے۔ متعدد عالمی شہرت یافتہ گلوکار، نغمہ نگار، فن کار، ادیب، ماہر اقتصادیات، ماہر عمرانیات، سائنسداں، متعدد مالی امور کے ماہرین دینے والی وشوبھارتی، جدید بھارت کی تعمیر کے لیے مسلسل نئی نئی کوششیں کرتی رہی ہے۔ اس ادارے کو اس بلندی تک پہنچانے والے ہر شخص کو میں بصد احترام سلام کرتا ہوں، ان کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ وشوبھارتی، شری نکیتن اور شانتی نکیتن مسلسل ان اہداف کے حصول کی کوشش کررہے ہیں، جو گرودیو نے طئے کیے تھے۔ وشوبھارتی کے ذریعے متعدد گاؤوں میں ترقیاتی کام ایک طرح سے گاؤوں کی فلاح وبہبود کا کام تو ہمیشہ ہی قابل تعریف  رہا ہے۔ آپ نے 2015 میں جس یوگ شعبے کی شروعات کی تھی، اس کی مقبولیت بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ قدرت کے ساتھ مل کر مطالعہ اور زندگی، دونوں کی عملی مثال آپ کا یونیورسٹی کیمپس ہے۔ آپ کو بھی یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہوگی کہ ہمارا ملک، وشو بھارتی سے نکلے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچا رہا ہے۔ بھارت آج بین الاقوامی شمسی  اتحاد کے توسط سے ماحولیاتی تحفظ کے سلسلے میں دنیا کے اندر ایک انتہائی اہم رول ادا کررہا ہے۔ بھارت آج پوری دنیا میں واحد بڑا ملک ہے، جو پیرس معاہدہ کے ماحولیاتی اہداف کے حصول کے لیے صحیح راستے پر تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔

ساتھیو!

آج جب ہم وشو بھارتی یونیورسٹی کے قیام کا 100واں سال منا رہے ہیں، تو ان حالات کو بھی یاد کرنا ضروری ہے جو اس کے قیام کی بنیاد بنے تھے۔ یہ حالات صرف انگریزوں کی غلامی سے ہی پیدا ہوئے ہوں، ایسا نہیں تھا۔ اس کے پیچھے سیکڑوں برسوں کا تجربہ تھا، سیکڑوں برسوں تک چلنے والی تحریکوں کا پس منظر تھا۔آج آپ جیسے اسکالروں کے درمیان میں اس کا خاص طور پر ذکر اس لیے کررہا ہوں، کیونکہ اس پر بہت کم بات ہوئی ہے، بہت کم توجہ دی گئی ہے، اس کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے ،کیونکہ یہ براہ راست بھارت کی تحریک آزادی اور وشو بھارتی کے اہداف سے منسلک ہے۔

ساتھیو!

جب ہم جدوجہدآزادی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے من میں براہ راست 19ویں اور 20ویں صدی کے خیالات آتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تحریکات کی بنیاد بہت پہلے رکھی گئی تھی۔ بھارت کی آزادی کی تحریک کو صدیوں پہلے سے چلی آرہی متعدد تحریکوں سے توانائی ملی تھی۔بھارت کے روحانی اور ثقافتی اتحاد کو بھگتی تحریک نے مضبوط کرنے کا کام کیا تھا۔ بھگتی دور میں، ہندوستان کے ہر شعبے، ہر علاقے، مشرق-مغرب، شمال-جنوب، ہر سمت میں ہمارے سنتوں، مہنتوں، آچاریوں نے ملک کے شعور کو بیدار رکھنے کی پیہم کوشش کی۔ اگر جنوب کی بات کریں تو مدھواچاریہ، نمبارکاچاریہ، ولبھاچاریہ، رامانوجاچاریہ ہوئے، اگر مغرب کی نظر کریں تو میرابائی، ایکناتھ، تکارام، رام داس، نرسی مہتا، اگر شمال کی طرف نظر کریں تو سنت رامانند، کبیر داس، گوسوامی تلسی داس، سورداس، گرونانک دیو، سنت روی داس رہے، ان گنت مہا پرش مشرق کی طرف دیکھیں، اتنے سارے نام ہیں، چیتن مہاپربھو اور سری منت شنکر دیو جیسے سنتوں کے خیالات سے سماج کو توانائی ملتی رہی۔ بھگتی کال کے اسی دور میں رس کھان، سور داس، ملک محمد جائسی، کیشوداس، ودیاپتی نہ جانے کتنی عظیم شخصیتیں ہوئیں، جنہوں نے اپنی تخلیقات سے سماج کو سدھارنے کا بھی، آگے بڑھنے کا بھی اور ترقی کی راہ بھی دکھائی۔ بھگتی کال میں ان پاکیزہ روحوں نے جن جن کے اندر اتحاد کے ساتھ کھڑے ہونے کا جذبہ پیدا کیا۔ اس کے سبب یہ تحریک ہر علاقائی حدود سے باہر نکل کر بھارت کے کونے کونے میں پہنچی۔ ہر مذہب، ہر طبقہ، ہر ذات کے لوگ، بھگتی کے پلیٹ فارم پر خودداری اور ثقافتی وراثت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ بھگتی تحریک وہ ڈور تھی، جس نے صدیوں سے جدوجہد میں مصروف بھارت کو اجتماعی شعور اور خوداعتمادی سے بھردیا۔

ساتھیو!

بھگتی کا یہ موضوع تب تک آگے نہیں بڑھ سکتا، جب تک عظیم کالی بھگت شری رام کرشن پرم ہنس کا ذکر نہ ہو۔  وہ مہان سنت جن کے سبب بھارت کو سوامی وویکانند ملے۔ سوامی وویکانند بھگتی، گیان اور کرم تینوں کو اپنے میں سمائے ہوئے تھے۔ انہوں نے بھگتی کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ہر شخص میں نور دیکھنا شروع کیا۔  انہوں نے افراد اور اداروں کی تعمیر پر زور دیتے ہوئے کرم کو بھی اظہار دیا، ترغیب دی۔

ساتھیو!

بھگتی تحریک کے سیکڑوں برسوں  پر محیط دور کے ساتھ  ساتھ ملک میں کرم آندولن بھی چلا۔ صدیوں سے بھارت کے لوگ غلامی اور شہنشاہیت سے لڑ رہے تھے۔ چاہے وہ چھترپتی شیواجی مہاراج ہو، مہارانا پرتاپ ہوں، جھانسی کی رانی لکشمی بائی ہوں، کتور کی رانی چنما ہوں یا پھر بھگوان برسامنڈا کی مسلح جدوجہد ہو، بے انصافی اور استحصال کے خلاف عام شہریوں کا ایثار و قربانی ، کرم، سخت مجاہدہ اپنے عروج پر تھا۔ یہ مستقبل میں ہماری جدوجہد آزادی کے لیے بہت بڑی تحریک کا باعث بنے۔

ساتھیو!

جب بھگتی اور کرم کی دھارائیں پربہار تھیں توا س کے ساتھ ساتھ علم کے چشمے کا یہ منفرد سنگم، آزادی کی تحریک کا شعور بن گیا تھا۔ آزادی کی خواہش میں بھگتی کی ترغیب بھرپور تھی۔ وقت کی مانگ تھی کہ علم کے اداروں پر آزادی کی جنگ جیتنے کےلیے فکری تحریک بھی کھڑی کی جائے اور ساتھ ہی روشن بھارت کی تعمیر کے لیے نئی نسل کو تیار بھی کیا جائے اور اس میں بہت بڑا رول نبھایا، اس وقت قائم ہوئے  کئی باوقار تعلیمی اداروں نے، یونیورسٹیوں نے۔ وشوبھارتی یونیورسٹی ہو، بنارس ہندو یونیورسٹی ہو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہو، نیشنل کالج ہو، جو اب لاہور میں ہے، میسور یونیورسٹی ہو، تریچی نیشنل کالج ہو، مہاتما گاندھی کاشی ودیاپیٹھ ہو، گجرات ودیاپیٹھ ہو، ویلنگڈن کالج ہو، جامعہ ملیہ اسلامیہ ہو، لکھنو یونیورسٹی ہو، پٹنہ یونیورسٹی ہو، دہلی  وشو ودیالیہ ہو، آندھرا یونیورسٹی، انا ملائی یونیورسٹی ہو، ایسے بہت سے ادارے اسی ایک دور میں ملک میں قائم ہوئے۔ ان یونیورسٹیوں میں بھارت کے  ایک بالکل نئے تنوع کو فروغ ملا۔ ان تعلیمی اداروں نے  بھارت کے آزادی کے لئے جاری  نظریاتی مہم کو نئی تقویت دی، نئی سمت دی، نئی اونچائی دی۔ بھکتی آندولن سے ہم  یکجا ہوئے، گیان آندولن نے ذہنی مضبوطی عطا کی اور عملی مہم نے ہمیں اپنے حق کے لئے لڑائی کا حوصلہ اور  ہمت دی۔ سینکڑوں برسوں کے  دور میں چلی  یہ مہمیں،  ریاضت اور لگن کی  انوکھی مثال بن گئی تھیں۔ ان  مہمات سے متاثر ہوکر  ہزاروں لوگ آزادی کی لڑائی میں قربا نی دینے کے لئے ایک کے بعد ایک آگے آتے رہے۔

ساتھیو!

علم کی اس مہم کو گرو دیو کے ذریعے قائم وشو بھارتی وشو ودیالیہ نے نئی  توانائی دی تھی۔ گرو دیو نے جس طرح بھارت کی تہذیب سے جڑتے ہوئے، اپنی روایات سے جڑتے ہوئے  وشو بھارتی  کو  جو شکل دی، اس نے  قوم پرستی کی ایک مضبوط پہچان ملک کے سامنے رکھی۔ ساتھ ساتھ انہوں نے عالمی بھائی چارے پر بھی اتنا ہی زور دیا۔

ساتھیو!

وید سے وویکانند  تک بھارت کی فکر  کی سمت گرو دیو کی  قوم پرستی کی فکر میں بھی  اہم تھی اور یہ  دھارا اندرونی نہیں تھی، وہ بھارت کو دنیا کے دوسرے ملکوں سے  الگ رکھنے والی نہیں تھی، ان کا وژن تھا کہ جو بھارت میں سب سے اعلیٰ ہے، اس سے دنیا کو بھی فائدہ ہو اور جو دنیا میں اچھا ہے، بھارت بھی اس سے سیکھے۔ آپ کے وشوودیالیہ کا نام ہی دیکھئے۔ وشو بھارتی۔ ماں بھارتی اور دنیا کے ساتھ ہم آہنگی  گرو دیو  سب کی شمولیت اور  دل کو چھونے والے اور بقائے باہم  اور  تعاون کے ذریعے انسانیت کی بہبود کے وسیع  ہدف کو لے کر چل رہے تھے۔ وشو بھارتی کے لئے یہی ویژن خود کفیل بھارت کا بھی نچوڑ ہے۔ خود کفیل ابھیان بھی دنیا کی بہبود کے لئے  بھارت کے بہبود کا راستہ ہے۔ ابھیان  بھارت کو  با اختیار کرنے کا ابھیان ہے۔ بھارت کی خوش  حالی سے  دنیا میں خوش حالی لانے کا ابھیان ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک  مستحکم اور  خود کفیل بھارت نے  ہمیشہ پوری دنیا  کے سماج کا بھلا کیا ہے۔ ہماری ترقی  تنہا نہیں بلکہ  عالمی ، جامع  اور  اتنا ہی نہیں ، ہماری رگوں میں جو بھرا ہوا ہے وہ ’’سب کے سکھ میں ہی بھلا‘‘ کے لئے ہے۔ بھارتی اور  وشو کا یہ تعلق آپ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ گرو دیو نے ہمیں دیسی سماج کا عہد دیا تھا۔ وہ ہمارے گاؤوں کو ، ہماری زراعت کو، خود کفیل دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ بزنس اور کاروبار کو  خود کفیل دیکھنا چاہتے تھے، وہ آرٹ اور ادب کو خود کفیل دیکھنا چاہتے تھے، انہوں نے خود کفالت کے ہدف  کو حاصل کرنے کے لئے  اپنی قوت کی بات کہی تھی۔ اپنی قوت کی طاقت سے قومی تعمیر کے بارے میں انہوں نے جو بات کہی تھی وہ آج  بھی اتنی ہی اہم ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ – قوم کی تعمیر ایک طرح سے اپنی روح کی حصولیابی کی توسیع ہے، جب آپ اپنے خیالات سے، اپنے عمل سے، اپنے فرائض کی ادائیگی سے، ملک کی تعمیر کرتے ہیں، تو آپ کو  ملک کی روح میں ہی اپنی روح نظر آنے لگتی ہے‘‘۔

ساتھیو!

بھارت کی روح، بھارت کی خود کفالت اور  بھارت  کا عزت نفس ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، بھارت کے عزت نفس کے تحفظ کے لئے تو بنگال کی  پیڑھیوں نے  خود کو کھپادیا تھا۔ یاد کیجئے ، خودی رام بوس کو ، صرف 18 سال کی عمر میں پھانسی چڑھ گئے۔ پرفل چاکی 19 سال کی عمر شہید ہوگئے، بیناداس، جنہیں بنگال کی  اگنی کنیا کے طور پر جانا جاتا ہے، صرف 21  سال کی عمر میں جیل بھیج دی گئی تھیں۔ پرتی لتا وڈیڈار نے  صرف 21  سال کی عمر میں اپنی زندگی نچھاور کردی تھی۔ ایسے ان گنت لوگ ہیں، شاید جن کے نام   تاریخ میں بھی درج نہیں ہوپائے، ان سبھی نے  ملک کی عزت نفس کے لئے ہنستے ہنستے موت کو گلے لگا لیا۔ آج انہیں سے  تحریک لے کر ہمیں  خود کفیل بھارت کے لئے جینا ہے۔ اس عہد کو پورا کرنا ہے۔

ساتھیو!

بھارت کو مضبوط اور  خود کفیل بنانے میں آپ کا ہر تعاون ، پوری دنیا کو ایک بہتر  مقام  بنائے گا۔ سال 2022  میں ملک کی آزادی کے  75 سال پورے ہونے جارہے ہیں، وشو بھارتی  کے قیام کے  27 سال بعد  بھارت آزاد ہوگیا تھا۔ اب سے  27 سال بعد  بھارت اپنی آزادی کے  100 سال پورے ہونے کا جشن منائے گا۔ ہمیں نئے ہد ف مقرر کرنے ہوں گے، نئی توانائی  حاصل کرنی ہوگی، نئے طریقے سے  اپنا سفر شروع کرنا ہوگا اور اس سفر میں ہماری رہنمائی کوئی اور نہیں بلکہ گرو دیو کی ہی باتیں کریں گے، ان کے خیالات کریں گے اور جب تحری ملتی  ہے، عہد ہوتا ہے، تو ہدف بھی  اپنے آپ مل جاتے ہیں۔ وشو بھارتی کی ہی بات کروں تو اس سال  یہاں  تاریخی  پوش  میلے کا انعقاد نہیں ہوسکا ہے، 100  کے سفر میں  تیسری مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ اس  وبا نے ہمیں  اس کی قدر کو سمجھا یا ہے۔ ’ووکل فار لوکل‘ پوش میلے کے ساتھ تو  یہ  نعرہ ہمیشہ جڑا رہا ہے۔  عالمی وبا کی وجہ سے  اس میلے میں  جو فنکار آتے تھے، جو دستکار ساتھی آتے تھے، وہ نہیں آپائے۔ جب ہم  عزت نفس کی بات کررہے ہیں، خود کفالت کی با ت کررہے ہیں، تو سب سے پہلے  میری ایک اپیل پر  آپ سب میری مدد کیجئے ، میرا کام کریئے۔ وشو بھارتی کے طلبا و طالبات ، پوش میلے میں آنے والے  فنکاروں سے رابطہ کریں ، ان کی مصنوعات کے بارے میں معلومات اکٹھا کریں اور ان فنکاروں کے فن پارے  آن لائن کیسے فروخت ہوسکتے ہیں، سوشل میڈیا کی اس میں کیا مدد لی جاسکتی ہے، اسے دیکھیں۔ اس پر کام کریں۔ اتنا ہی نہیں، مستقبل میں بھی  مقامی آرٹسٹ ، دستکار ، اس طرح سے جو  ساتھی  اپنی مصنوعات  عالمی بازار تک لے جاسکیں، اس کے لئے بھی انہیں سکھائے، ان کے لئے راستہ بنائے، اس طرح کی  بہت سی کوششوں سے ہی ملک خود کفیل بنے گا، ہم گرو دیو کے خوابوں کو پورا کرسکیں گے، آپ کو گرو دیو کا  سب سے اہم   نعرہ بھی یاد  ہی ہے، ’جاندی تو ر ڈاک شنے کیو نہ آشے توبے ایکلا چلے رے‘ کوئی بھی ساتھ نہ آئے، اپنے ہدف کے حصول کے لئے اگر  اکیلے بھی چلنا پڑے تو ضرور چلئے۔

ساتھیو!

 گرو دیو کہتے تھے، کہ بغیر موسیقی اور فن کے  ملک اپنا تشخص کی حقیقی قوت کھو دیتا ہے اور  اس کے شہریوں کا ہنر باہر نہیں آپاتا ہے۔ گرو دیو نے ہماری مالا مال تہذیبی وراثت کے تحفظ،  پرورش  اور  توسیع کو  بہت اہم مانا تھا۔ اگر ہم  اس وقت  کے بنگال کو دیکھیں تو ایک اور عجیب بات نظر آتی ہے، جب ہر طرف آزادی  کی جد وجہد عروج پر تھی، تب بنگال اس جد وجہد کو سمت دینے کے ساتھ ہی  تہذیب کو پرورش دینے والا بن کر کھڑا تھا۔ بنگال میں ہرطرف  تہذیب ، تاریخ، موسیقی  کا احساس بھی  ایک طرح سے آزادی  کی جد وجہد  کو قوت  فراہم کررہا تھا۔

ساتھیو!

 گرو دیو نے دہائیوں پہلے ہی پیش گوئی کی تھی، اور وہ  پیش گوئی کیا تھی، انہوں نے کہا تھا کہ’’اورے نوتن جگیر بھورے، دیش نے شموئے کارئے برتھا، شموئے وچار کورئے، اورے نوتھون جوگیر بھورے، ایشو گیانی ایشو کورمی ناشو بھارو تو- لاج ہے، بیرو گھورمے پنو کورمے بشوے ہردئے راجو ہے‘‘ گرو دیو کے اس پیغام کو  حقیق میں تبدیل کرنے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔

ساتھیو!

گرو دیو نے وشو بھارتی کا قیام  صرف پڑھائی کے ایک مرکز کے طور پر نہیں کیا تھا، وہ اسے سیٹ آف لرننگ، سیکھنے کے ایک مقدس مقام کے طور پر دیکھتے تھے۔ پڑھائی اور سیکھنا، دونوں کے درمیان کا جو بھی فرق ہے، اسے گرو دیو کے صرف ایک جملے سے سمجھا جا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا تھا – مجھے یاد نہیں ہے کہ مجھے کیا پڑھایا گیا تھا، مجھے صرف وہی یاد ہے، جو میں نے سیکھا ہے۔ اسے اور وسعت دیتے ہوئے گرو دیو ٹیگو ر نے کہا تھا – سب سے بڑی تعلیم وہی ہے جو ہمیں نہ صرف  جانکاری دے بلکہ ہمیں سب کے ساتھ جینا سکھائے۔ ان کا پوری دنیا کے لئے یہ پیغام تھا کہ ہمیں علم  کوعلاقوں میں، حدود میں باندھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں نے  یجوروید  کے منتر کو وشوبھارتی کا منتر بتایا ۔  ‘یترا وشوم بھوتیک نی ڈرم  ’ جہاں پوری دنیا  ایک دریا بن جائے ، گھونسلہ بن جا ئے ۔ وہ مقام  جہاں  ہر روز نئی تحقیقات ہوں ، وہ جگہ جہاں سب کو ساتھ مل کر آگے بڑھیں اور جیسا کہ ابھی  ہمارے وزیر تعلیم تفصیل سے بتا رہے تھے۔ ، گرودیو کہا کرتے تھے – ‘چیتو جیتھا بھےشنو ، اچو جیتھا شر ، گیان جیتھا متوص’ یعنی ہمیں ایسا نظام  کھڑا کڑیں  جہاں ہمارے دماغ میں کوئی ڈر نہ ہو ہمارا سر اونچا  ہو ، اور علم بیڑیوں سے پاک ہو۔ آج کا ملک نئی قومی تعلیمی پالیسی کے  ذریعے  اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش  کررہا ہے ۔ اس تعلیم پالیسی کو  عملی جامہ پہنانے میں وشو بھارتی کا بڑا کردار ہے۔ آپ کے پاس 100 سال کا تجربہ ہے ، گہرائی ہے، سمت ہے ، فلسفہ ہے ، اور گرودیو کا آشیر واد تو ہے ہی ۔ جتنا زیادہ تعلیمی اداروں  سے  وشو بھارتی کی  اس بارے میں بات چیت ہو گی ، اتنا ہی دوسرے اداروں کی بھی تفہیم میں اضافہ ہوگا ، انہیں آسانی ہوگی۔

ساتھیو!

جب میں گرودیو کے بارے میں بات کرتا ہوں تو  ایک  کشش سے  خود کو  روک نہیں پاتا۔ پچھلی بار آپ کے یہاں آیا تھا ، تب بھی میں نے اس کا تھوڑا سا ذکر کیا تھا۔ میں پھر سے  گرودیو اور گجرات کی  قربت کو یاد کررہا ہوں ۔اس کو بار بار یاد رکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کیوں کہ یہ ہمیں ایک  بھارت – مضبوط  بھارت کے جذبے سے بھر دیتا ہے۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الگ الگ  زبانوں ،بولی ، کھانا ، لباس  والا  ہمارا ملک ایک دوسرے سے کتنا جڑا ہوا ہے ۔ اس سے  یہ بھی ظاہر ہوتا ہے  کہ کیسے   تنوع سے بھرا ہوا ہمارا ملک ایک ہے  ، ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتا رہا ہے۔

 ساتھیو!

گروددیو کےبڑے بھائی ستیندر ناتھ ٹیگور جب آئی سی ایس میں تھے تو ان کی تقرری گجرات کے احمد آباد میں ہوئی تھی ۔ ربیندر ناتھ ٹیگور اکثر گجرات جاتے تھے  اور وہاں  انہوں نے  وہاں کافی  طویل وقت گزارا تھا۔  انہوں نے احمد آباد میں رہتے ہوئے ہی  اپنی دو مقبول  بنگالی نظمیں ‘بد ی او مار’ اور ‘نیروب رجنی دیکھو’ تخلیق  کی تھیں۔  انہوں نے گجرات میں قیام کے دوران اپنی مشہور تصنیف ‘چھودت پاشان’ کا ایک حصہ بھی لکھا۔ صرف یہی نہیں ، گجرات کی ایک بیٹی ، مسز ہٹیسنگ  بہو کی حیثیت سے گرو دیو کے گھر آئی تھیں۔ اس کے علاوہ ، ایک اور حقیقت ہے جس پر ہماری  خواتین کو بااختیار بنانے سے وابستہ تنظیموں کو  مطالعہ کرنا چاہئے۔ستیندر ناتھ ٹیگور جی  کی اہلیہ گیانندینی دیوی جی جب  احمد آباد میں رہتی تھیں ، تو انہوں نے دیکھا کہ مقامی خواتین اپنی ساڑی کا پلو  دائیں کندھے پر رکھتی ہے۔ جب پلو دائیں کندھے پر ہوتا تھا ، تو خواتین کو کام کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یہ دیکھ کر ، گیانندینی دیوی نے سوچا کہ کیوں نہ ساڑی کا پلو کو بائیں کندھے پر لیا جائے۔ اب میں ٹھیک سے نہیں جانتا لیکن کہتے ہیں کہ بائیں کندھے پر ساڑی کا پلو انہیں کی دین  ہے۔ ایک دوسرے سے سیکھ کر ، ایک دوسرے کے ساتھ خوشی  سے رہتے ہوئے  ، ایک کنبہ کی طرح زندگی گزارنے سے ، ہم ان خوابوں کو تعبیر آشنا کرسکتے ہیں جو ملک کی عظیم شخصیات نے دییںہت تھے ۔ انہیں روایتوں کو ہمیں مل کر مسلسل  مضبوط کرنا  ہے۔

ساتھیو!

آپ جہاں بھی جائیں گے ،جس بھی میدان میں جائیں گے ، آپ کی محنت سے ہی  ایک نیا ہندوستان  کی تعمیر ہوگی ۔ میں گرودویو کی لائنوں سے اپنی بات ختم کروں گا ، گرودیو نے کہا تھا ، اورے گروہو – باشی کھول دار کھول ، لاگ لو جے  دول ، استھولے، جولے ، موبوتولے لاگ لو جے دول ، دار کھول ، دار کھول۔ ملک میں نئے امکانات کے دروازے آپ کے منتظر ہیں۔ آپ سب کامیاب ہوں ، آگے بڑھیں  اور ملک کے خوابوں کو پورا کریں۔ ان نیک خواہشات کے ساتھ ، ایک بار پھر آپ کا بہت بہت شکریہ اور یہ صد سالہ سال ہمارے آگے بڑھنے کے  سفر کے لئے ایک مضبوط سنگ میل کا پتھر بنے ، ہمیں نئی بلندیوں پر لے جائے اور جن خوابوں سے وشوبھارتی نے جنم لیا تھا۔ آئیے ، بھارت کی  فلاح و بہبود کے راستے کے کو مضبوط بناتے ہوئے ان خوابوں کو تعبیر آشنا کریں۔ یہی آپ  سب کے لئے  میری نیک خواہشات ہیں۔

شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

U-8386

م ن۔م م۔ و ا۔ ج ق ۔  ت ع۔ ق ر۔ ر ض