نمسکار! علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر عالی مرتبت سیدنا مفدل سیف الدین صاحب،وزیر تعلیم ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشنک جی، تعلیم کے وزیر مملکت جناب سنجے دھوترے جی، وائس چانسلر طارق منصور جی، سبھی پروفیسر، اسٹاف، اس پروگرام میں جڑے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہزاروں طلبا، طالبات،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لاکھوں فارغ التحصیل افراد،دیگر صاحبان اور ساتھیو۔
سب سے پہلے میں آپ سبھی کے تئیں اظہار تشکر کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب کے اس تاریخی موقع پر مجھے اپنی خوشیوں کے ساتھ جڑنے کا موقع دیا ہے۔ میں تصویروں کو دیکھ رہا تھا، سینچری گیٹ، سوشل سائنس ڈپارٹمنٹ، ماس کمیونی کیشن، تمام شعبوں کی عمارتوں کو خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔ یہ صرف عمارتیں نہیں ہیں، ان کے ساتھ تعلیم کی جو تاریخ وابستہ ہے، وہ بھی بھارت کی بیش بہا اثاث ہے۔
آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم لے کر نکلے لوگ بھارت کے سرکردہ مقامات اور اداروں میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے سینکڑوں ممالک میں چھائے ہوئے ہیں۔ مجھے بیرون ملک کے سفر کے دوران اکثر یہاں کے فارغ التحصیل افراد ملتے ہیں جو بہت فخر سے بتاتے ہیں کہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پڑھا ہوں۔ اے ایم یو کے فارغ التحصیل کیمپس سے اپنے ساتھ ہنسی مذاق اور شعر و شاعری کا ایک الگ انداز لے کر جاتے ہیں۔ وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں، بھارت کی ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
لائق فخر علیگ حضرات، یہی کہتے ہیں نہ آپ لوگ؟پارٹنرس آپ کے اس فخر کی وجہ بھی ہے۔ اپنی سو برس کی تاریخ میں اے ایم یو نے لاکھوں زندگیوں کو تراشا ہے، سنوارا ہے اور ایک جدید اور سائنٹفک اندازِ فکر عطا کیا ہے، معاشرے کے لئے، ملک کے لئے کچھ کرنے کی لگن جگائی ہے، میں سبھی کے نام لوں گا تو وقت بہت کم پڑ جائے گا۔ اے ایم یو کی یہ شناخت اس افتخار کی بنیاد اس کی وہ اقدار ہیں جن پر سرسید احمد خان کے ذریعہ اس ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ایسے ہر ایک طالب علم اور طالبہ اور ان سو برسوں میں اے ایم یو کے توسط سے ملک کی خدمت کرنے والے ہر ایک استاد۔ پروفیسر کا میں خیرمقدم کرتا ہوں۔
ابھی کورونا کی اس آفت کے دوران بھی اے ایم یو نے معاشرے کی مدد کی وہ بے مثال ہے ۔ ہزاروں لوگوں کا مفت ٹیسٹ کروانا، آئیسولیشن وارڈ قائم کرنا، پلازمہ بینک بنوانا، اور پی ایم کیئر فنڈ میں ایک بڑی رقم کا تعاون دینا، معاشرے کے تئیں آپ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سنجیدگی کا مظہر ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی مجھے چانسلر ڈاکٹر سیدنا صاحب کا مراسلہ بھی موصول ہوا ہے۔ انہوں نے ٹیکہ کاری کی مہم میں بھی ہر سطح پر تعاون دینے کی بات کہی ہے۔ ملک کو سب سے اوپر رکھتے ہوئے ایسی ہی منظم کوششوں سے آج بھارت کورونا جیسے عالمی وبائی مرض کا کامیابی سے مقابلہ کر رہا ہے۔
ساتھیو،
مجھے بہت سارے لوگ بولتے ہیں کہ اے ایم یو کیمپس اپنے آپ میں ایک شہر کی طرح ہے۔ متعدد شعبے، درجنوں ہاسٹل، ہزاروں ٹیچر، پروفیسر حضرات، لاکھوں طلبا کے درمیان ایک منی انڈیا بھی نظر آتا ہے۔ اے ایم یو میں بھی ایک طرف اردو پڑھائی جاتی ہے تو ہندی بھی۔ عربی پڑھائی جاتی ہے ، تو یہاں سنسکرت کی تعلیم کا بھی ایک صدی پرانا ادارہ ہے۔ یہاں کے کتب خانے میں قرآن کے مخطوطات ہیں، تو گیتا رامائن کے ترجمے بھی اتنے ہی حفاظت سے رکھے گئے ہیں۔ یہ تنوع اے ایم یو جیسے مقتدر ادارے کی ہی نہیں ملک کی بھی طاقت ہے۔ ہمیں اس طاقت کو نہ فراموش کرنا ہے نہ ہی اسے کمزور پڑنے دینا ہے۔ اے ایم یو کے کیمپس میں ایک بھارت۔ شریشٹھ بھارت کا جذبہ دن بدن مضبوط ہوتا رہے، ہمیں مل کر اس کے لئے کام کرنا ہے۔
ساتھیو،
گذشتہ 100 برسوں میں اے ایم یو نے دنیا کے متعدد ممالک سے بھارت کے تعلقات کو مضبوط کرنے کا بھی کام کیا ہے۔ اردو، عربی اور فارسی زبان پر یہاں جو تحقیق ہوتی ہے، اسلامی ادب پر جو تحقیق ہوتی ہے وہ مکمل اسلامی دنیا کے ساتھ بھارت کے ثقافتی رشتوں کو نئی توانائی فراہم کرتی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ابھی لگ بھگ ایک ہزار غیر ملکی طلبا یہاں پڑھائی کر رہے ہیں۔ ایسے میں اے ایم یو کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ہمارے ملک میں جو اچھا ہے، جو بہترین ہے، جو ملک کی طاقت ہے، وہ دیکھ کر، وہ سیکھ کر، اس کی یادیں لے کر، یہ طلبا جائیں،کیونکہ اے ایم یو میں جو بھی باتیں وہ سنیں گے، دیکھیں گے، اس کی بنیاد پر وہ ملک کے طور پر بھارت کی شناخت سے جوڑیں گے۔اس کے لئے آپ کے ادارے پر ایک طرح سے دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اپنی عزت بڑھانے کی اور اپنی ذمہ داری بخوبی نبھانے کی آپ کو ایک طرف اپنی یونیورسٹی کے سافٹ پاور کو اور نکھارنا ہے، اور دوسری طرف تعمیر قوم کی اپنی ذمہ داری کو لگاتار پورا کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے، اے ایم یو سے وابستہ ہر ایک شخص، ہر ایک طالب علم۔ طالبہ اپنے فرائض کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی آگے بڑھے گا۔ میں آپ کو سرسید کے ذریعہ کہی گئی ایک بات کی یاد دلانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا۔ ’اپنے ملک کی فکر کرنے والے کا پہلا اور سب سے بڑا فرض ہے کہ وہ تمام لوگوں کی بہبود کے لئے کام کرے۔ بھلے ہی، لوگوں کی ذات، نقطہ نظر یا مذہب کچھ بھی ہو۔‘
ساتھیو،
اپنی اس بات کو وسعت دیتے ہوئے سر سید نے ایک مثال بھی پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا۔ ’جس طریقے سے حیات انسانی اور اس کی صحت کے لئے جسم کے ہر عضو کا صحت مند رہنا ضروری ہے، ویسے ہی ملک کی خوشحالی کے لئے بھی اس کی ہر سطح پر نمو ہونا ضروری ہے۔ ‘
ساتھیو،
آج ملک بھی اس راستے پر بڑھ رہا ہے جہاں ہر شہری کو بغیر کسی تفریق ملک میں رونما ہو رہی ترقی کا فائدہ حاصل ہو۔ آج ملک اس راستے پر بڑھ رہا ہے۔ جہاں کا ہر ایک شہری، آئین سے ملے اپنے حقوق کو لے کر مطمئن رہے، اپنےمستقبل کو لے کر مطمئن رہے۔ ملک آج اس راستے پر بڑھ رہا ہے جہاں مذہب کی وجہ سے کوئی پیچھے نہ چھوٹے۔ سبھی کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔ سبھی اپنے خواب پورے کر پائیں۔ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ اس کی اصل بنیاد ہے۔ ملک کی نیت اور پالیسیوں میں یہی عزم جھلکتا ہے۔ آج ملک ناداروں کے لئے جو اسکیمیں وضع کر رہا ہے وہ بنا کسی عقیدہ ۔ مذہب کی تفریق کے ہر طبقے تک پہنچ رہی ہیں ۔
بلا تفریق، 40 کروڑ سے زائد ناداروں کے بینک کھاتے کھلے، بنا کسی تفریق، دو کروڑ سے زائد ناداروں کو پکے مکان فراہم کرائے گئے۔ بنا کسی تفریق آٹھ کروڑ سے زائد خواتین کو گیس کنکشن ملا۔ بنا کسی تفریق کورونا کے اس دور میں 80 کروڑ اہل وطن کو مفت اناج یقینی بنایا گیا۔ بنا کسی تفریق آیوشمان اسکیم کے تحت پچاس کروڑ افراد کو پانچ لاکھ روئپے تک کا مفت علاج ممکن ہوا۔ جو ملک کا ہے وہ ہر باشندے کا ہے۔ اور اس کا فائدہ ہر باشندے کو ملنا چاہئے۔ ہماری حکومت اسی جذبے کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
ساتھیو،
کچھ دنوں قبل میری ملاقات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہی ایک فارغ التحصیل فرد سے ہوئی تھی۔ وہ ایک اسلامک اسکالر بھی ہیں۔ انہوں نے ایک بہت دلچسپ بات مجھے بتائی جو میں آپ سے بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ سووَچھ بھارت مشن کے تحت جب ملک میں دس کروڑ سے زائد بیت الخلاء تعمیر ہوئے تو اس کا فائدہ سبھی کو حاصل ہوا۔ یہ بیت الخلاء بھی بلا تفریق یہ تعمیر ہوئے تھے لیکن اس کا ایک پہلو ایسا ہے جس کا نہ اتنا ذکر ہوا اور نہ ہی تعلیمی دنیا کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی۔ میں چاہتاہوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا بھی ہر ایک طالب علم اس پر غور کرے۔
میرے ساتھیو
ایک وقت تھا جب ملک میں مسلم بیٹیوں کا ڈراپ آؤٹ ریٹ 70 فیصد سے زائد تھا۔ مسلم سماج کی ترقی میں بیٹیوں کا اس طرح پڑھا ئی درمیان میں ترک کرنا ہمیشہ سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ لیکن 70 سال سے ہمارے یہاں یہی صورتحال رہی تھی کہ 70 فیصد سے زیادہ مسلم بیٹیاں اپنی پڑھائی پوری نہیں کر پاتی تھیں۔ انہیں حالات میں سووَچھ بھارت مشن شروع ہوا، گاؤں گاؤں بیت الخلا تعمیر ہوئے۔ حکومت نے اسکول جانے والی طالبات کے لئے مشن موڈ میں الگ سے بیت الخلاء تعمیر کروائے۔ آج ملک کے روبرو کیا صورتحال ہے۔ پہلے مسلم بیٹیوں کا جو اسکول ڈراپ آؤٹ ریٹ 70 فیصد سے زائد تھا، وہ اب گھٹ کر قریب قریب 30 فیصد رہ گیا ہے۔
اس سے قبل مسلم بیٹیاں، بیت الخلاء کے فقدان کی وجہ سے پڑھائی ترک کر دیتی تھیں۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ مسلم بیٹیوں کا ڈراپ ریٹ کم سے کم ہو، اس کے لئے مرکزی حکومت لگاتار کوشاں ہے۔ آپ کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی اسکول ڈراپ آؤٹ طلبا اور طالبات کے لئے برج کورس چلایا جا رہا ہے اور ابھی مجھے ایک اور بات بتائی گئی ہے جو بہت اچھی لگی ہے۔ اے ایم یو میں اب طالبات کی تعداد بڑھ کر 35 فیصد ہوگئی ہے۔ میں آپ سب کو مبارکباد دینا چاہوں گا۔ مسلم بیٹیوں کی تعلیم پر ان کو بااختیار بنانے پر، حکومت کی بہت توجہ ہے۔ گذشتہ چھ سال میں حکومت کی جانب سے قریب قریب ایک کروڑ مسلم بیٹیوں کو وظائف دیے گئے ہیں۔
ساتھیو،
صنف کی بنیاد پر تفریق نہ ہو، سب کو مساوی حقوق حاصل ہوں، ملک کی ترقی کا فائدہ سب کو حاصل ہو، یہ اے ایم یو کے قیام کی ترجیحات میں تھا۔ آج بھی اے ایم یو کے پاس یہ فخر ہے کہ اس کے بانی چانسلر کی ذمہ داری بیگم سلطان نے سنبھالی تھی۔ 100 پہلے کی صورتحال میں یہ کیا جانا، کتنا بڑا کام تھا، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جدید مسلم معاشرے کی تعمیر کی جوکوشش اس وقت شروع ہوئی تھی، تین طلاق جیسی بری روایت کا خاتمہ کرکے ملک نے آج اسے آگے بڑھایا ہے۔
ساتھیو،
پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ اگر ایک خاتون تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو پورا کنبہ تعلیم یافتہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے، لیکن کنبے کی تعلیم کے آگے بھی اس کے عمیق معنی ہیں۔ خواتین کو اس لئے تعلیم یافتہ ہونا ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کا صحیح استعمال کر سکیں، اپنا مستقبل خود طے کر سکیں۔ تعلیم اپنے ساتھ لے کر آتی ہے روزگار اور صنعت کاری، روزگار اور صنعت کاری اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اقتصادی خودکفالت۔اقتصادی خود کفالت سے ہوتی ہے اختیارکاری۔ ایک با اختیار خاتون کا ہر سطح پر، ہر فیصلے میں اتنا ہی برابر کا تعاون ہوتا ہے، جتنا کسی اور کا۔ پھر بات چاہے کنبے کو سمت دینے کی ہو یا پھر ملک کو سمت دینے کی۔ آج جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں تو ملک کے دیگر تعلیمی اداروں سے بھی کہوں گا کہ زیادہ سے زیادہ بیٹیوں کو تعلیم سے مربوط کریں۔ اور انہیں صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم تک لے کر آئیں۔
ساتھیو،
اے ایم یو نے اعلیٰ تعلیم میں اپنے ہم عصر نصاب سے بہت سے لوگوں کو متوجہ کیا ہے۔ آپ کی یونیورسٹی میں بینک شعبہ جاتی مضامین پہلے سے ہی پڑھائی جاتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم سائنس میں اچھا ہے اور اسے تاریخ بھی اچھی لگتی ہے تو ایسی مجبوری کیوں ہو کہ وہ کسی ایک کو ہی منتخب کر سکے۔ یہی جذبہ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں مضمر ہے۔ اس میں 21ویں صدی میں بھارت کے طلبا کی ضروریات ان کی دلچسپیوں کو سب سے زیادہ مدنظر رکھا گیا ہے۔ وہ نئے نئے اسٹارٹ اپس کے توسط سے ملک کی چنوتیوں کا حل نکال رہا ہے۔ منطقی اندازِ فکر اور سائنٹفک نظریہ ہی اس کی اولین ترجیح ہے۔
نئی قومی تعلیمی پالیسی میں بھارت کے نوجوانوں کی اس خواہش کو ترجیح دی گئی ہے۔ ہماری کوشش یہ بھی ہے کہ بھارت کا تعلیمی ایکو نظام، دنیا کے جدید تعلیمی نظام میں سے ایک بنے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں جو کثیر داخلہ ہے، انخلاء پوائنٹس کا انتظام کیا گیا ہے اس سے طلبا کو اپنی تعلیم کے سلسلے میں فیصلے لینے میں آسانی ہوگی۔ ہر انخلاء متبادل کے بعد انہیں معقول سند بھی فراہم کی جائے گی۔ یہ طلبا کو پورے کورس کی فیس کی فکر کیے بغیر اپنا فیصلہ لینے کی آزادی فراہم کرے گی۔
ساتھیو،
حکومت اعلیٰ تعلیم میں اندراجات کی تعداد بڑھانے اور نشستیں بڑھانے کے لئے بھی لگاتار کام کر رہی ہے۔ برس 2014 میں ہمارے ملک میں 16 آئی آئی ٹی ادارے تھے، آج 23 ہیں۔ برس 2014 میں ہمارے ملک میں 9 آئی آئی آئی ٹی ادارے تھے، آج 25 آئی آئی آئی ٹی ادارے ہیں۔ برس 2014 میں یہاں 13 آئی آئی ایم ایس تھے، آج 20 ہیں۔ طبی تعلیم کو لے کر بھی بہت کام کیا گیا ہے۔ چھ سال قبل تک ملک میں صرف ساتھ اے آئی آئی ایم ایس تھے، آج ملک میں 22 اے آئی آئی ایم ایس ہیں۔ تعلیم چاہے آن لائن ہو یا آف لائن، سبھی تک پہنچے، یکساں طور پر پہنچے، سبھی کی زندگی تبدیل ہو، ہم اسی ہدف کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
ساتھیو،
اے ایم یو کے سو سال پورے ہونے پر میری آپ تمام نوجوان شراکت داروں سے کچھ توقعات بھی وابستہ ہیں۔ کیوں نہ سو سال کے اس موقع پر اے ایم یو کے سو ہاسٹلوں کے ذریعہ ایک مابعد نصاب فریضہ انجام دیں۔ یہ ٹاسک ملک کی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے سے مربوط ہوں۔ جیسے اے ایم یو کے پاس اتنا وسیع اختراع اور تحقیق سے مربوط صلاحیت کا خزانہ ہے۔ کیوں نہ ہوسٹلوں کے طالب علم ایسے مجاہدین آزادی پر ریسرچ کرکے ان کی زندگی کو ملک کے روبرو لائیں جن کے بارے میں ابھی اتنی جانکاری نہیں ہے۔ کچھ طلبا ان عظیم شخصیات کے پیدائش کے مقامات تک جائیں۔ ان کا میدان عمل جہاں رہا ہو، جائیں، ان کے کنبے کے لوگ اب کہاں ہیں، ان سے رابطہ قائم کریں، کچھ طلبا آن لائن وسائل کی جستجو کریں۔ مثال کے طور پر 75 ہاسٹل ایک آدی باسی مجاہد آزادی پر ایک تحقیقی دستیاویز تیار کر سکتے ہیں، اسی طرح 25 ہاسٹل خواتین مجاہدین آزادی پر تحقیق کرسکتے ہیں، کام کر سکتے ہیں۔
ایک اور کام ہے جو ملک کے لئے اے ایم یو کے طلبا اور طالبات کر سکتے ہیں۔ اے ایم یو کے پاس ملک کے اتنے بیش بہا قدیم مخطوطات موجود ہیں۔ یہ سب ہمارے ثقافتی اثاثے ہیں۔ میں چاہوں گاکہ آپ تکنالوجی کے توسط سے انہیں ڈجیٹل یا ورچووَل شکل میں پوری دنیا کے سامنے لائیں۔ میں اے ایم یو کے وسیع فارغ التحصیل نیٹ ورک کو بھی مدعو کرتا ہوں کہ نئے ہندوستان کی تعمیر میں اپنی شراکت داری میں اضافہ کریں۔ آتم نربھر بھارت مہم کو کامیاب بنانے کے لئے، مقامی اشیاء کے استعمال پر اصرار کو کامیاب بنانے کے لئے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ اسے لے کر اگر مجھے اے ایم یو سے تجاویز موصول ہوں، اے ایم یو فارغ التحصیل افراد کی تجاویز حاصل ہوں، تو مجھے مسرت ہوگی۔
ساتھیو،
آج پوری دنیا کی نظریں بھارت پر ہیں۔ جس صدی کو بھارت کی صدی بتایا جا رہا ہے، اس ہدف کی جانب بھارت کیسے آگے بڑھ سکتا ہے، اسے لے کر پوری دنیا میں تجسس ہے۔ اس لیے آج سبھی کا واحد اور متحد ہدف یہ ہونا چاہئے کہ بھارت کو آتم نربھر کیسے بنائیں۔ ہم کہاں اور کس کنبے میں پیدا ہوئے، کس عقیدے۔ مذہب میں بڑے ہوئے، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہر ایک شہری کی توقعات اور اس کی کوشش ملک کی توقعات سے کیسے مربوط ہوں۔ جب اس کو لے کر ایک مضبوط بنیاد پڑے گی تو ہدف تک پہنچنا اور آسان ہو جائے گا۔
ساتھیو
سماج میں نظریاتی اختلافات ہوتے ہیں، یہ فطری بھی ہے۔ لیکن جب بات قومی اہداف کے حصول کی ہو تو ہر اختلاف کنارے رکھ دینا چاہئے۔ آج آپ تمام نوجوان ساتھی اس فکر کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو کوئی ایسی کوئی منزل نہیں، جو ہم مل کر کے حاصل نہ کر سکیں۔ تعلیم ہو، اقتصادی ترقی ہو، بہتر رہن سہن ہو، مواقع ہوں، خواتین کا حق ہو، سلامتی ہو، قوم پرستی ہو، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر شہری کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ یہ کچھ ایسے موضوعات ہیں، جن پر ہم اپنی سیاسی یا نظریاتی مجبوریوں کے نام پر اختلاف رائے نہیں کر سکتے۔ یہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ان موضوعات پر بات کرنا میرے لیے اس لیے بھی فطری ہے کیونکہ یہاں سے آزادی کے متعدد مجاہدین نکلے ہیں۔ اس مٹی سے نکلے ہیں۔ ان مجاہدین آزادی کا بھی اپنی کنبہ جاتی، معاشرتی اور نظریاتی پس منظر تھا۔ اپنے نظریات تھے، لیکن جب غلامی سے آزادی کی بات آئی تو سارے نظریات آزادی کے ایک نصب العین کے ساتھ مربوط ہوگئے۔
ساتھیو،
ہمارے اجداد نے جو آزادی کے لئے کیا، وہی کام اب آپ کو، نوجوان پیڑھی کو نئے بھارت کے لئے کرنا ہے۔ جیسے آزادی ایک کامن گراؤنڈ تھی، ویسے ہی نئے بھارت کے لئے ہمیں ایک کامن گراؤنڈ پر کام کرنا ہے۔ نیا بھارت، خود کفیل ہوگا، ہر طرح سے خوشحال ہوگا تو فائدہ بھی تمام 130 کروڑ سے زائد اہل وطن کو حاصل ہوگا۔ یہ نظریہ معاشرے کے ہر حصے تک پہنچے، یہ کام آپ کر سکتے ہیں، نوجوان ساتھی کر سکتے ہیں۔
ساتھیو،
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاست، معاشرے کا ایک اہم حصہ ہے۔ لیکن معاشرے میں سیاست کے علاوہ بھی دوسرے مسئلے ہیں۔ سیاست اور اقتدار کی فکر سے بہت بڑا، بہت وسیع، کسی بھی ملک کا معاشرہ ہوتا ہے۔ سیاست سے اوپر بھی معاشرے کو آگے بڑھانے کے لئے بھی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ اس گنجائش کو بھی تلاش کرتے رہنا بہت ضروری ہے۔ یہ کام ہمارے اے ایم یو جیسے کیمپس کر سکتے ہیں۔ آپ سبھی کر سکتے ہیں۔
ساتھیو،
نیو انڈیا کے ویزن کی جب ہم بات کرتے ہیں تو اس کی بنیاد میں بھی یہی ہے کہ ملک کی، معاشرے کی ترقی کو سیاسی عینک سے نہ دیکھا جائے۔ ہاں، جب ہم اس بڑے مقصد کے لئے ساتھ آتے ہیں تو ممکن ہے کہ کچھ عناصر اس سے پریشان ہوں۔ ایسے عناصر دنیا کے ہر معاشرے میں مل جائیں گے۔ یہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہر ہتھ کنڈا اپنائیں گے، ہر طرح کے منفی ماحول کو فروغ دیں گے۔ لیکن جب ہمارے دل اور دماغ میں نئے بھارت کی تعمیر ہماری سب سے بڑی ترجیح ہوگی تو ایسے لوگوں کی گنجائش اپنے آپ سکڑتی جائے گی۔
ساتھیو،
پالیٹکس انتظار کر سکتی ہے، معاشرہ انتظار نہیں کر سکتا۔ ملک کی ترقی انتظار نہیں کر سکتی۔ نادار، معاشرے کے کسی بھی طبقے کا ہو، وہ انتظار نہیں کر سکتا۔ خواتین، محروم، مظلوم، استحصال کے شکار، ترقی کا انتظار نہیں کر سکتے۔ سب سے بڑی بات ہمارے نوجوان، آپ سبھی، اور انتظار نہیں کرنا چاہیں گے۔ گذشتہ صدی میں اختلافات کے نام پر بہت وقت پہلے ہی ضائع ہو چکا ہے۔ اب وقت نہیں گنوانا ہے۔ سبھی کو ایک ہدف کے ساتھ مل کر نیا بھارت، خود کفیل بھارت بنانا ہے۔
ساتھیو،
سو سال پہلے 1920 میں جو نوجوان تھے، انہیں ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے کا، خود کو وقف کرنے کا، قربانی دینے کا موقع حاصل ہوا تھا۔ اس پیڑھی کے مجاہدے اور ایثار سے ملک کو 1947 میں آزادی ملی تھی۔ آپ کے پاس، آج کی پیڑھی کے پاس آتم نربھر بھارت، نئے بھارت کے ہدف کو پورا کرنے کے لئے بہت کچھ کرنے کا موقع دستیاب ہے۔ وہ دور تھا 1920 کا، یہ دور ہے 2020 کا۔ 1920 کے 27 برس بعد ملک آزاد ہوا تھا۔ 2020 کے 27 برس بعد، جو کہ 2020 سے 2047، آ پ کی زندگی کے بہت اہم سال ہیں۔
برس 2047 میں جب بھارت اپنی آزادی کے سو برس پورے کرے گا، آپ اس تاریخی وقت کے بھی شاہد ہوں گے۔ اتنا ہی نہیں، ان 27 برسوں میں جدید بھارت بنانے کے آپ حصہ دار ہوں گے۔ آپ کو ہر پل ملک کے لئے سوچنا ہے، اپنے ہر فیصلے میں ملک کے مفاد کے بارے میں سوچنا ہے، آپ کا ہر فیصلہ ملک کے مفاد کو بنیاد بناتے ہوئے ہی ہونا چاہئے۔
مجھے یقین ہے، ہم سب ساتھ مل کر آتم نربھر بھارت کے خوابوں کو پورا کریں گے، ہم سب مل کر ملک کو ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچائیں گے۔ آپ سبھی کو اے ایم یو کے سو برس مکمل ہونے پر ایک مرتبہ پھر بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور ان 100 برسوں میں جن جن عظیم شخصیات نے اس ادارے کے وقار کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لئے مسلسل کوشش کی ہے آج ان کو بھی یاد کرتا ہوں، ان سب کا احترام کرتا ہوں۔ اور پھر ایک بار آج کے اس مقدس موقع پر مستقبل کے لئے بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ دنیا بھر میں پھیلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل افراد کو بھی میں اعلیٰ صحت کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، ان کے اعلیٰ مستقبل کے لئے بھی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور اے ایم یو کے بھی اعلیٰ مستقبل کے لئے بہت بہت نیک خواہشات کے ساتھ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ حکومت آپ کی ترقی کے لئے، آپ کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے، ہم بھی کبھی پیچھے نہیں رہیں گے۔
اسی ایک یقین کے ساتھ آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔
*******
م ن۔ا ب ن
U-8316
Speaking at the Aligarh Muslim University. Watch. https://t.co/sNUWDAUHIH
— Narendra Modi (@narendramodi) December 22, 2020
अभी कोरोना के इस संकट के दौरान भी AMU ने जिस तरह समाज की मदद की, वो अभूतपूर्व है।
— PMO India (@PMOIndia) December 22, 2020
हजारों लोगों का मुफ्त टेस्ट करवाना, आइसोलेशन वार्ड बनाना, प्लाज्मा बैंक बनाना और पीएम केयर फंड में बड़ी राशि का योगदान देना, समाज के प्रति आपके दायित्वों को पूरा करने की गंभीरता को दिखाता है: PM
बीते 100 वर्षों में AMU ने दुनिया के कई देशों से भारत के संबंधों को सशक्त करने का भी काम किया है।
— PMO India (@PMOIndia) December 22, 2020
उर्दू, अरबी और फारसी भाषा पर यहाँ जो रिसर्च होती है, इस्लामिक साहित्य पर जो रिसर्च होती है, वो समूचे इस्लामिक वर्ल्ड के साथ भारत के सांस्कृतिक रिश्तों को नई ऊर्जा देती है: PM
आज देश जो योजनाएँ बना रहा है वो बिना किसी मत मजहब के भेद के हर वर्ग तक पहुँच रही हैं।
— PMO India (@PMOIndia) December 22, 2020
बिना किसी भेदभाव, 40 करोड़ से ज्यादा गरीबों के बैंक खाते खुले।
बिना किसी भेदभाव, 2 करोड़ से ज्यादा गरीबों को पक्के घर दिए गए।
बिना किसी भेदभाव 8 करोड़ से ज्यादा महिलाओं को गैस मिला: PM
बिना किसी भेदभाव आयुष्मान योजना के तहत 50 करोड़ लोगों को 5 लाख रुपए तक का मुफ्त इलाज संभव हुआ।
— PMO India (@PMOIndia) December 22, 2020
जो देश का है वो हर देशवासी का है और इसका लाभ हर देशवासी को मिलना ही चाहिए, हमारी सरकार इसी भावना के साथ काम कर रही है: PM
सरकार higher education में number of enrollments बढ़ाने और सीटें बढ़ाने के लिए भी लगातार काम कर रही है।
— PMO India (@PMOIndia) December 22, 2020
वर्ष 2014 में हमारे देश में 16 IITs थीं। आज 23 IITs हैं।
वर्ष 2014 में हमारे देश में 9 IIITs थीं। आज 25 IIITs हैं।
वर्ष 2014 में हमारे यहां 13 IIMs थे। आज 20 IIMs हैं: PM
Medical education को लेकर भी बहुत काम किया गया है।
— PMO India (@PMOIndia) December 22, 2020
6 साल पहले तक देश में सिर्फ 7 एम्स थे। आज देश में 22 एम्स हैं।
शिक्षा चाहे Online हो या फिर Offline, सभी तक पहुंचे, बराबरी से पहुंचे, सभी का जीवन बदले, हम इसी लक्ष्य के साथ काम कर रहे हैं: PM
बीते 100 वर्षों में AMU ने कई देशों से भारत के संबंधों को सशक्त करने का काम किया है।
— Narendra Modi (@narendramodi) December 22, 2020
इस संस्थान पर दोहरी जिम्मेदारी है - अपनी Respect बढ़ाने की और Responsibility निभाने की।
मुझे विश्वास है कि AMU से जुड़ा प्रत्येक व्यक्ति अपने कर्तव्यों को ध्यान में रखते हुए आगे बढ़ेगा। pic.twitter.com/LtA5AiPZCk
महिलाओं को शिक्षित इसलिए होना है ताकि वे अपना भविष्य खुद तय कर सकें।
— Narendra Modi (@narendramodi) December 22, 2020
Education अपने साथ लेकर आती है- Employment और Entrepreneurship.
Employment और Entrepreneurship अपने साथ लेकर आते हैं- Economic Independence.
Economic Independence से होता है- Empowerment. pic.twitter.com/PLbUio9jqs
हमारा युवा Nation First के आह्वान के साथ देश को आगे बढ़ाने के लिए प्रतिबद्ध है।
— Narendra Modi (@narendramodi) December 22, 2020
वह नए-नए स्टार्ट-अप्स के जरिए चुनौतियों का समाधान निकाल रहा है।
Rational Thinking और Scientific Outlook उसकी Priority है।
नई शिक्षा नीति में युवाओं की इन्हीं Aspirations को प्राथमिकता दी गई है। pic.twitter.com/JHr0lqyF90
AMU के सौ साल पूरा होने पर सभी युवा ‘पार्टनर्स’ से मेरी कुछ और अपेक्षाएं हैं... pic.twitter.com/qYGQTU3R3t
— Narendra Modi (@narendramodi) December 22, 2020
समाज में वैचारिक मतभेद होते हैं, यह स्वाभाविक है।
— Narendra Modi (@narendramodi) December 22, 2020
लेकिन जब बात राष्ट्रीय लक्ष्यों की प्राप्ति की हो तो हर मतभेद किनारे रख देना चाहिए।
नया भारत आत्मनिर्भर होगा, हर प्रकार से संपन्न होगा तो लाभ भी 130 करोड़ से ज्यादा देशवासियों का होगा। pic.twitter.com/esAsh9DTHv
सियासत और सत्ता की सोच से बहुत बड़ा, बहुत व्यापक किसी भी देश का समाज होता है।
— Narendra Modi (@narendramodi) December 22, 2020
पॉलिटिक्स से ऊपर भी समाज को आगे बढ़ाने के लिए बहुत Space होता है, जिसे Explore करते रहना बहुत जरूरी है। pic.twitter.com/iNSWFcpRxS