Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

‘من کی بات’ پروگرام کی 51ویں قسط میں وزیراعظم کی تقریر کا متن


نئی دہلی،30/دسمبر        میرے پیارے ہم وطنو،  نمسکار! سال 2018 ختم ہونے والا ہے۔ ہم 2019 میں داخل ہونے والے ہیں۔  قدرتی طور پر ایسے وقت میں، گذرے سال کی باتیں  بحثیں ہوتی ہیں، تو آنے والے سال کے عزائم کا بھی ذکر سنائی دیتا ہے۔ چاہے کسی شخص کی زندگی ہو، معاشرے کی زندگی ہو، قوم کی زندگی ہو، ہر کسی کو پیچھے مڑکر دیکھنا بھی ہوتا ہے۔ اور آگے کی طرف جتنا دور تک دیکھ سکیں، دیکھنے کی کوشش بھی کرنی ہوتی ہے۔ اور تبھی تجربات کا فائدہ بھی ملتا ہے۔ اور نیا کرنے کی خوداعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔ ہم ایسا کیا کریں جس سے اپنی زندگی میں تبدیلی لاسکیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ ملک اور معاشرے کو آگے بڑھانے میں اپنا تعاون دے سکیں۔ آپ سب کو 2019 کی بہت بہت مبارکباد۔ آپ سبھی نے سوچا ہوگا کہ 2018 کو کیسے یاد رکھا جائے ۔ 2018 کو ہندوستان ایک ملک کے روپ میں، اپنے 130 کروڑ عوام کی اہلیت کی شکل میں کیسے یاد رکھے گا۔ یہ یاد کرنا بھی اہم ہے۔ ہم سب کو شان سے بھر دینے والا ہے۔

سال 2018 میں، دنیا کی سب سے بڑی صحت بیمہ اسکیم، ‘آیوشمان بھارت’ کی شروعات ہوئی۔ ملک کے ہر گاؤں تک بجلی پہنچ گئی۔ دنیا کے باوقار اداروں نے مانا ہے کہ ہندوستان ریکارڈ رفتار کے ساتھ، ملک کو غریبی سے نجات دلا رہا ہے۔  ہم وطنوں کے  عزم مصمم سے صفائی کا کوریج بڑھ کر کے 95 فیصد کو پار کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔

آزادی کے بعد لال قلعہ سے پہلی بار آزاد ہند حکومت کی 75ویں سالگرہ پر ترنگا پہرایا گیا۔ ملک کو یکجہتی کے دھاگے میں پرونے والے، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے اعزاز میں دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ‘اسٹیچو آف یونیٹی’ ملک کو ملا۔ دنیا میں ملک کا نام اونچا ہوا۔ ملک کو اقوام متحدہ کا سب سے بڑا ماحولیات کا انعام ‘چمپئنز آف دی ارتھ’ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شمسی توانائی اور آب ہوا کی تبدیلی میں ہندوستان کی کوششوں کو دنیا میں مقام ملا۔ ہندوستان میں، بین الاقوامی شمسی اتحاد کی پہلی بڑی میٹنگ ‘انٹرنیشنل سولر الائنس’ کا انعقاد ہوا۔ ہماری مجموعی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک کی کاروبار کرنے میں آسانی کی درجہ بندی میں  لاثانی بہتری آئی ہے۔ ملک کے دفاع کو نئی مضبوطی ملی ہے۔ اسی سال ہمارے ملک نے کامیابی کے ساتھ نیوکلیئر ٹرائیڈ کو پورا کیا ہے، یعنی اب ہم پانی، خشکی اور آسمان تینوں میں نیوکلیائی طاقت والے ہوگئے ہیں۔ ملک کی بیٹیوں نے ناویکا ساگر پریکرما کے ذریعے پوری دنیا کی سیر کرکے ملک کو فخر سے بھر دیا ہے۔ وارانسی میں ہندوستان کے پہلے آبی راستے کا آغاز ہوا۔ اس سے واٹرویز کے شعبے میں نئے انقلاب کا آغاز ہوا ہے۔ ملک کے سب سے لمبے ریل روڈ پل بوگی بیل برج کو قوم کے نام وقف کیا گیا۔ سکم کے پہلے اور ملک کے سوویں ایئرپورٹ –پاکیونگ کی شروعات ہوئی۔ انڈر-19 کرکٹ عالمی کپ اور بلائنڈ کرکٹ عالمی کپ میں ہندوستان نے جیت درج کرائی۔ اس بار ایشیائی کھیلوں میں ہندوستان نے بڑی تعداد میں میڈل جیتے۔ پیرا ایشین کھیلوں میں بھی ہندوستان نے کافی اچھا  مظاہرہ کیا ہے۔ ویسے اگر میں ہر ہندوستانی کی کوششوں کی اور اپنی اجتماعی کوششوں کی بات کرتا رہوں تو ہمارا ‘من کی بات’ اتنی دیر چلے گا کہ شاید 2019 ہی آجائے گا۔ یہ سب 130 کروڑ ہم وطنوں کی انتھک کوششوں سے  ممکن ہوسکا ہے۔ مجھے امید ہے کہ 2019 میں بھی ہندوستان کی ترقی کا یہ سفر یوں ہی جاری رہے گا اور ہمارا ملک اور مضبوطی کے ساتھ نئی اونچائی پر پہنچے گا۔

میرے پیارے ہم وطنو، اس دسمبر میں ہم نے کچھ غیر معمولی ہم وطنوں کو کھو دیا ہے۔ 19 دسمبر کو چینئی کے ڈاکٹر جیاچندرن کا انتقال ہوگیا۔ ڈاکٹر جیا چندرن کو پیار سے لوگ ‘مکّل ماروتھوور’ کہتے تھےکیونکہ وہ عوام کے دلوں میں بستے تھے۔ ڈاکٹر جیاچندرن غریبوں کو سستے سے سستا علاج مہیا کرانے کے لیے جانے جاتے تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ مریضوں کے علاج کے لیے ہمیشہ ہی تیار رہتے تھے۔ اپنے پاس علاج کے لیے آنے والے بزرگ مریضوں کو وہ آنے جانے کا کرایہ تک دے دیتے تھے۔ میں نےویب سائٹ thebetterindia.com میں معاشرے کو تحریک دینے والے ان کے ایسے بہت سے کاموں کے بارے میں پڑھا ہے۔

اسی طرح 25 دسمبر کو کرناٹک کی سلاگٹی نرسمّا کے انتقال کی اطلاع ملی۔ سلاگٹی نرسمّا حاملہ ماؤں بہنوں کو زچگی میں مدد کرنے والی معاون تھیں۔ انھوں نے کرناٹک میں خاص طور پر، وہاں کے  دور دراز کے علاقوں میں ہزاروں ماؤں بہنوں کو اپنی خدمات دیں۔ اس سال کے آغاز میں انھیں پدم شری اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ ڈاکٹر جیا چندرن اور سلاگٹی نرسمّا جیسی کئی تحریک دینے والی  شخصیات ہیں، جنھوں نے معاشرے میں سب کی بھلائی کے لیے اپنی زندگی لگادی۔ جب ہم صحت دیکھ ریکھ کی بات کر رہے ہیں تو میں یہاں اترپردیش کے بجنور میں ڈاکٹروں کی سماجی کوششوں کے بارے میں بھی ذکر کرنا چاہوں گا۔ گذشتہ دنوں ہماری پارٹی کے کچھ کارکنوں نے مجھے بتایا کہ شہر کے کچھ نوجوان ڈاکٹر کیمپ لگا کر غریبوں کا مفت علاج کرتے ہیں۔ یہاں کے ‘ہارٹ لنگس کریٹکل سینٹر’ کی جانب سے ہر مہینے ایسے طبی کیمپ لگائے جاتے ہیں جہاں کئی طرح کی بیماریوں کی مفت جانچ اور علاج کا انتظام ہوتا ہے۔ آج ہر مہینے سیکڑوں غریب مریض اس کیمپ سے استفادہ کر رہے ہیں۔ بے لوث خدمت کے جذبے سے خدمت کرنے والے ان ڈاکٹروں ، دوستوں کا حوصلہ سچ مچ قابل تعریف ہے۔ آج میں یہ بات بہت ہی فخر کے ساتھ بتا رہا ہوں کہ اجتماعی کوششوں کے چلتے ہی ‘سوچھ بھارت مشن’ ایک کامیاب مہم بن گئی ہے۔ مجھے کچھ لوگوں نے بتایا کہ کچھ روز قبل مدھیہ پردیش کے جبل پور میں ایک ساتھ تین لاکھ سے زیادہ لوگ صفائی ابھیان میں لگے۔ سوچھتا کے لیے بڑے پیمانے پر کی جانے والی اس کوشش میں نگرنگم،رضاکار تنظیم، اسکول-کالج کے طلبا، جبل پور کے عوام، سبھی لوگوں نے بڑھ چڑھ کرکے حصہ لیا۔ میں نے ابھی thebetterindia.com کا ذکر کیا تھا جہاں مجھے ڈاکٹر جیا چندرن کے بارے میں پڑھنے کو ملا اور جب موقع ملتا ہے تو میں ضرور thebetterindia.com ویب سائٹ پر جاکرکے ایسے محرک واقعات  کی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کل ایسی کئی ویب سائٹ ہیں جو ایسی غیرمعمولی شخصیتوں کی زندگی سے تحریک دینے والی کئی کہانیوں سے ہمیں متعارف کرا رہی ہیں۔ جیسے thepositiveindia.com معاشرے میں مثبت رویہ پھیلانے اور معاشرے کو زیادہ حساس بنانے کا کام کر رہی ہے۔ اسی طرح yourstory.com اس پر نوجوان موجدوں اور صنعتکاروں کی کامیابی کی کہانی کو بخوبی بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح samskritabharati.in  کے ذریعے سے آپ گھر بیٹھے آسان طریقے سے سنسکرت زبان سیکھ سکتے ہیں۔ کیا ہم ایک کام کرسکتے ہیں۔ ایسی ویب سائٹ کے بارے میں آپس میں شیئر کریں، مثبت رویے کو مل کر وائرل کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ لوگ معاشرے میں تبدیلی لانے والے ہمارے نایکوں کے بارے میں جان پائیں گے۔ منفی رویہ پھیلانا کافی آسان ہوتا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں، ہمارے آس پاس بہت کچھ اچھے کام ہو رہے ہیں اور یہ سب 130 کروڑ ہندوستانیوں کی کوششوں سے ہو رہا ہے۔

ہرمعاشرے میں کھیل کود کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ جب کھیل کھیلے جاتے ہیں تو دیکھنے والوں کا من بھی توانائی سے بھر جاتا ہے۔ کھلاڑیوں کو نام، پہچان، اعزاز، بہت سی چیزیں ہم محسوس کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی اس کے پیچھے بھی بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کھیل کی دنیا سے بھی بہت بڑھ کرکے ہوتی ہیں، بہت بڑی ہوتی ہیں۔ میں کشمیر کی ایک بیٹی حنایا نثار کے  بارے بتانا چاہتا ہوں جس نے  کوریا میں کراٹے چمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ حنایا 12 سال کی ہے اور کشمیر کے اننت ناگ میں رہتی ہے۔ حنایا نے محنت اور لگن سے کراٹے کی مشق کی۔ اس کی باریکیوں کو سمجھا اور خود کو ثابت کرکے دکھایا۔ میں سبھی ہم وطنو کی جانب سے اس کے روشن مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ حنایا کو بہت بہت مبارک باد اور آشیرواد۔ ویسے ہی 16 سال کی ایک بیٹی رجنی کے بارے میں میڈیا کے بارے میں بہت چرچا ہوئی ہے۔ آپ نے بھی ضرور پڑھا ہوگا۔ رجنی نے جونیئر خواتین باکسنگ چمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیتا ہے جیسے ہی رجنی نے میڈل جیتا، فوراً پاس کے ایک دودھ کے اسٹال پر گئی اور ایک گلاس دودھ پیا۔ اس کے بعد، رجنی نے اپنے میڈل کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور بیگ میں رکھ لیا ۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ رجنی نے ایک گلاس دودھ کیوں پیا؟ اس نے ایسا اپنے والد جسمیر سنگھ جی کے اعزاز میں کیا۔ جو پانی پت کے ایک اسٹال میں لسی بیچتے ہیں۔ رجنی نے بتایا کہ ان کے والد نے اسے یہاں تک پہنچانے میں بہت قربانی دی ہے۔ بہت پریشانیاں برداشت کی ہیں۔ جسمیر سنگھ ہر صبح رجنی اور ان بھائی بہنوں کے اٹھنے سے پہلے ہی کام پر چلے جاتے تھے۔ رجنی نے جب اپنے والد سے باکسنگ سیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو والد نے اس سے تمام ممکنہ وسائل اکٹھا کرکے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ رجنی کو باکسنگ کی مشق پرانے دستانوں کے ساتھ شروع کرنی پڑی کیونکہ  اس زمانے میں ان کے خاندان کی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ اتنی ساری رکاوٹوں کے بعد بھی رجنی نے ہمت نہیں ہاری۔ اور باکسنگ سیکھتی رہی اس نے سربیا میں بھی ایک میڈل جیتا ہے۔ میں رجنی کو نیک خواہشات اور مبارکباد دیتا ہوں۔ اور رجنی کا ساتھ دینے اور اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اس کے والدین جسمیر سنگھ جی اور اوشا رانی سنگھ جی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اسی مہینے پنے کی ایک 20 سال کی بیٹی ویدانگی کُلکرنی سائیکل سے دنیا کا چکر لگانے والی سب سے تیز ایشیائی بن گئی ہیں۔ وہ 159 دنوں تک روزانہ لگ بھگ 300 کلو میٹر سائیکل چلاتی تھیں۔ آپ تصور کرسکتے ہیں روزانہ 300 کلو میٹر سائیکلنگ ! سائیکل چلانے کا ان کا جنون واقعی قابل تعریف ہے۔ کیا اس طرح کی حصولیابی ایسی سدھی کے بارے میں سن کر ہمیں ترغیب نہیں ملتی۔ خاص طور سے میرے نوجوان دوستو، جب ایسے واقعات کے بارے میں سنتے ہیں تب ہم بھی مشکلات کے درمیان کچھ کر گزرنے کی تحریک پاتے ہیں۔ اگر عزم میں پختگی ہے ، حوصلے بلند ہیں تو رکاوٹیں خود ہی رک جاتی ہیں۔ مشکلات کبھی رکاوٹ نہیں بن سکتی ہیں۔ بہت سی ایسی مثالیں جب سنتے ہیں تو ہمیں بھی اپنی زندگی میں ہر پل ایک نئی تحریک ملتی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو! جنوری میں امنگ اور جوش سے بھرے ہوئے کئی تہوار آنے والے ہیں۔ جیسے لوہڑی، پونگل، مکرسنکرانتی، اتراین، ماگھ بیہو، ماگھی، ان سب تہواروں کے موقع پر پورے ہندوستان میں کئی روایتی رقص کا رنگ دکھے گا تو کہیں فصل تیار ہونے کی خوشی میں لوہڑی جلائی جائے گی، کہیں پر آسمان پر رنگ برنگی پتنگیں دکھائی دیں گی تو کہیں میلے کی رونق نظر آئے گی، تو کہیں کھیلوں میں ہوڑ لگے گی، تو کہیں ایک دوسرے کو تل گڑ کھلایا جائے گا۔ لوگ ایک دوسرے کو کہیں کہ گے ‘‘تل گڑ گھیا-آنی گوڑ-گوڑ بولا’’۔ ان سبھی تہواروں کے نام بھلے ہی الگ الگ ہیں لیکن سب کو منانے کا جذبہ ایک ہے۔ یہ تہوار کہیں نہ کہیں فصل اور کھیتی باڑی سے جڑے ہوئے ہیں، کسان سے جڑے ہوئے، گاؤں سے جڑے ہوئے ہیں، کھیل کھلیان سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی دوران سورج اترائن ہوکر مکرراشی میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسی کے بعد سے دن آہستہ آہستہ بڑے ہونے لگتے ہیں۔ اور سردیوں کی فصلوں کی کٹائی بھی شروع ہوجاتی ہے۔ ہمارے  لیے رزق فراہم کرانے والے کسان بھائی بہنوں کو بھی بہت بہت مبارکباد۔‘‘گوناگونیت میں یکجہتی’’- ‘‘ایک بھارت شریشٹھ بھارت’’ کے جذبے کی مہک ہمارے تہوار اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے پرو، تہوار قدرت سے کتنی نزدیکی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہندستانی ثقافت میں سماج اور قدرت کو الگ الگ نہیں مانا جاتا۔ یہاں شخص اور اجتماعیت ایک ہی ہیں۔ قدرت کے ساتھ ہمارے قریبی تعلق کی ایک اچھی مثال ہے۔ تہواروں پر مبنی کلینڈر۔ اس میں سال بھر کے پرو، تہواروں کے ساتھ ہی  سیاروں نچھتروں کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ اس روایتی کلینڈر سے پتا چلتا ہے کہ قدرت اور خلائی واقعات کے ساتھ ہمارا تعلق کتنا پرانا ہے۔ چاند اور سورج کی رفتار پر مبنی چاند اور سورج کلینڈر کے مطابق پرواور تہواروں کی تاریخ متعین ہوتی ہے۔ یہ اسی پر منحصر ہے کہ قوم کس کلینڈر کو مانتی ہے۔ کئی علاقوں میں یہ سیاروں، نچھتروں کی حالت کے مطابق بھی پرو، تہوار منائے جاتے ہیں۔ گڑی پڑوا، چیٹی چنڈ، اگادی یہ سب جہاں چاند کے کلینڈر کے مطابق منائے جاتے ہیں وہیں تمل پتھانڈو، وشو، ویشاکھ، بیساکھی، پوئلہ بیساکھ، بیہو یہ سب پرور سورج کے کلینڈر کی بنیاد پر منائے جاتے ہیں۔ ہمارے کئی تہواروں میں ندیوں اور پانی کو بچانے کا جذبہ خصوصی طور پر شامل ہے۔ چھٹھ پرو- ندیوں، تالابوں میں سورج کی اپاسنا سے جڑا ہوا ہے۔ مکر سنکرانتی پر بھی لاکھوں کروڑوں لوگ پاکیزہ ندیوں میں ڈبکی لگاتے ہیں۔ہمارے پرو، تہوار ہمیں سماجی اقدار کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ ایک طرف جہاں  ان کی دیومالائی اہمیت ہے، وہیں ہر تہوار زندگی کے سبق ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے سے رہنے کی تحریک بڑی آسانی سے سکھا جاتے ہیں۔ میں آپ سبھی کو 2019 کی بہت بہت نیک خواہشات دیتا ہوں اور آنے والے تہواروں کا آپ بھرپور مزہ اٹھائیں اس کی دعا کرتا ہوں۔ ان تہواروں پر لی گئی فوٹو کو سب کے ساتھ شیئر کریں تاکہ ہندوستان کی گوناگونیت اور ہندوستانی ثقافت کی خوبصورتی کو ہر کوئی دیکھ سکے۔

میرے پیارے ہم وطنو! ہماری ثقافت میں ایسی چیزوں کی بھرمار ہے جن پر ہم فخر کرسکتے ہیں۔ اور پوری دنیا کو شان  کے ساتھ دکھا سکتے ہیں اور ان میں ایک ہے کنبھ میلہ۔ آپ نے کنبھ کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوگا، فلموں میں بھی  اس کی شان  اور عظمت کے بارے میں کافی کچھ دیکھا ہوگا اور یہ سچ بھی ہے کہ  کنبھ کا میلہ بہت وسیع ہوتا ہے جتنا عظیم اتنا ہی شاندار۔ ملک اور دنیا بھر کے لوگ آتے ہیں اور کنبھ سے جڑ جاتے ہیں۔ کنبھ میلے میں عقیدت اور اعتقاد کا  ایک سیلاب امنڈتا ہے۔ ایک ساتھ ایک جگہ پر ملک اور بیرون ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگ جڑتے ہیں۔ کنبھ کی روایت ہماری عظیم ثقافتی وراثت سے  پھلی پھولی ہے۔ اس بار 15 جنوری سے پریاگ راج میں منعقد ہونے جارہا عالمی شہرت یافتہ کنبھ میلہ جس کا شاید آپ سب بھی بے  چینی سے انتظار کر رہے ہوں گے۔ کنبھ میلے کے لیے ابھی سے سنت مہاتماؤوں کے پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس کی عالمی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگ جاتا ہے کہ پچھلے سال یونیسکو نے کنبھ میلے کو  انسانیت کی غیر محسوس ثقافتی وراثت کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ کچھ روز پہلے کئی ملکوں کے سفیروں نے کنبھ کی تیاری کو دیکھا۔ وہاں پر ایک ساتھ کئی ملکوں کے قومی پرچم لہرائے گئے۔ پریاگ راج میں منعقد ہو رہے اس کنبھ کے میلے میں 150 سے بھی زیادہ ملکوں کے لوگوں کے آنے کا امکان ہے۔ کنبھ کی عظمت سے ہندوستان کی شان پوری دنیا میں اپنا رنگ بکھیرے گی۔ کنبھ میلہ  اپنی خود کی کھوج کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔ جہاں آنے والے ہر شخص کو الگ الگ احساس ہوتا ہے۔ دنیاوی چیزوں کو روحانی نظریے سے دیکھتے سمجھتے ہیں۔ خاص طور سے نوجوانوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا سیکھنے کا تجربہ ہوسکتا ہے۔ میں خود کچھ دن پہلے پریاگ راج گیا تھا، میں نے دیکھا کہ کنبھ کی تیاری زور شور سے چل رہی ہے۔ پریاگ راج کے لوگ بھی کنبھ کو لے کر کافی جوش میں ہیں۔ وہاں میں نے انٹیگریٹیڈ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کو قوم کے نام وقف کیا۔ عقیدت مندوں کو اس سے کافی مدد ملے گی۔ اس بار کنبھ میں صفائی ستھرائی پر بھی کافی زور دیا جارہا ہے۔ انعقاد میں عقیدت کے ساتھ ساتھ صفائی بھی رہے گی تو دور دور تک اس کا اچھا پیغام پہنچے گا۔ اس بار ہر عقیدت مند سنگم میں پوتر اسنان کے بعد اکشے وٹ  کے مبارک درشن بھی کرسکے گا۔ لوگوں کی عقیدت کی علامت یہ اکشے وٹ سیکڑوں برسوں سے قلعے میں بند تھا جس سے عقیدت مند چاہ کر بھی اس کے درشن نہیں کرپاتے تھے۔ اب اکشےوٹ کا دروازہ سب کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ میرا آپ سب سے اصرار ہے کہ جب آپ کنبھ جائیں تو کنبھ کے الگ الگ پہلو اور تصویریں سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کنبھ میں جانے کی ترغیب ملے۔

روحانیت کا یہ کنبھ ہندوستانی فلسفے کا مہا کنبھ بنے۔

عقیدت کا یہ کنبھ قومیت کا بھی مہا کنبھ بنے۔

قومی یکجہتی کا بھی مہاکنبھ بنے۔

عقیدت مندوں کا یہ کنبھ عالمی سیاحوں کا بھی مہاکنبھ بنے۔

فنکاری کا یہ کنبھ تخلیقی طاقتوں کا بھی مہاکنبھ بنے۔

میرے پیارے ہم وطنو! 26 جنوری کے  یوم جمہوریہ کی تقریب کو لے کر ہم ملک کے باشندوں کے من میں بہت ہی کشش رہتی ہے اس دن ہم اپنی ان تمام عظیم شخصیتوں  کو یاد کرتے ہیں جنھوں نے ہمیں ہمارا آئین دیا۔

اس سال ہم پوجیہ باپو کا 150واں جینتی سال منا رہے ہیں۔ ہمارے لیے خوش قسمتی کی بات ہے کہ جنوبی افریقہ کے صدر جناب سرل رامافوسا اس سال یوم جمہوریہ کے مہمان خصوصی کے طور پر ہندوستان میں تشریف لا رہے ہیں۔ پوجیہ باپو اور جنوبی افریقہ کا ایک اٹوٹ تعلق رہا ہے۔ یہ جنوبی افریقہ ہی تھا جہاں سے موہن مہاتما بن گئے۔ جنوبی افریقہ میں ہی مہاتما گاندھی نے اپنا پہلا ستیہ گرہ شروع کیا تھا۔ اور نسلی تعصب کی مخالفت میں ڈٹ کر کھڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے فینکس اور ٹالسٹائے فارمس بھی قائم کئے تھے۔ جہاں سے پوری دنیا میں امن اور انصاف کے لیے گونج اٹھی تھی۔ سال 2018 نیلسن منڈیلا کی پیدائش کی صد سالہ تقریبات کا سال بھی ہے۔ وہ ‘‘مڈیبا’’ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نیلسن منڈیلا پوری دنیا میں نسلی تعصب کے خلاف جدوجہد کی ایک مثال تھے۔ اور منڈیلا کو تحریک دینے والے کون تھے؟ انھیں اتنے برس جیل میں کاٹنے کی  قوت برداشت اور ترغیب پوجیہ باپو سے ہی تو ملی تھی۔ منڈیلا نے باپو کے لیے کہا تھا ‘‘مہاتما ہماری تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ کیونکہ یہیں پر انھوں نے  سچ کے ساتھ اپنا پہلا تجربہ کیا تھا۔ یہیں پر انھوں نے انصاف کے تئیں اپنی مضبوطی کا بے مثال مظاہرہ کیا تھا۔ یہاں پر انھوں نے اپنے ستیہ گرہ کا فلسفہ اور جدوجہد کے طریقے تیار کئے’’ وہ باپو کو رول ماڈل مانتے تھے۔ باپو اور منڈیلا دونوں پوری دنیا کے لیے  نہ صرف تحریک کا منبع ہیں بلکہ ان کے اصول ہمیں محبت اور ہمدردی سے بھرے ہوئے معاشرے کی تعمیر کے لیے بھی ہمیشہ ترغیب دیتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو! کچھ دن پہلے نربدا کے ساحل پر  کیواڈیہ میں ڈی جی پی کانفرنس ہوئی، جہاں پر دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ‘‘اسٹیچو آف یونیٹی’’ ہے وہاں ملک کے اعلیٰ پولیس  افسروں  کے ساتھ  بامعنی بات چیت ہوئی۔ ملک اور ملک کے باشندوں کی حفاظت کو اور مضبوطی دینے کے لیے کس طرح کے قدم اٹھائے جائیں اس پر تفصیل سے بات ہوئی۔ اسی دوران میں نے قومی یکجہتی کے لیے سردار پٹیل انعام شروع کرنے کا بھی اعلان کیا یہ انعام ان کو دیا جائے گا جنھوں نے کسی بھی شکل میں قومی یکجہتی کے لیے تعاون کیا ہو۔ سردار پٹیل نے اپنی پوری زندگی ملک کی یکجہتی کے لیے وقف کردی تھی۔ وہ ہمیشہ ہندوستان کی یکجہتی کو قائم رکھنے میں لگے رہے۔ سردار صاحب مانتے تھے کہ ہندوستان کی طاقت یہاں کی گوناگونیت میں پنہاں ہے۔ سردار پٹیل جی کے اس جذبے کا احترام کرتے ہوئے یکجہتی کے اس انعام کے ذریعے سے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو! 13 جنوری گروگوبند سنگھ جی کی جینتی کا پاکیزہ تہوار ہے۔ گروگوبند سنگھ جی کا جنم پٹنہ میں ہوا۔ زندگی کے زیادہ تر وقت تک ان کے کام کرنے کی جگہ شمالی ہندوستان رہی۔ اور مہاراشٹر کے ناندیڑ میں ان کا انتقال ہوا۔ جنم بھومی پٹنہ میں، کرم بھومی شمالی بھارت میں اور زندگی کے آخری لمحات ناندیڑ میں۔ ایک طرح سے کہا جائے تو پورے ہندوستان کو ان کا آشیرواد حاصل ہوا۔ ان کی پوری زندگی کو دیکھیں تو اس میں پورے ہندوستان کی جھلک ملتی ہے۔ اپنے والد شری گروتیغ بہادر جی کے شہید ہونے کے بعد گروگوبند سنگھ جی نے 9 سال کی کمسنی  میں ہی  گرو کا عہدہ حاصل کیا۔ گرو گوبند سنگھ جی کو انصاف کی لڑائی لڑنے کا حوصلہ سکھ گروؤں سے وراثت میں  ملا۔ وہ پرسکون اور سادہ شخصیت کے مالک تھے۔ لیکن جب جب غریبوں اور کمزوروں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی ان کے ساتھ نا انصافی کی گئی تب تب گروگوبند سنگھ جی نے غریبوں اور کمزوروں کے لیے اپنی آواز مضبوطی کے ساتھ بلند کی۔ اور اس لیے کہتے ہیں

‘‘سوا لاکھ سے ایک لڑاؤں،

چڑیوں سوں میں باز تڑاؤں،

تبے گوبند سنگھ نام کہاؤں’’

وہ کہا کرتے تھے کہ کمزور طبقوں سے لڑ کر طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا۔ شری گوبند سنگھ مانتے تھے کہ سب سے بڑی خدمت ہے انسانی دکھوں کو دور کرنا۔ وہ بہادری، شجاعت، ایثار، مذہب کی پابندی سے پُر روحانی شخص تھے، جن کو  شستر اور شاستر دونوں کا روحانی علم تھا۔ وہ ایک تیر انداز تو تھے ہی، اس کے ساتھ ساتھ گرمکھی، برج بھاشا، سنسکرت، فارسی، ہندی اور اردو سمیت کئی زبانوں کے بھی عالم تھے۔ میں ایک بار پھر سے شری گروگوبند سنگھ جی کو نمن کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو! ملک میں کئی ایسے اچھے واقعات ہوتے رہتے ہیں، جن کا وسیع پیمانے پر ذکر نہیں ہوپاتا۔ ایسی ہی ایک  بے مثال  کوشش ایف ایس ایس اے آئی یعنی فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈ اتھارٹی آف انڈیا کے ذریعے ہو رہی ہے۔ مہاتما گاندھی کے 150ویں یوم پیدائش کے موقع پر ملک بھر میں کئی پروگرام منعقد ہو رہے ہیں۔اسی سلسلے میں ایف ایس ایس اے آئی ، محفوظ اور صحت مند کھانے کی اچھی عادتوں کو فروغ دینے میں لگا ہے۔ ‘‘ایٹ رائٹ انڈیا’’ مہم کے اندر ملک بھر میں سوستھ بھارت یاترائیں نکالی جارہی ہیں۔ یہ مہم 27 جنوری تک چلے گی۔ کبھی کبھی سرکاری تنظیموں کا تعارف ایک ریگولیٹر کی طرح ہوتا ہے لیکن یہ قابل تعریف ہے کہ ایف ایس ایس اے آئی اس سے آگے بڑھ کر عوامی بیداری اور عوامی تعلیم کا کام کر رہا ہے۔ جب ہندوستان صاف ستھرا ہوگا، صحت مند ہوگا تبھی ہندوستان دولت مند بھی ہوگا۔ اچھی صحت کے لیے سب سے ضروری ہے  مقوی غذا۔ اس ضمن میں اس پہل کے لیے ایف ایس ایس اے آئی کو دلی مبارک باد دیتا ہوں۔ میرا آپ سب سے اصرار ہے آیئے اس پہل سے جڑیں۔ آپ بھی اس میں حصہ لیں اور خاص طور پر میں اصرار کروں گا کہ بچوں کو ضرور یہ چیزیں دکھائیں۔ کھانے کی اہمیت کی یہ تعلیم بچپن سے ہی ضروری ہوتی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو! 2018 کا یہ آخری پروگرام ہے، 2019 میں ہم پھر سے ملیں گے، پھر سے من کی باتیں کریں گے۔ ایک شخص کی زندگی ہو، قوم کی زندگی ہو، سماج کی زندگی ہو، ترغیب ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ آیئے نئی تحریک، نئی امنگ، نئے عزم، نئی سدھی، نئی اونچائی- آگے چلیں، بڑھتے چلیں، خود بھی بدلیں، ملک کو بھی بدلیں۔ بہت بہت شکریہ!

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

( م ن ۔ا گ۔ را  ۔ 30 – 12 – 2018)

 U. No. 6527