نئی دہلی : وزیر اعظم نریندر مودی نیٹ ورک 18 کے گروپ اڈیٹر راہل جوشی سے سیاست ،معیشت، دلتوں پر حالیہ حملوں کے بعد ان کی حکومت پر کی جانے والی تنقید ،ووٹ بینک کی سیاست اور ذات پات ، خود اپنی ذات کے متعلق آگہی فراہم کرنے، اپنے کام کرنے کے انداز اور اپنے ان تمام تیقنات پر مشتمل کثیر النوع موضوعات پر احاطہ کرتے ہوئے ایک جامعہ انٹرویو دینے کے لئے روبرو ہوئے۔
ذیل میں ان کے مذکورہ انٹرویو کا ایڈٹ شدہ متن دیا جا رہا ہے جو ہندی سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
سوال : سب سے پہلے نیٹ ورک 18 کو انٹرویو دینے کے لئے آپ کا شکریہ۔ دو برس قبل آپ ایک تاریخی رائے عامہ سے منتخب ہوئے تھے، جو تین دہائیوں میں سب سے زیادہ فیصلہ کن تھی۔ آپ اپنے گذشتہ دو برسوں کے متعلق کیا سوچتے ہیں اور آپ کے خیال میں آپ کی عظیم ترین حصولیابیاں کیا رہی ہیں؟
وزیر اعظم مودی : وزیر اعظم ہونے کی ذمہ داری عائد ہونے کے بعد تقریباً دو برس تین مہینے گزرے ہیں۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور عوام لگاتار پیمانے پر حکومت کا احتساب کرتے رہتے ہیں۔ ابلاغ عامہ بھی تجزیہ کرتا ہے۔ اور ان دنوں، پیشہ ورانہ سروے کرنے والی ایجنسیاں بھی یہ عمل کرتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ اچھی چیز ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں اس چیز کو عوام پر چھوڑتا ہوں کہ وہ میری حکومت کی کاکردگی کا تجزیہ کس طرح کرتے ہیں۔
تاہم میں یقینی طور پر چاہوں گا کہ جہاں کہیں بھی میری حکومت کا تجزیہ کیا جائے تو ہمارے برسر اقتدار آ نے سے پہلے برسراقتدار حکومت کو ذہن میں رکھا جائے ملک کی حالت کیا تھی، میڈیا کس چیز پر مباحثہ کر رہا تھا۔ اگر ہم ان امور کو مدنظر رکھیں، ان دنوں اخبارات بدعنوانی، مایوسی سے بھرے ہوتے تھے۔ عوام نے ا مید کا دامن چھوڑ دیا تھا اور ان کا نظریہ یہ تھا کہ ہر چیز غرق ہو چکی ہے۔
اگر ایک مریض، ڈاکٹر خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، دل شکستہ ہو چکا ہو، کوئی بھی دوا اسے شفا نہیں دے سکتی، تاہم اگر مریض پر امید ہے، تو ایک اوسط درجے کا ڈاکٹر اسے شفایاب کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ مریض کا داخلی یقین ہے۔
حکومت سازی کے بعد میری اولین ترجیح یہ تھی کہ مایوسی کے ماحول کو ختم کیا جائے اور ملک کے تئیں امید اور یقین بیدار کیا جائے۔ یہ صرف تقریروں سے ممکن نہیں ہوتا۔ ٹھوس قدم اٹھانے ہوتے ہیں اور کام کرکے کام کیا گیا ہے یہ بھی دکھانا پڑتا ہے۔ اور آج دو برسوں سے زائد مدت کے بعد میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ نہ صرف اس ملک کے عوام میں امید جاگی ہے، بھارت کے تئیں پوری دنیا کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
ایک وقت تھا جب ہمیں ایک ڈوبتا ہوا جہاز خیال کیا جا رہا تھا۔ برکس میں ’آئی‘ (بھارت کی نمائندگی کرنے والا حرف) ڈانواڈول سمجھا جاتا تھا۔ آج یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی روشن مقام ہے تو وہ بھارت ہے۔ میرے خیال سے اپنے آپ میں تجزیے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔
سوال : آپ ترقی کے موضوع پر برسراقتدار آئے، اسی لئے معیشت پر ایک سوال، بڑی کوششوں کے بعد آپ جی ایس ٹی بل منظور کرانے میں کامیاب رہے۔ آپ اس کامیابی کو کتنی بڑی گردانتے ہیں۔ ایک عام انسان کے لئے اس کے کیا معنی ہیں؟
وزیر اعظم مودی: یہ شاید بھارت کی آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کی سب سے بڑی ٹیکس اصلاح ہے۔ یہ اصلاح بھارت میں ایک بڑی تبدیلی لے آئے گی۔ ملک میں بہت تھوڑے سے لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ٹیکس اس لئے ادا کرتے ہیں کہ وہ محب وطن ہیں اور ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ ٹیکس اس لئے اد ا کرتے ہیں کہ وہ قانون نہیں توڑنا چاہتے۔ کچھ اس لئے ادا کرتے ہیں کہ کسی طرح کی مشکل میں گرفتار نہ ہوں۔ تاہم بیشتر افراد اس لئے ادا نہیں کرتے کہ یہ عمل خاصا دقیق ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ وہ اس عمل میں الجھ سکتے ہیں اور اس سے باہر نہیں آسکیں گے۔ جی ایس ٹی ٹیکس کی ادائیگی کو اس حد تک سہل کر دے گا کہ کوئی بھی شخص جو ملک میں اپنا تعاون دینا چاہے گا وہ آگے آئے گا۔
دوسری بات اگر آج آپ کسی ہوٹل میں جا کر کھانا کھائیں تو جو بل آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے وہ محصول کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ محصول ۔۔۔۔۔۔۔ لوگ واٹس ایپ پر پیغامات ارسال کرتے ہیں جن میں بل کی رقم اور ادا کیے گئے محصول کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ یہ تمام باتیں ختم ہو جائیں گی اور ہم چنگیوں پر اور سرحدی جانچ چوکیوں پر، میلوں دور تک کھڑی ہوئی موٹرگاڑیاں دیکھتے ہیں۔ جب موٹر گاڑیاں رک جاتی ہیں تو ملک کی معیشت متاثر ہوتی ہے۔ اب یہ تمام چیزیں سقم سے پاک ہو جائیں گی۔
ایک ریاست سے دوسری ریاست تک سازو سامان کا نقل و حمل، ٹیکسیشن کا نظام بھی سہل بنایا جائے گا اور اس نہ صرف عام انسا ن کا فائدہ ہوگا بلکہ مالیہ ملک کی ترقی میں مددگار ہوگا۔ آج، ریاستوں کے مابین عدم اعتمادکی مثالیں ملتی ہیں۔ اس سے اس صورت ِ حال کا خاتمہ ہو جائے گا، یہ وفاقی ڈھانچہ کو شفاف اور مستحکم بنائے گا۔
سوال: برسر اقتدار آنے کے بعد، آپ کے سامنے سب سے بڑی چنوتی معیشت کی تھی۔ آپ کے سامنے صرف اسے واپس پٹری پر لانے کا مسئلہ ہی درپیش نہیں تھا بلکہ نمو کی رفتار بھی بڑھانی تھی۔ کیا آپ کو ایسا کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی؟
وزیر اعظم مودی : آپ بالکل صحیح کہتے ہیں کہ ایک منفی ماحول تھا ۔ ملک کے تاجر اور صنعت کاران بیرونی دنیا کی جانب دیکھنے لگے تھے۔ حکومت مفلوج ہو چکی تھی۔ ایک طرف یہ صورتِ حال تھی، دوسری جانب ہمیں لگاتار دو خشک سالیوں کا سامنا کرنا تھا۔ تیسری بات، عالمی معیشت میں مندی کا دور دورہ تھا۔ لہٰذا چنوتیوں کا ایک سلسلہ تھا۔ یہ صورتِ حال ہمارے برسراقتدار آنے کے بعد تھی۔ اس کے بعد بھی چنوتیاں تھیں، تاہم ہمارا ارادہ مضبوط اور ہماری پالیسیاں واضح تھیں۔ فیصلہ لینے کی صلاحیت تھی کیونکہ ہمارے پوشیدہ مفاد ات نہیں تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بڑی تیزی سے مثبت ماحول بحال ہو گیا۔
آج، آزادی کے بعد ہمارے پاس سب سے زیادہ مقدار میں غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری موجود ہے۔ پوری دنیا کہتی ہے کہ سات فیصد شرح نمو کے ساتھ ہم سب سے تیز رفتار سے ترقی کرنے والی معیشت ہیں۔ خواہ یہ عالمی بینک ہو، آئی ایم ایف ہو، قرض دینے والی ایجنسیاں ہوں، یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں ہوں۔۔۔ یہ سب کہتی ہیں کہ بھارت تیزی سے نمو پذیر ہے۔
لہٰذا نمو کو فروغ دینے والی پالیسیوں پر زور دیا گیا ہے۔ پالیسیوں کے ذریعہ تمام رکاوٹوں کو دور کیا جا رہا ہے۔ ان تمام اقدامات سے معیشت کی رفتار بڑھی ہے۔ اس بار برسات اچھی ہوئی ہے اور اس سے زراعت کو تقویت حاصل ہوئی ہے جو معیشت کے لئے روحِ رواں کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے یہ امیدیں بیدار ہوئی ہیں کہ آنے والے دن نسبتاً کہیں بہتر ہوں گے۔
عام طور پر ایک یا دو چیزوں کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے ، تاہم نمو کے موضوع پر ہر شعبے میں گفتگو ہوئی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی ساتھ اس کے مطالبے میں بھی اضافہ ہواہے۔ بنیادی ڈھانچہ کا کام بھی تیزی سے آگے بڑ ھ رہا ہے اور یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب معیشت میں مطالبات کارفرما ہوں۔ ان تمام امور سے ایسا لگتا ہے کہ ہم بہتر دنوں کی جانب قدم بڑھا چکے ہیں۔
سوال: آپ کا کہنا بالکل صحیح ہے کہ مونسون کی کیفیت بہت حوصلہ افزا رہی ہے اور اسٹاک منڈیاں بھی ترقی سے ہمکنار ہیں۔ کیا آپ برائے مہربانی یہ بتائیں گے کہ اصلاحات کی اگلی لہر کیا ہوگی؟
وزیر اعظ مودی: سب سے پہلی بات، ہمارے ملک میں جس کی بات کی جاتی ہےاسے اصلاح خیال کیا جاتا ہے۔ اگر اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، تو اسے اصلاح سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اس سے ہماری عدم آگہی کا اظہار ہوتا ہے۔ دراصل میرا خیال اصلاح کے ذریعہ تبدیلی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں ۔۔۔۔ اصلاح کرو، عمل کرو اور تبدیل کرو۔ اور چونکہ میں آپ کو انٹرویو دینے کے لئے بیٹھا ہوں، لہٰذا میں کہوں گا کہ اصلاح کرو، کارکردگی کا مظاہرہ کرو، تبدیلی لاؤاور اطلاع فراہم کرو۔
کاروبار کرنا آسان بنانے کی بات کریں۔ ہماری رینکنگ بڑی تیزی سے اوپر جا رہی ہے۔ اصلاح کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ ہمارا نظام، عمل، اس کی شکلیں بڑی پیچیدہ تھیں۔ ان کو اصلاح سے گزاراگیا ہے، لہٰذا ہماری رینکنگ اوپر جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی نے کہا تھا کہ آئندہ دو برسوں میں ہم دس سے اوپر اٹھ کر نمبر تین پر جا سکتے ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ آج بھی کچھ علاقوں میں لائسنس راج موجود ہے۔ اس کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک اہم اصلاح ہے جو، انتظامی، حکمرانی، قانونی، ہر سطح پر رونما ہو رہی ہے۔
مثال کے طور پر ہم نے ایسے 1,700 قوانین منسوخ کرد یے جو انیسویں اور بیسویں صدی میں رائج تھے۔ میں نے ریاستوں سے بھی ایسا کرنے کو کہا ہے۔ یہ بڑی اصلاحات ہیں، ان کے متعلق جانکاری نہ ہونے سے عوام اسے اصلاح خیال نہیں کرتے۔
تعلیم کو لیجئے، جہاں ہم نے ایک اہم قدم اٹھایا جس پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ ہم نے کہا تھا کہ دس سرکاری اور دس نجی یونیورسٹیوں کو تمام یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے قوائد سے آزاد کر دیا جائے گا۔ہم انہیں سرمایہ فراہم کریں گے اور انہیں عالمی درجے کی یونیورسٹیاں بن کر دکھانا ہوگا۔ اگر قواعد و ضوابط ان کے راستے میں حارج ہو رہے ہیں تو ہم ایسے قواعد و ضوابط کو منسوخ کر دیں گے۔اب آپ ایسا کریں اور ہمیں دکھائیں۔ یہ ایک بڑی اصلاح ہے، تاہم اس پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
براہِ راست فائدہ منتقلی ایک بڑی اصلاح ہے۔ اس سے پہلے کون جانتا تھا کہ ایم این آر ای جی اے کا سرمایہ کہاں جا رہا ہے؟ اب اسے ڈی بی ٹی کے ذریعہ ارسال کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے سبسڈی کی ادائیگیاں اور طلبا کے وظائف ہیں۔ میرے لئے یہ تمام اصلاحات حکمرانی اور شفافیت میں لائی گئی ہیں۔ ہم زیادہ تکنالوجی حاصل کر رہے ہیں۔ اسے اس سے زیادہ بڑے پیمانے پر کرنا ہوگا۔ اس کے مرکز میں عام انسان آتا ہے۔ ایک عام انسا ن کے لئے زندگی کیسے آسان بنائی جائے، جو ان کا حق ہے وہ انہیں کیسے ملے گا، ہم ان چیزوں پر زور دینا چاہتے ہیں۔
سوال:جہاں اقتصادی نمو وقوع پذیر ہوئی ہے، معیشت میں نجی سرمایہ کاری اب بھی سست روی کا شکار ہے۔ کچھ شعبے مثلاً زمین جائیداد کا شعبہ اب بھی مشکلات کا شکار ہے۔ اسٹارٹ اپس کی پونجی سرمایہ، فنڈنگ کی رفتار مدھم ہو گئی ہے۔ آپ نجی صنعت اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس موقع پر کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
وزیر اعظم مودی: آج میرا خیال ہے، کہ اولین بجٹ پیش کرنے سے قبل مجھے ملک میں جاری اقتصادی صورتِ حال سے متعلق قرطاس ابیض پیش کرنا چاہئے تھا۔ اس وقت مجھے یہ خیال آیا تھا ۔ اس وقت میرے سامنے دو راستے تھے۔ سیاست نے مجھے یہ بتایا کہ مجھے تمام تر تفصیلات پیش کر دینی چاہئے۔ مگر ملک کے مفاد کا تقاضا مجھ سے یہ تھا کہ اس اطلاع سے مایوسی کا احساس بڑھ جائے گا۔ منڈیوں پر بری طرح سے اثر پڑے گا، معیشت کے لئے یہ زبردست جھٹکا ہوگا اور بھارت کے تئیں عالمی تاثر بدترین ہو جائے گا۔ معیشت کو اس صورت حال سے نکالنا بھی بہت مشکل ہو جاتا۔۔۔۔۔ لہٰذا میں نے سیاسی خسارے کا خطرہ مول لیتے ہوئے ملکی مفاد میں خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت سرکاری شعبہ کے بینکوں کی صورتِ حال سامنے آ رہی تھی۔ میں نے ان تمام تفصیلات کو عوام الناس کے سامنے نہیں رکھا۔ اس نے ہمیں نقصان پہنچایا۔ ہمیں ہدف تنقید بنایا گیا اور ایسی صورت حال پیش کی گئی کہ یہ سب میری اپنی غلطی ہے۔ تاہم میں سیاسی خسارے کو ملک کے مفاد میں برداشت کرنے کا قائل ہوں۔
ماضی کے ان تمام معالات کے اثرات نے نجی سرمایہ کاری کو متاثر کیا ہے، جیسے کہ بینکوں میں غیر کارکردہ اثاثے۔ میں نے بینکروں کے ساتھ ایک اجلاس کا اہتمام کیا اور انہیں بتایا کہ حکومت کی جانب سے آپ کو مخاطب نہیں کیا جائے گا۔ ان اقدامات نے اسکریو کس دیے ہوں گے۔
اس کے باوجود، جس رفتار سے سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں، ریلوے کی توسیع عمل میں آر ہی ہے، الیکڑانک سازو سامان کی مینوفیکچرنگ میں چھ گنا اضافہ۔۔۔۔۔ یہ چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہم نے کوئی مختصر راستہ نہیں اپنایا۔ اور میرا مقصد یہ ہے جیسا کہ پلیٹ فارموں پر لکھا رہتا ہے : ’مختصر راستہ آپ کو کاٹ کر چھوٹا کر دے گا‘۔ ہم کسی طرح کے شارٹ کٹ نہیں اپنانا چاہتے اور اس کے نتائج ظاہر ہیں۔
کچھ بھی ہو، صورتِ حال اب بہتر ہوئی ہے۔ ہمیں ان چیزوں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم ابتدا میں ۔ مئی 2014 میں۔ میں نے سخت راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب غیر جانبدار عوام صورتِ حال کا تجزیہ کریں گے تو مجھے پورا یقین ہے کہ وہ حیران رہ جائیں گے۔
سوال: آپ نے کالے دھن کے معاملے میں سخت گیر رویہ اپنایا ہے۔ دراصل یہ کہا جاتا ہے کہ کالے دھن پر اس کاروائی کے نتیجے میں کچھ تاجر دبئی یا لندن میں روپوش ہیں۔ آپ نے سیاستدانوں کے گھرانوں کو بھی نہیں بخشا۔ کیا یہ عمل جاری رہے گا؟
وزیر اعظم مودی: پلیک بات، میں نے کبھی اسے سیاسی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کروں گا۔ میں چودہ برس تک ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ رہا ہوں۔ اور تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ میں نے سیاسی مفاد کے لئے کبھی کوئی فائل نہیں کھولی۔ مجھے کبھی اس کے لئے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہاں بھی دو برس سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ حکومت نے کوئی فائل کھولنے کے احکامات جاری نہیں کیے ہیں۔ قانون اپنا کام کرے گا۔ مجھے کسی کور ۔اپ میں ملوث ہونے کا حق نہیں ہے۔ آپ کا یہ کہنا کہ ہم نے کسی خاندان کو نہیں بخشا، یہ صحیح نہیں ہے۔
ہم نے درکار قانونی تبدیلیاں کی ہیں تاکہ اندرونِ ملک چلن میں موجود کالے دھن پر بھی روک لگائی جا سکے۔ ایک اسکیم ہے جو ستمبر کی 30 تاریخ تک جاری رہے گی۔ وہ تمام لوگ جو اب بھی مین دھارے میں آنے کے لئے تیار ہیں، میں نے عوام کے روبرو یہ کہا ہے کہ ستمبر کی 30 تاریخ آپ کی آخری تاریخ ہے۔ آپ نے جس کسی ارادے سے بھی کوتاہیاں کی ہوں، خواہ دانستہ کی ہوں یا نادانستہ طور پر، آپ کے پاس ایک موقع ہے۔ قومی دھارے میں آجایئے۔ میرے پاس عوام کے لئے منصوبہ ہے کہ وہ رات میں سکون سے نیند لے سکیں۔ عوام کو اسے تسلیم کر لینا چاہئے۔ اور اگر میں 30 تاریخ کے بعد سخت فیصلے لیتا ہوں، تو کسی کو بھی مجھے موردِ الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے ۔ یہ سرمایہ ملک کے نادار افراد کا ہے، کسی کو اسے لوٹنے کا حق نہیں پہنچتا۔ یہ میرا عہد ہے۔ میں پوری قوت سے کام کر رہا ہوں اور یہ کوشش جاری رکھوں گا۔
سوال: جناب وزیر اعظم، آیئے اب ہم سیاست کی بات کریں۔ متعدد ریاستوں میں آئندہ برس انتخابات منعقد ہوں گے۔ سماجی تفریق اور بنیاد پرستی کا مکروہ چہرہ ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ دلت اور پسماندہ طبقات کے اراکین نے تو درحقیقت یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس دلت کے خلاف ہیں۔ آپ عوام کو کیسے یقین دلائیں گے آپ کا ایجنڈہ صرف اور صرف ترقی ہے؟
وزیر اعظم مودی: ملک کو پورا یقین ہے کہ ہمارا ایجندہ صرف ترقی ہے۔ عوام کے ذہن میں کوئی تذبذب نہیں۔ تاہم وہ تمام افراد جو یہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ اس طرح کی حکومت برسراقتدار آئے، وہ لوگ جو کبھی نہیں چاہتے تھے کہ پچھلا دورِ حکومت ختم ہو جائے، یہ وہی لوگ ہیں جنہیں پریشانی لاحق ہے۔ لہٰذا، ترقیات ہی ہمارا واحد موضوع ہے اور یہ ایسے ہی برقرار رہے گا۔ اور یہ ایک سیاسی موضوع نہیں ہے بلکہ میرا یقین ہے اگر ہم اس ملک کو ناداری سے مبرا کر نا چاہتے ہیں تو ہمیں ترقی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ناداروں کو بااختیار بنانا ہوگا۔
جہاں تک چند واقعات کا سوال ہے، ان کی مذمت کی جانی چاہئے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم ہمیں یہ نہیں فراموش کرنا چاہئے کہ قانون و انظاعم ریاستی موضوع ہے۔ کچھ عناصر، خاص طور پر موضوعات کو ابھار کے مودی کو اس کے لئے موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کے اس عمل سے کیا مقصد حاصل ہوگا۔ تاہم ان کے اس عمل سے ملک کے مفاد پر یقینی طور پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسے واقعات ہرگز رونما نہیں ہو نے چاہئے۔ اعداد و شمار کے نقطہ نظر سے چاہے یہ فرقہ ورانہ تشدد ہو، دلتوں کے خلاف ظلم و زیادتی ہو یا قبائل کے ساتھ ہوئی ظلم و زیادتی، اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی تعداد میں گذشتہ حکومت کے دور کے مقابلے میں کمی واقع ہوئی ہے۔
تاہم موضوع یہ نہیں ہےکہ ان کے دورِ حکومت اور ہمارے دورِ حکومت میں کیا رونما ہوا۔ موضوع یہ ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کے لئے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے پا س ہزاروں سال قدیمی ثقافت موجود ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے میں کچھ عدم توازن دیکھے ہیں اور ہمیں بڑی دانش مندی سے اپنے معاشرے کو اس عدم توازن سے باہر لے آنا چاہئے۔ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ سیاست اور سماجی عدم توازن معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے۔ وہ تمام افراد جنہوں نے پیڑھیوں سے ناانصافی کا سامنا کیا ہے۔ اگر آپ دلت ایم پی اور دلت ایم ایل اے ، قبائلی ایم پی اور قبائلی ایم ایل اے پر نظر ڈالیں، تو بی جے پی میں یہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
جب سے میں نے با با صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی 125ویں سالگرہ منائی ہے، جب اقوام متحدہ نے بھی ان کی سالگرہ منائی تھی، اور 102 ممالک نے بھی 125 ویں سالگرہ منائی، اور پارلیمنٹ میں دو دن تک بابا صاحب امبیڈکر کی حیات اور کارناموں پر گفتگو ہوئی، بہت سے لوگوں نے سوچا کہ مودی ، امبیڈکر کا ایک عقیدت مند ہے۔ انہیں پریشانیاں لاحق ہونے لگیں۔ وہ تمام لوگ جو دلتوں کے خود ساختہ سرپرست بنے ہوئے تھے، انہیں یہ پسند نہیں آیا کہ مودی دلتوں کے ساتھ ہے اور یہ کہ مودی نے اپنے آپ کوقبائل کے لئے وقف کر دیا ہے۔ میں تمام دلتوں، دبے کچلوں، محروموں ، مظلوموں، خواتین کی ترقیات کے لئے وقف ہوں۔ جو لوگ اسے اپنی سیاست کے راستے کا کانٹا سمجھتے ہیں، وہی یہ سارے مسائل کھڑے کر رہے ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ بے بنیاد الزامات عائد کر رہے ہیں۔ وہ تمام افراد جنہوں نے اس ملک میں ذات پات کا زہر بویا ہے، انہوں نے ہی ملک کو تباہ کیا ہے۔ انہیں سماجی مسائل کو سیاسی رنگ دینے کا رویہ ترک کر دینا چاہئے۔ ہمیں ایک مقصد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ اور میں معاشرے سے بھی ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس طرح کے واقعات ایک مہذب معاشرے کے شایان شان ہیں؟
میں نے لال قلعے کی فصیل سے عصمت دری کے واقعات پر اظہارِ خیال کیا تھا۔۔۔۔ میں نے کہا تھاکہ والدین کو اپنے بیٹوں سے بھی پوچھنا چاہئے ۔۔۔۔ کہ وہ کہاں جا رہے ہیں، وہ کیا کر رہے ہیں؟ ہم اپنی بیٹیوں سے یہ سوالات پوچھتے ہیں۔
اور میں اپنے سیاستدانوں کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں ، اپنے پارٹی کے رہنماؤں کو بھی کہ غیر محتاط بیانات، میڈیا کے روبرو کسی چیز یا شخص کی برادری کے بارے میں کچھ بھی کہنا۔ میڈیا خود آپ کے پاس آئے گا۔ اسے اپنی ٹی آر پی درکار ہے۔ تاہم آ پ ملک کو جوابدہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو عوامی زندگی گزار رہے ہیں، چاہے سیاسی ہوں یا سماجی کارکنان۔۔۔ یہاں تک کہ اگر ہم ایک خاص برادری کی نمائندگی کرتے ہوں، تو بھی ملک کے اتحاد کے مفاد میں، معاشرے کے اتحاد کے لئے، عوامی خیر سگالی کے لئے، ہمیں ازحد چوکس رہنا چاہئے۔
جب کبھی ہم مجروح ہوتے ہیں، ایک کاغذ بھی ہلکے سے مس ہونے پر تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ ہزاروں سال کی ناانصافی نے ان زخموں کو ہرا رکھا ہے۔ ہلکا سا نقاکن بھی بہت درد کا باعث ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی واقعہ چھوٹا ہے یا بڑا، فرق اس سے پڑتا ہے کہ ایسے واقعات کو رونما ہی نہیں ہونا چاہئے۔ کون سی حکومت کے دور میں زیادہ واقعات رونما ہوئے اور کس کے دور میں اتنے واقعات رونما نہیں ہوئے یہاں اس بات کا سوال نہیں ہے۔ ہمیں ملک کے اتحاد کو مستحکم بنانے کے لئے اجتماعی طور پر کام کرنا ہوگا۔
سوال: اقتصادی ترقی کے لئے سماجی ہم آہنگی کی اہمیت کتنی ہے؟
وزیر اعظم مودی: اقتصادی ترقی ہی اکیلے کوئی حل نہیں ہے۔ امن، اتحاد اور ہم آہنگی معاشرے کے لئے لازمی ہے۔ ایک کنبے میں بھی آپ خواہ کتنے ہی خوشحال کیوں نہ ہوں۔۔۔ خواہ آپ دولت کے ڈھیر پر بیٹھے ہوں، کنبے کا اتحاد اہمیت رکھتا ہے۔ یہی بات معاشرے پر بھی صاد ق آتی ہے۔ ہمیں صرف ناداری سے لڑنے کے لئے ہی اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں متحد اور ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سماجی انصاف کے تئیں عہد بند ہونے کی ضرورت ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ صرف اقتصادی ترقی کے لئے اتحاد کی اہمیت نہیں ہے۔ امن اور اتحاد اور ہم آہنگی، کنبہ، زندگی، معاشرے اور ملک کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اور ان تمام افراد کے لئے جو وسودھیَو کٹمبکم میں یقین رکھتے ہیں، پوری دنیا ایک اکائی کی حیثیت رکھتی ہے۔
سوال: تمام سیاسی پارٹیاں ناداری ختم کرنے کی بات کرتی ہیں۔ تاہم ناداری ہمارے ملک میں سنگین تشویش کا ایک موضوع بنی ہوئی ہے۔ روزگار کی فراہمی آپ کے لئے ایک بڑی چنوتی ہے اور آپ نے اسے ذہن میں بھی رکھا ہے۔ ان دونوں چیزوں کے بارے میں آپ کی حکمت عملی کیا ہوگی؟
وزیر اعظم مودی: آپ صحیح کہتے ہیں۔ غریبی کا خاتمہ ایک سیاسی نعرہ رہا ہے۔ ناداری پر کافی سیاست کی گئی ہے۔ ناداری کے خاتمے کے لئے بہت سارے پروگرام بھی انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے شروع کیے گئے ہیں۔ میں اس موضوع پر کچھ کہہ کر کسی تنازعے میں نہیں پھنسنا چاہتا کہ یہ اچھا تھا یا برا، تاہم میرا راستہ قدرے مختلف ہے۔ ہمیں ناداری کے خاتمے کے لئے ناداروں کو بااختیار بنانا ہوگا۔ اگر نادار افراد بااختیار بن جائیں گے تو انہیں ناداری سے چھٹکارہ پانے کی وافر قوت حاصل ہو جائے گی۔ ناداروں کو نادار رکھ کر ہی سیاست کی جا سکتی ہے۔ تاہم ناداری سے آزادی صرف تفویضِ اختیارات کے ذریعہ ہی دلائی جا سکتی ہے۔ تفویض اختیارات کا سب سے بڑا ذریعہ تعلیم ہے۔ اگلا نقطہ روزگار ہے۔ اگر ہم اقتصادی تفویضِ اختیار ات حاصل کر لیتے ہیں تو اس کا استعمال چیزوں کو اپنے آپ بدلنے کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔.
گذشتہ چند برسوں کے دوران، وہ تمام اقدامات جو ہم نے کیے ہیں، مثلاً مدرا اسکیم۔ کم از کم 3.5 کروڑ افراد نے مدرا اسکیم سے استفادہ کیا ہے اور انہیں اس اسکیم کے توسط سے 1.25 لاکھ کروڑ روپئے بھی حاصل ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد وہی لوگ ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ بینک سے سرمایہ حاصل کیا ہے۔ یہ افراد کچھ نہ کچھ کریں گے۔ انہیں سلائی مشینیں حاصل ہوں گی، ملبوسات کی سلائی کریں گے۔۔۔۔ وہ کچھ کریں گے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ چند دیگر لوگوں کو روزگار میں لگا سکیں۔ اس تفویضِ اختیارات سے ان افراد کو کافی حد تک طاقت ملے گی۔ ان کے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے۔
مان لیجئے کہ ایک شخص ایک ٹیکسی خریدتا ہے، تب اسے یہ محسوس ہوگا کہ انہیں اپنے بچوں کو تعلیم دلانی چاہئے۔ وہ آگے بڑھیں گے۔ ہم نے جو کام کیے ہیں ان میں سے ایک چیز اسٹینڈ اپ انڈیا کے نام سے جانی جاتی ہے۔ میں نے بینکوں سے کہا ہے کہ ہر شاخ کو ایک دلت، ایک قبائلی اور ایک خاتون کو مالی امداد فراہم کرنی چاہئے۔ انہیں ان افراد کو صنعت کار بنانا چاہئے۔
ملک میں بینکوں کی 1.25 لاکھ شاخیں موجود ہیں۔ اگر ہر ایک شاخ صرف تین افراد کو بااختیار بنائے تو وہ چار پانچ لاکھ کنبوں کو فائدہ پہنچا سکیں گے۔ ایسے افراد جو مالی طور پر اس طرح کے تفویض اختیارات سے ہمکنار نہیں ہوتے، وہ اپنے آپ کو بااختیار محسوس کریں گے، وہ ایک اقتصادی قوت بن جائیں گے۔ اسٹارٹ اپ انڈیا۔۔۔ نوجوانوں کو روزگار دینے کے لئے، میں نے یہ اسکیم شروع کی ہے۔ یہ چھوٹے فیصلے ہیں۔ میں نے ریاستوں کو بھی ایک مشورہ نامہ ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں بھی اس سمت میں آگے بڑھنا چاہئے۔
ہمارے ملک میں بڑے بڑےبازار ہیں۔ ان کی تعمیر میں لاکھوں اور کروڑوں روپئے صرف کر دیے جاتے ہیں۔ ان کے لئے وقت کی کوئی پابندی نہیں۔ وہ رات دس، بارہ بجے تک، چار بجے صبح تک، کھلے رہ سکتے ہیں۔ تاہم ایک سرکاری نمائندہ ہوگا جس کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہوگی اور وہ چھوٹے دوکاندار کو دوکان بند کرنے کا حکم دے گا ۔۔۔۔ کیوں؟ آپ نے کہا ہے کہ یہ چھوٹے تاجر جن کے پاس چھوٹی صنعتیں ہیں، وہ سال میں 365 دن ، 24/7 کھلا رکھ سکتے ہیں تاکہ وہ اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں اور چند لوگوں کو روزگار سے بھی لگا سکیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے ملک میں معیشت کو چلاتے ہیں۔یہی وہ جگہ ہے جہاں ہم تفویض اختیارات کے لئے کوشاں ہیں۔
ہم نے ہنر مندی ترقیات پر خاصا زور دیا ہے۔ ہنر مندی ترقیات وقت کا تقاضا ہے۔ ہم نے نظام بدل دیے ہیں۔ ہنر مندی ترقیات ایک وزارت ہے۔ اس کا علاحدہ بجٹ ہے۔ اور کام بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ حکومت کے ذریعہ ہنر مندی ترقیات، نجی۔ سرکاری شراکت داری کے توسط سے ہنر مندی ترقیات، ہنر مندی سے وابستہ یونیورسٹیوں کے توسط سے ہنرمندی ترقیات جس کے لئے دیگر ممالک کے ساتھ تال میل بنانا ہوگا جنہوں نے ہنر مندی ترقیات میں اچھا کام کیا ہے۔ ملک میں 80 کروڑ نوجوان ہیں۔ وہ 30برس سے کم عمر کے ہیں۔ اگر نوجوانوں میں ہنر مندی ہو تو وہ ملک کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ اور ہم اسی پر زور دے رہے ہیں۔ ملک کے نوجوان اور روزگار اقتصادی سرگرمی کے مرکز میں ہیں۔ زراعت کے شعبے میں بھی اگر آپ قدر و قیمت کے اضافے کی جانب جائیں، یہاں روزگار کی فراہمی کے لئے زیادہ مواقع حاصل ہوں گے۔ گاؤں کے ایک نوجوان نے، جسے دباؤ کے تحت بڑے شہر جانا پڑا تھا، اگر اسے ویلیو ایڈیشن اور زراعت پر مبنی دیہی ترقیات فراہم کرائی جائے، اگر ہم اسے بااختیار بنا سکیں تو روزگار کے مواقع فراہم ہو جائیں گے۔ ہم اس پر زور دے رہے ہیں اور ہم کچھ اچھے نتائج دیکھ سکتے ہیں۔
سوال: آپ وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جو بیرونِ ملک کے بھارتیوں کے ساتھ براہِ راست گفت و شنید کر چکا ہے۔ اس سے ملک کو کیا فائدہ پہنچا ہے؟
وزیر اعظم مودی: ہر چیز کو منافع اور خسارہ کی میزان پر نہیں تولا جانا چاہئے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں، جو کوئی بھی بھارتی ہے، خواہ وہ کسی عہدے پر بھی ہو، اپنے دل میں ایک احساس رکھتا ہے کہ میرے ملک کو ترقی کرنی چاہئے۔ اگر انہیں اپنے ملک کے بارے میں ناخوشگوار خبریں سننے کو ملتی ہیں تو وہ سب سے زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ دور ہیں۔ انہیں اس کی چبھن زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ ہم بہت سی چیزوں کے عادی ہو جاتے ہیں ، وہ متاثر ہو جاتے ہیں۔ وہ بھارت سے بہت سالگاؤ رکھتے ہیں، تاہم ان کے پاس کوئی موقع یا ذریعہ نہیں ہوتا۔ ہم نے نیتی آیوگ میں غیر مقیم بھارت نژاد افراد کی قوت کو تسلیم کیا ہے۔ یہ اتنی بڑی عالمی طاقت ہے۔ انہیں عالمی پیمانے پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ ان کے اندر تعلیمی عمدگی اور استعداد ہے۔ ایک جوش ہے کہ وہ ملک کے لئے کچھ کریں ۔ اور وہ جہاں کہیں بھی ہیں ملک کے لئے ان کی محبت کم نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں ان سے علیحدگی کیوں اختیار کرنی چاہئے۔ ہمیں ان سے ایک رابطہ قائم کرنا چاہئے اور ایک ایسا وقت آئے گا جب وہ بھارت کے حقیقی سفیر ہوں گے۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ ایک سرکار کے مشن سے کہیں زیادہ ، بھارت کی قوت رجحانات اور روابط کی بنیاد پر ہے۔ مشن پلس ڈائیاسپورا ، جب وہ اکٹھا ہوتے ہیں تو ہماری قوت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا یہ میرا کام تھا اور ہم اچھے نتائج دیکھ رہے ہیں۔
سوال وزیر اعظم مودی: پہلی بات یہ ہے ، کہ یہ بدبختانہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر چیز ہم جو بھی کرتے ہیں وہ فوری طور پر انتخابات سے جوڑ دی جاتی ہے۔ اترپردیش کے انتخابات ابھی دور ہیں، پھر بھی ہمارے تمام فیصلے اس سے مربوط کر کے دیکھے جا رہے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی ماہرین اپنے ذہن سے سیاست کو مستثنیٰ کرکے نہیں سوچ سکتے۔ ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں ان کے اذہان میں سیاسی خیالات تیزی سے گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں اکثر و بیشتر انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ انتخاب یہاں ، انتخاب وہاں ، انتخابات انتخابات۔ ہر فیصلے کو انتخابات کی میزان پر تولا جاتا ہے۔اس وقت تک ہمارے ملک کے لئے بر عکس اثرات مرتب ہوتے رہیں گے جب تک ہم موضوعات اور فیصلوں کو انتخابات سے مربوط کرکے دیکھتے رہیں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان دونوں چیزوں کو علیحدہ کر دیں۔ انتخابات کے اعلانات کے بعد پارٹیاں اپنے انتخابی منصوبوں کے ساتھ سامنے آئیں گی۔ انہیں ابھی سے کیوں مربوط کریں۔
سیاسی پارٹیوں کے رہنما، جب وہ مجھ سے ملاقات کرتے ہیں تو پورے زور وشور سے بتاتے ہیں کہ ہمیں انتخابات کو ایک طرف کر دینا چاہئے۔ وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ہم اسمبلی انتخابات کو لوک سبھا انتخابات کے ساتھ ملحق کیوں نہیں کر دیتے؟ اور ہم مقامی اداروں کے انتخابات بھی اسی دوران کیوں نہیں منعقد کراتے تاکہ سارا انتخابی عمل ایک ہفتے سے دس دنوں کے اندر اور پانچ برسوں کے لئے مکمل ہو جائے اور ملک کسی روک ٹوک کے بغیر چلتا رہے۔ فیصلے لیے جائیں گے اور رفتار پیدا ہوگی اور نوکر شاہی مؤثر طریقے سے کام کرتی رہے گی۔ ہر پارٹی یہی کہہ رہی ہے، تاہم کوئی واحد پارٹی یہ طے نہیں کر سکتی۔ تمام پارٹیوں کو متحد ہو کر یہ کرنا ہوگا۔ حکومت تنہا ایسا نہیں کر سکتی۔ انتخابی کمیشن نے اس کوشش کی قیادت کی تھی اور تمام پارٹیوں نے اس سے اتفاق کیا۔ میرے اپنے نظریات ہو سکتے ہیں مگر میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ اسے جمہوری طور سے ہی کیا جانا ہوگا۔ تاہم مجھے پوری امید ہے کہ کسی نہ کسی دن ایک جامع مباحثہ اور تبادلۂ خیالات ضرور عمل میں آئیں گے۔
آنے والے دنوں میں پانچ ریاستوں میں انتخابات منعقد ہوں گے اور اترپردیش کی ریاست ان میں سے ایک ہے۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے، ہم صرف ترقیاتی موضوعات پر انتخاب لڑیں گے۔ ہماری توجہ کاشتکاروں کی بہبود، گاؤوں، نوجوانوں کے لئے روزگارپر مرکوز ہوگی اور ہم سماجی انصاف کے موقف پر عہد بند رہیں گے۔ ہماری توجہ اس بات پر مرکوز ہوگی کہ ہمارے ملک میں امن، اتحاد اور بھائی چارہ برقرار رہے۔ ہم اس سلسلے میں اقدامات کریں گے اور آگے بڑھیں گے۔
سوال وزیر اعظم مودی: ذات پات اور فرقہ پرستی، ووٹ بینکوں کے زہر نے ہمارے ملک میں کافی نقصان پہنچایا ہے۔ ہماری جمہوریت کو مستحکم بنانے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ووٹ بینک کی سیاست ہے۔ گذشتہ عام انتخابات میں ووٹ بینک سیاست کا کوئی ماحول نہیں تھا۔ اس وقت ترقیاتی سیاست کا ماحول تھا ۔ تیس برسوں کے بعد ہمارے معاشرے کے تمام طبقات نے متحد ہو کر اکثریتی حکومت کے لئے ووٹ دیا۔ ہمارے معاشرے کے ایک پورے طبقے نے ایک تبدیلی کی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اترپردیش کے عوام اترپردیش کی بہتری کے لئے ایسا ہی قدم اٹھائیں۔ وہ ترقیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ووٹ ڈالیں گے۔
سوال وزیر اعظم مودی: جب کبھی ہم جموں و کشمیر کی بات کرتے ہیں تو ہمیں پورے جموں اور وادی کشمیر اور لداخ علاقے کو ذہن میں رکھ کر بات کرنی چاہئے۔ مسئلے کا بیج آزادی کے وقت سے ہی بویا گیا تھا اور آزادی اور ہمارے ملک کی تقسیم سے ہی بویا گیا تھا۔ ہر حکومت کو اس مسئلے سے نبردآزما ہونا پڑا ۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بہت پرانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کشمیر کے نوجوان بھٹکاؤ کا شکار نہیں ہوں گے۔ ہم امن اتحاد اور خیر سگالی برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھیں گے تاکہ جنت نظیر کہا جانے والا کشمیر جنت بنا رہے۔ مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ کشمیر کے عوام کو ترقیات اور اعتماد دونوں ہی درکار ہیں۔ اور ایک ارب بھارتیوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو ترقیات سے عہد بند رکھا اور اس کی اس عہد بندگی میں شامل اعتماد کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ یہ یقین آج بھی وہیں ہے اور مستقبل میں بھی یہ وہیں رہے گا۔ ہم ترقیات اور اعتماد کے راستے پر آگے بڑھیں گے اور کامیاب ہوں گے۔
سوال: عام طورپر یہ یقین کیا جاتا ہے کہ اعلیٰ سطحی بدعنوانی میں آپ کے دورِ حکومت میں تیزی سے کمی آئی ہے، تاہم نچلی سطح کی بدعنوانی کا اب بھی دور دورہ ہے۔ آپ اس کا تعین کیسے کریں گے؟
وزیر اعظم مودی: میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اعلیٰ سطحی بدعنوانی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر گنگا گو مکھ پر صاف ہے تو یہ آہستہ آہستہ نیچے بہتے ہوئے بھی صاف ہو جائے گی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہم نے متعدد ایسے اقدامات کیے ہیں جنہوں نے کسی طرح کی بدعنوانی کے امکانات کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے گیس پر فراہم کیے جانے والے سبسڈی نظام کو براہِ راست فائدہ منتقلی اسکیم میں بدل دیا۔ ایسے فرضی صارفین جو گیس سبسڈی کے فوائد کو غلط طریقے سے استعمال کیا کرتے تھے، اب ان کا کہیں وجو دنہیں ہے۔ چنڈی گڑھ کو تیس لاکھ لیٹر مٹی کا تیل سپلائی کیا جا رہا تھا۔ تکنالوجی کا استعمال کرکے ہم نے ان گھروں کو مٹی کا تیل فراہم کرنا بند کر دیا جن کے پاس گیس کنکشن اور بجلی کی سہولت ہے۔ اور ہم نے ان کو گیس کنکشن فراہم کیا جن کے پاس پہلے سے گیس کنکشن نہیں تھا۔ اس طریقے سے ہم نے چنڈی گڑھ کو مٹی کے تیل سے مبرا بنا دیا اور وہ تیس لاکھ لیٹر مٹی کا تیل بچا لیا جو کالے بازار میں فروخت ہو رہا تھا۔
ایک دن ہریانہ کے وزیر اعلی مجھے بتا رہے تھے کہ وہ نومبر تک آٹھ اضلاع کو مٹی کے تیل سے مبر ا اضلاع بنا دیں گے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ ہمارے کاشتکاروں نے یوریا سے مایوس ہوکر کالے بازار سے اس کی خریداری شروع کر دی تھی۔ کالے دھندے والوں کا بول بالا تھا۔ کچھ ریاستوں میں کاشتکار جو کالے بازار سے یوریا خرید رہے تھے ان پر لاٹھی چارج تک کیا گیا۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اِن دنوں یوریا کی قلت کی کوئی خبر سنائی نہیں دیتی۔ کہیں بھی کاشتکار لائن نہیں لگا رہے ہیں۔ کہیں کوئی لاٹھی چارج نہیں ہو رہا ہے۔ اور کالا بازاری رک گئی ہے۔ اب یہ سب کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ اس سے قبل کاشتکاروں کے استعمال کے لئے فراہم کرائے جانے والا یوریا خاموشی سے کیمیاوی کارخانوں میں پہنچ جاتا تھا۔ کیمیاوی کارخانے اس خام مال کو پروسس کرتے تھے اور تیار شدہ مال باہر نکالتے تھے۔ انہیں سستے دروں پر یوریا حاصل ہو جاتا تھا۔ کیمااوی کارخانے اور دلال فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ہم نے یوریا پر نیم کی پرت چڑھانی شروع کردی ۔ اس کے نتیجے میں اب ایک گرام یوریا بھی کیمیاوی اشیاء کے کارخانے استعمال نہیں کر سکتے۔ اور اب پورا کا پورا یوریا صد فیصد صرف کاشتکاری کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے یوریا کی پیداوار میں بیس لاکھ ٹن کا اضافہ کیا ہے۔ ہم درآمد شدہ یوریا پر بھی نیم کی پرت چڑھارہے ہیں۔ صرف یہی نہیں گجرات میں قبائلی افراد جو اس مقصد کے لئے نیم کے بیجوں کے جمع کرنےکے کام میں لگائے گئے تھے، انہوں نے نیم کی پرت چڑھائے جانے کے دوران، نیم کا تیل نکالنا شروع کر دیا ہے، اور دس سے بارہ کروڑ روپئے کی رقم کمائی ہے۔ یہ ہر لحاظ سے فائدہ مند صوتِ حال ہے۔ بدعنوانی اور مسائل دونوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اسی طریقے سے ہم پالیسی فیصلے لے کر اور تکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ نچلی سطح کی بدعنوانی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ آپ نچلی سطح پر بھی وہ پسند کرنے لگیں گے جو آپ اعلیٰ سطح پر پسند کر رہے تھے۔ .
سوال: جناب وزیر اعظم ایسا کہا جا رہا ہے کہ لٹینس کی دہلی آپ کو پسند نہیں کرتی، تاہم آپ نے دہلی کو پسند کرنا شروع کر دیا ہے؟
وزیر اعظم مودی: جیسا کہ آپ جانتے ہیں وزیر اعظم کی حالت ایسی ہے کہ لٹین کی دہلی کو پسند کرنے یا نہ کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ تاہم اس پر گفت و شنید کی گنجائش ضرور ہے۔ دہلی کے ایوانِ اقتدار میں ایسے لوگوں کا ایک سرگرم گروہ موجود ہے جو صرف چند لوگوں کے تئیں وفادار ہے۔ ایسا ان کے اپنی وجوہات یا ذاتی مفادات کے تحت ہو سکتا ہے۔ یہ مودی کا سوال نہیں ہے۔ تاریخ پر نگاہ ڈالیں ۔سردار پٹل کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ اسی گروپ نے سردار پٹیل کو ایک گاؤں کا سیدھا سیدھا آد می اور معمولی سوجھ بوجھ والا آدمی بنا کر پیش کیا تھا۔ مرارجی دیسائی کو دیکھیے، ان کے ساتھ کیاہوا تھا۔ اسی گروہ نے ان کی اہلیتوں اور حصولیابیوں کا کبھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس نے ہمیشہ یہ ذکر کیا کہ وہ کیا پیتے تھے؟ دیوے گوڑا کے ساتھ کیا ہوا؟ ایک کاشتکار کا بیٹا وزیر اعظم بن گیا پھر بھی انہوں نے یہ کہا کہ وہ صرف سوتا ہے۔ اور ازحد باصلاحیت امبیڈکر کے ساتھ کیا ہوا جس کی آج وہ ستائش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس کا مذاق بنایا۔ چودھری چرن سنگھ کے ساتھ کیا ہوا؟ انہوں نے ان کا مذاق اڑایا۔ لہٰذا مجھے کوئی تعجب نہیں کہ وہ میرا مذاق بناتے ہیں۔ یہ حضرات جو چند منختبہ لوگوں کے تئیں وفادار ہیں، کبھی بھی کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کریں گے جو ا س ملک کی جڑوں سے وابستہ ہوگا۔ لہذا میں اس گروہ پر توجہ مرکوز کرکے اپنا وقت برباد نہیں کر نا چاہتا۔ایک ارب افراد کی فلاح و بہبود میرا سب سے بڑا کام ہے اور میں اس معاملے میں کوئی ڈھیل نہیں دوں گا۔اگر میں اپنے آپ کو لٹین کی دہلی سے نہیں جوڑ پاتا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بہتر ہے کہ میں اس ملک کے ان نادار افراد کے ساتھ رہتا ہوں جو میری طرح ہیں۔
سوال : میڈیا کے حلقوں میں اکثر ایسا کہا جاتا ہےکہ مودی کی ریلیوں کے مطابق ٹی آر پی ریٹنگ نیچے ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود میڈیا کے ساتھ کڑوے میٹھے تعلقات رکھتے ہیں۔ میڈیا کے متعلق آپ کا کیا کہنا ہے؟
وزیر اعظم مودی: آج میں جہاں کہیں بھی ہوں، اس میں میڈیا نے ایک اہم تعاون دیا ہے۔ ہاں میں یہاں وہاں اپنی آواز کی ساؤنڈ بائٹ نہیں دیتا۔ میڈیا کو یہ شکایت بھی ہو سکتی ہے کہ مودی جی مسالے دار اور متنازع جملے نہیں کہتے ۔ یہ ایک حقیقی شکایت ہے۔ میں بیشتر اپنے کام میں مصروف رہتا ہوں اور میرا کام بولتا ہے۔ بہت لمبے عرصے سے میں تنظیمی کاموں میں مصروف تھا، لہٰذا میڈیا کی دنیا کے ساتھ میرے مضبوط دوستانہ تعلقات ہیں۔ ایک بھی ایسی میڈیا شخصیت نہیں ہے جس کے ساتھ میں نے چائے نہ پی ہو یا ہنسی مذاق نہ کیا ہو۔ میں ان میں سے متعدد کو ان کے نام سے جانتا ہوں۔ لہٰذا اس طرح کی توقعات فطری ہیں۔ بیشتر میڈیا نے بڑی شخصیات کو وزیر اعظم بنتے دیکھا ہے۔ مجھ جیسی شخصیت کو نہیں جس نے ان کے درمیان دوست کے طور پر وقت گزارا ہے۔
میڈیا اپنا کام کر رہا ہے اور اسے کرنا چاہئے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ میڈیا کو مضبوطی سے حکومت کے کاموں کی تنقید کرنی چاہئے۔ کیونکہ اس کے بغیر جمہوریت کام نہیں کرے گی۔ مگر بدقسمتی سے، اس ٹی آر پی کی چوہا دوڑ میں میڈیا کے پاس تحقیق کے لئے وافر وقت نہیں ہے۔ تحقیق کے بغیر تنقید ممکن نہیں ہے۔ دس منٹ کی تنقید کے لئے آپ کو دس گھنٹے کی تحقیق درکار ہوتی ہے۔ تنقید کی بجائے یہ الزام تراشی پر اتر آتا ہے۔ نتیجے میں جمہویرت کمزور ہوتی ہے۔ حکومتوں کو میڈیا تنقیدوں سے خوفزدہ ہونا چاہئے مگر یہ بات اب تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میڈیا حقائق کی بنیاد پر ازحد تنقیدی ہو۔ ملک کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ یہ بات صحیح ہے کہ میڈیا کی اپنی مجبوریاں ہیں، اسے ٹی آر پی دوڑ جیتنی ہے۔ لہٰذا مجھے خوشی ہے کہ کم از کم میں انکے لئے اس طریقے سے مفید ثابت ہو رہا ہوں۔ ٹی آر پی حاصل کرنے کے لئے میری ریلیوں سے زیادہ وہ مجھے گالی دینے والے لوگ پا جاتے ہیں۔
سوال: میڈیا کی طرح آپ بھی عدلیہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات رکھتے ہیں۔ کیوں؟
وزیر اعظم مودی: یہ قطعاً غلط تاثر ہے۔ یہ حکومت قاعدہ قانون اور آئین کے مطابق چلتی ہے۔ آئینی ادارے کے ساتھ کسی طرح کے تنازعے اور تناؤ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ عدلیہ کے ساتھ اتنی ہی گرمجوشی ہونی چاہئے جتنی آئینی حفظِ مراتب کے مطابق درکار ہے۔ میں اپنے طور پر اس حفظ مراتب کا لحاظ ہر ممکن طور پر رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
سوال: اب میں ، آپ سے چند ذاتی سوال پوچھنا چاہوں گا۔ آپ کی شبیہ ایک مضبوط رہنما کی ہے، تاہم چند مواقع پر آپ کی شخصیت کا جذباتی پہلو بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ عوام یہ جاننا چاہیں گے کہ آپ کس قسم کے انسان ہیں۔ ناظرین یہ جاننا چاہیں گے کہ اصل نریندر مودی کس طرح کا شخص ہے؟ یا مودی کے کردار کی بہت سے پرتیں ہیں۔
وزیر اعظم مودی: ایک بہادر سپاہی جو سرحد پر بہادری سے لڑتا ہے ا ور وہی سپاہی جب اپنی بچی کے ساتھ کھیلتا ہے تو ایک جیسے انداز میں برتاؤ نہیں کر سکتا۔ نریندر مودی، وہ جو کچھ بھی ہو، آخر کار ایک انسان ہے۔ مجھے اس کو دبانا یا چھپانا کیوں چاہئے جو میرے باطن میں ہے۔ میں وہ ہوں جو ہوں۔ لوگوں کو دیکھنے دیجئے وہ کیا دیکھتے ہیں۔ جہاں تک میرے فرائض اور ذمہ داریوں کا سوال ہے، تو مجھے انہیں اپنی بہترین اہلیتوں کے ساتھ پورا کرنا ہے۔ اگر مجھے ملک کے فائدہ کے لئے مضبوط فیصلے لینے ہیں تو مجھے وہ فیصلے لینے ہوں گے۔ اگر مجھے اس کے لئے سخت محنت کرنی ہے تو مجھے وہ محنت کرنی ہوگی۔ اگر مجھے جھکنا ہے تو میں جھکوں گا اگر مجھے تیز چلنا ہے تو میں تیز چلوں گا۔ تاہم یہ میرے کردار کے پہلو نہیں ہیں، یہ میری ذمہ داریوں کے جزو ہیں۔ اصل اور مجازی مودی کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ انسان انسان ہے۔ اگر آپ اپنا سیاسی چشمہ اتار دیں تو آپ کو اصل مودی نظر آئے گا۔ تاہم اگر آپ مودی کو پہلے سے قائم کیے گئے نظریات او ر خیالات کے زاویے سے دیکھنا جاری رکھیں گے تو یہ آپ کی غلطی ہوگی۔
سوال: مودی جی، میں آپ سے متعدد مرتبہ گاندھی نگر میں اور وزیر اعظم کے دفتر میں ملا ہوں، جب آپ وزیر اعلیٰ تھے۔ میں نے کبھی آپ کی میز پر کوئی فائل ، کوئی کاغذ یا فون تک نہیں دیکھا۔ ہماری میٹنگ کے دوران کسی نے بھی دخل اندازی نہیں کی۔ آپ ایک چیف ایگزیکیوٹو افسر کی طرح کام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ سنتے زیادہ اور بولتے کم ہیں۔ آپ کے کام کرنے کا انداز کیا ہے؟
وزیر اعظم مودی: آپ نے صحیح مشاہدہ کیا ہے۔ میری شبیہ اس طرح بنا کر پیش کی گئی ہے کہ جیسے میں سنتا نہیں صرف بولتا ہوں۔ دراصل میں کافی سنتاہوں اور بہت کچھ مشاہدہ کرتا ہوں۔ بطور ایک شخص کے میری نشو و نما ایسی ہوئی ہے۔ میں نے اس سے کافی استفادہ کیا ہے۔ میں کام کرنے کا رسیا ہوں تاہم بنیادی طور پر میں حال میں رہنا پسند کرتا ہوں۔ اگر آپ مجھ سے ملنے آئے ہیں تو میں میٹنگ میں مصروف ہو جاؤ ں گا۔ میں فون نہیں چھوؤگا، نہ کاغذ چھوؤں گا اور میں اپنی توجہ نہیں ہٹاتا۔ جب میں فائلیں دیکھتا ہوں تو میں ان میں کھو جاتا ہوں، ڈوب جاتا ہوں۔ میں ہر لمحہ حال میں جیتا ہوں۔ جو شخص بھی مجھ سے ملتا ہے وہ ہمیشہ اس امر سے مطمئن رہتا ہے کہ میں نے اسے سننے کے لئے پورا وقت دیا ہے۔
دوسری بات، آدمی کو اپنے کام کے ساتھ انصاف کرنا چاہئے۔ اور میں نے ہمیشہ یہی کیا ہے۔ آدمی کو ہمیشہ سیکھنا اور سمجھنا چاہئے۔ انسان میں اتنی جرأت ہونی چاہئے کہ وہ ان خیالات سے چھٹکارہ حاصل کرسکے جو برسوں قبل مفید تھے، مگر اب ان کی افادیت برقرار نہیں رہی۔ انسان میں اتنی جرأت ہونی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو بدل سکے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ میں نے اپنے کام کاج کا طرز وضع کیا ہے۔
سوال: آپ کے کام کاج کے اوقات سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کے ہیں۔ آپ آرام کیسے کرتے ہیں۔
وزیر اعظم مودی : میں کام کے ذریعہ ہی آرام کرتاہوں۔ میں کام کرنے سے کبھی نہیں تھکتا۔ بلکہ اس کے برعکس صورتِ حال مجھے تھکا دیتی ہے۔ اگر آپ کو دس خطوط لکھنے ہیں اور آپ دو خطوط لکھنے کے بعد تھکا ہوا محسوس کرنے لگیں، تاہم اگر آپ نے دس خطوط لکھنے کا کام مکمل کر لیا اور درمیان میں کھانے کو نظر انداز کیا کیونکہ آپ کو محسوس ہوتا ہےکہ آپ کا کام مکمل ہو گیا۔ اصل میں ہم کام کرنے سے نہیں تھکتے۔ اور کام آپ کو اطمینان بخشتا ہے۔ یہی اطمینان آپ کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ میں نے ہمیشہ یہی محسوس کیا ہے اور اپنے نوجوان دوستوں کو یہی بتایا ہے۔ تھکان، زیادہ تر ایک نفسیاتی احساس ہے۔ ہر کسی میں کام کی مقدار کے مطابق یکساں اہلیت ہوتی ہے۔ آپ نئی چنوتیاں قبول کرتے رہیں اور آپ کا ضمیر آپ کو ہمیشہ قوت دے گا۔یہ قدرتی بات ہے۔
سوال: اپنی زندگی میں آپ کن کلیدی عناصر سے متاثر ہوئے ہیں؟
وزیر اعظم مودی: میرے گاؤں کا تعلق ریاست گائکواڑ سے تھا اور ایک بچے کے طور پر میں نے اس ماحول سے بہت کچھ حاصل کیا۔ گائکواڑ حکمران کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر گاؤں میں کتب خانے اور پرائمری اسکول تعمیر کرواتا تھا۔ میں نے اس اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ مجھے کتب بینی کا شوق ہو گیا۔ اب مطالعے کا وقت نہیں ملتا۔ ان کتابوں نے ایک گوناں اثر ڈالا۔ بارہ برس کی عمر سے میں نے تقریری مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ میں وویکانند کے مقولے پسند کرتا تھا۔ اور ان کا اندازِ بیان بھی مجھے بہت پسند تھا۔ میں نے ہندی زبان میں دلچسپی پیدا کی تھی۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ وویکانند کے نظریات نے مجھ پر کافی اثر ڈالا ہے۔
سوال: نریندر مودی بھارتی تاریخ میں اپنے آپ کو کہاں رکھا جانا پسند کرے گا؟
وزیر اعظم مودی:ایک ایسا شخص جو حال میں جینا پسند کرتا ہے، اسے تاریخ کی فکر کیوں ہونی چاہئے؟ انسان کو اپنی زندگی میں ایسی غلطی کبھی نہیں کرنی چاہئے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکومتیں، سیاسی پارٹیاں، رہنماؤں نے ہمیشہ اس بات کے لئے سخت جدو جہد کی ہے کہ وہ اپنی ایک شبیہ بنائیں۔ ہم نے اپنے آپ کو اپنے ملک کی تعمیر کے لئے اپنے کو وقف کیا ہےیا اپنی شبیہ بنانے کےلئے؟ اس ملک کی شبیہ 1.25 ارب افراد کی لامتناہی وراثت ہے۔ مودی 1.25 ارب ہندوستانیوں میں سے ایک ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مودی کی شناخت 1.25 ارب بھارتیوں میں ضم ہو جانی چاہئے۔ میرے لئے اس سے زیادہ خوشگوار اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ مودی تاریخ کے صفحات میں گم ہو جائے۔
مودی جی ، مجھے اپنا وقت دینے کے لئے آپ کا بیحد شکریہ۔ یہ میرا اولین ٹی وی انٹرویو ہے اور یہ میرے لئے اعزاز اور فخر کی بات ہے کہ میں نے یہ انٹرویو وزیر اعظم سے کم کی شخصیت کا نہیں لیا۔
وزیر اعظم مودی: آپ مالی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر بھی آپ نے ایک سیاسی انٹرویو لیا ہے۔ مجھے آپ کی خود اعتمادی پسند آئی۔ میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور آپ اچھا کام کرتے رہیں۔.
آپ برائے مہربانی ہمیں انٹرویو دیتے رہیں۔۔۔
وزیر اعظم مودی: صرف سیاستدانوں کا ہی انٹرویو کیوں لیں، بہت سے دیگر شعبوں کے لوگ ہیں جن کے انٹرویو لیے جا سکتے ہیں۔ انتخابات کے دوران، رپورٹر حضرات آپ کے سونے کے کمرے سے شوٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ناشتے وغیرہ کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ تاہم ان میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ آپ کے کھلاڑیوں نے کتنا ایثار کیا ہے۔ سیاستدانوں پر وقت برباد کرنے کے بجائے ہمیں اپنے کھلاڑیوں پر زیادہ وقت صرف کرنا چاہئے۔ وہ کس طرح اپنے کھانے پینے پر کنٹرول رکھتے ہیں ، کب سوتے ہیں اور ہارنے کے بعد بھی کس طرح اپنے مقصد سے وابستہ رہتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو یہ قربانیاں دکھائی جانی چاہئیں۔ میں چاہوں گا کہ آپ کا چینل ریو ٹکڑیوں میں سے تیس کھلاڑیوں کا انتخاب کرے اور ان کی زندگی کی کہانی پیش کرے۔ اسی طریقے سے ہم اس اندازِ فکر کو بدل سکتے ہیں جس انداز سے ہم اپنے کھلاڑیوں کو دیکھتے ہیں۔ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ سیاست کے علاوہ دیگر بہت ساری شخصیت ایسی ہیں جن کا انٹرویو لیا جانا چاہئے۔