سانسد گرام یوجنا کے آغاز کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا ایک بڑ ا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہماری ترقی کا ماڈل سپلائی پر مبنی تھا۔ لکھنؤ، گاندھی نگر یا دہلی میں اسکیم تیار کی جاتی ہے پھر اسے نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم آدرش گرام کے ذریعہ اس ماڈل کو سپلائی پر مبنی ماڈل کے بجائے ضرورت پر مبنی ماڈل بنانا چاہتے ہیں۔ گاؤں سے ہی مانگ ابھر کر آنی چاہئے۔ اس کے لئے ہمیں اپنا ذہن بدلنا ہوگا۔ ہمیں لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔عام طور پر، سانسد یعنی رکنِ پارلیمنٹ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ گاؤں میں آئیں گے۔ وہاں کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہوگی۔ یہ ایک کنبے کی طرح ہوگا۔ گاؤں کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ لیا جائے گا۔ اس سے نئی توانائی کی ترسیل ہوگی اور گاؤں کو متحد کرے گی۔‘‘
سانسد آدرش گرام یوجنا (ایس۔ اے۔ جی۔ وائی) کا مبارک آغاز ۱۱ اکتوبر ۲۰۱۴ کو کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد ایک مثالی بھارتی گاؤں کے بارے میں مہاتما گاندھی کے وسیع تصور کو موجودہ پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک حقیقی شکل دینا تھا۔ ایس اے جی وائی کے تحت ہر ایک رکن پارلیمنٹ ایک گرام پنچایت کو گود لیتا ہے اور سماجی ترقی کو اہمیت دیتے ہوئے اس کی مجموعی ترقی کی راہ دکھاتا ہے جو بنیادی ڈھانچے کے برابر ہو۔ ’’مثالی گاؤں‘‘ کو مقامی ترقی اور عمدہ حکمرانی کا ادارہ ہونا چاہئے جو دیگر گرام پنچایتوں کو ترغیب دے۔
گاؤں کے باشندگان کو شامل کرکے اور سائنٹفک ذرائع کے فوائد حاصل کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ کی قیادت میں ایک دیہی ترقیاتی اسکیم تیار کی جاتی ہے۔ اس کے بعد وسیع پروجیکٹ رپورٹ تیار کی جاتی ہے اور محکموں کے ذریعہ ریاستی حکومتوں کو ارسال کی جاتی ہے۔ ریاستی سطح کی بااختیار کمیٹی (ایس۔ ایل۔ ای۔ سی) تجزیہ کرتی ہے، تبدیلی کی تجویز رکھتی ہے اور وسائل کی ترجیحاتی تخصیص کرتی ہے۔ اب تک ایس۔ اے۔ جی۔ وائی گرام پنچایت پروجیکٹوں کو ترجیح دینے کے لئے ۲۱ اسکیموں کو حکومت ہند کی مختلف وزارتوں / محکموں نے ترمیم کے عمل سے گذارا ہے۔
ضلعی سطح پر، رکن پارلیمنٹ کی قیادت میں ہر ایک گرام پنچایت کے لئے ماہانہ تجزیاتی میٹنگوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مندوب محکموں کے نمائندگان کی موجودگی میں ہر ایک پروجیکٹ کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور پیش رفت کی اطلاع ریاستی حکومت کو دی جاتی ہے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ ہر ایک رکن پارلیمنٹ ۲۰۱۶ تک ایک ماڈل گرام پنچایت کی ترقی میں سرکردہ کردار ادا کرے گا، اس کے بعد سال ۲۰۱۹ تک دو اور سال ۲۰۲۴ تک اور پانچ کا۔ پورے ملک میں اب تک ۶۹۶ گرام پنچایتوں کو اراکین پارلیمنٹ کے ذریعہ گود لیا گیا ہے۔
ہر ایک ضلع کلکٹر نے زیادہ تجربہ رکھنے والے ایک چارج آفیسر کو نامزد کیا ہے جو مقامی سطح پر نفاذ کے عمل میں تال میل پیدا کرے گا اور مکمل طور پر ذمہ دار ہوگا۔ دیہی ترقیاتی وزارت نے پورے ملک میں نو (۹) علاقائی مقامات پر ۶۵۳ چارج افسروں کے لئے تربیتی پروگراموں کا اہتمام کیا ہے۔ دیہی ترقیات کی وزارت نے مؤرخہ۲۴–۲۳ ستمبر ۲۰۱۵ کو، بھوپال میں، ایک قومی ورکشاپ کا اہتمام کیا جس میں اراکین پارلیمنٹ ، ریاستی حکومتوں، ضلع کلکٹر، تمام ریاستوں کے گرام پردھانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ دیہی ترقیات کی وزارت کی قومی سطح کی کمیٹی کے ذریعہ منتخب اچھے طریقہ ٔ ہائے کار کو وسیع نمائش کے ذریعہ پیش کیا گیا تاکہ اسی طرح کے اچھے طریقۂ ہائے کار کو ایس۔ اے۔ جی۔ وائی گرام پنچایتوں میں اپنایا جا سکے۔ ایس۔ اے۔ جی۔ وائی گرام پنچایتوں کی ترقی کی نگرانی کرنے کے لئے وزارت نے ’پنچایت درپن‘ کے طور پر ۳۵ اشاریے بھی وضع کیے ہیں۔
کامیابی کی کچھ داستانیں:
گرام۔ لادیرواں، بلاک۔ تریہگام، ضلع۔ کپواڑہ، جموں و کشمیر میں لوگوں کا اہم پیشہ زراعت ہے۔ سائنٹفک زراعت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ۳۷۹ کاشتکاروں کے موبائل نمبروں کو کرشی وگیان کیندر (کے۔ وی۔ کے) سے جوڑا گیا ہے۔ کے۔ وی۔ کے، ایس۔ ایم۔ ایس پیغام کے ذریعہ موسم کی پیشن گوئی کی اطلاع بہم پہنچاتا ہے اور پیداوار کے نازک مرحلو ں میں مخصوص فصلوں کے لئے سفارش کردہ پیکیج کی اطلاع بھی دیتے ہیں۔ جناب مظفر حسین بیگ، رکن پارلیمنٹ کی رہنمائی میں اس کا بیڑہ اٹھایا گیا ہے۔ نتیجے کے طور پر کاشت کاروں کو اپنے موبائل فون پر باقاعدہ زرعی مشورے حاصل ہوتے ہیں۔ ان میں سائنٹفک طریقے سے فصل کی بوائی کا طریقہ، مٹی کی جانچ، فصل کا تحفظ، زراعت سے متعلق طریقے، فصل کٹنے کے بعد کی تکنالوجیوں اور بازار کی اطلاعات سے متعلق اہم پیغامات شامل ہیں۔ یہ لوگوں کو فصل اگانے اور اپنی زرعی پیداوار کی فروخت کے سلسلے میں غیر رسمی فیصلے لینے کا اہل بناتا ہے۔
شو گنگا ضلع تمل ناڈو میں واقع ماروا منگلم کو آدرش گرام کی شکل میں ڈاکٹر ای۔ ایم۔ سدرشن نچی اَپّن، رکن (راجیہ سبھا) کے ذریعہ منتخب کیا گیا۔ رکن پارلیمنٹ نے اصلاح اور دیہات میں روزی روٹی کے حصول کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ممکنہ شعبوں کی شناخت کی۔ متعلقہ برادریوں کے لئے کوائر، چمڑہ اور ناریل کی تربیت وضع کی گئی اور حوصلہ افزائی کی گئی۔ ضلعی انتظامیہ اور الگپا یونیورسٹی کے تعاون سے رکن پارلیمنٹ نے متعدد بیداری پروگراموں کا اہتمام کیا۔ کوائر بورڈ آف انڈیا، کوکونٹ ڈیولپمنٹ بورڈ آف انڈیا اور سینٹرل لیدر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے انہوں نے سوشلسٹ تربیتی شراکت داروں کو بھی شامل کیا۔
دو مہینوں کے کوائر ٹریننگ پروگرام کے لئے انہوں نے تربیتی اداروں سے رابطہ قائم کیا۔ اس کا مقصد کامیاب صنعت کار بنانے کے لئے لوگوں کو تربیت دینا تھا۔ تربیتی پروگراموں میں کوائر تربیت کے لئے ۱۲۰ خواتین ، ۱۱۲ افراد کو چمڑہ تربیت اور ۲۷ مردوں کو ناریل تربیت کے لئے شامل کیا گیا۔ تربیت پوری ہونے کے بعد کامیاب تربیت یافتہ افراد کو مالی امداد فراہم کرنے کے لئے ضلع انتظامیہ اور ٹرینڈ شراکت داروں کے ذریعہ پوری کوشش کی جائے گی جس سے کہ وہ خود کی سماجی صنعت شروع کر سکیں اور اپنا گزر بسر کر سکیں۔
جناب بدیوت برن مہتو، رکن پارلیمنٹ نے گود لئے بانگوردا گاؤں پنچایت کے لئے محسوس کیا کہ مشرقی سنگ بھوم، جھارکھنڈ کے دور دراز اور دشوار گزار مقامات میں بچیوں کی صحت اور صفائی ستھرائی کے معاملے میں ناقابل ذکر کوششیں کی گئی ہیں۔ خون کی کمی اور دیگر امراض بطور خاص خواتین اور نوجوان لڑکیوں میں زیادہ تھی۔ اس کے حل کے لئے نوخیز لڑکیوں کو خاص طور سے مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے کئی صحت سے متعلق کیمپوں کا اہتمام کیا۔ ان صحت کے کیمپوں کا اہتمام کستوربہ گاندھی بالکام ودیالیہ میں کیا گیا اور یہاں ۱۸۸ نوخیز لڑکیوں کی جانچ کی گئی۔ نتیجے کے طور پر خواتین سے متعلق امراض، پیشاب کی نلی میں چھوت اور چمڑی کے امراض کا شکار کئی لڑکیاں پائی گئیں جنہیں وہ اب تک معاشرتی۔ ثقافتی پابندیوں کی وجہ سے دباتی آئی تھیں۔
یہ بھی پایا گیا کہ ان میں سے کئی بیماریاں غیر صحت مند اندازِ حیات اور گندے ماحول کی وجہ سے لاحق ہوئی تھیں۔ نوخیز لڑکیوں اور خواتین میں ذاتی صفائی ستھرائی کے معاملے میں بیداری پیدا کرنے کے لئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہ طویل المدت اقدامات ہوں گے جنہیں موضع میں باقاعدہ طور سے عمل میں لایا جائے گا۔