جناب لال بہادر شاستری ۲؍ اکتوبر ۱۹۰۴کو مغل سرائے میں پیدا ہوئے تھے جو اترپردیش میں وارانسی سے سات میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا ریلوے ٹاؤن ہے۔ ان کے والد ایک اسکول ٹیچر تھے جن کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب لال بہادر شاستری محض ڈیڑھ برس کے تھے۔ ان کی ماں اس وقت اپنی عمر کی دوسری دہائی میں تھیں، وہ اپنے تینوں بچوں کو لے کر اپنے والد کے گھر لوٹ گئیں اور وہیں رہائش پذیر ہو گئیں۔
لال بہادر شاستری کی اسکولی تعلیم ایک چھوٹے سے قصبے میں ہوئی جو کسی طریقے سے قابل ذکر نہیں ہے، تاہم اپنی ناداری کے باوجود ان کا بچپن خوشیوں سے معمور رہا۔
انہیں وارانسی اس غرض سے بھیجا گیا کہ وہ اپنے چچا کے ساتھ رہ کر آگے کی تعلیم حاصل کر سکیں۔ انہیں گھر میں ’ننھے‘ یا چھوٹو کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ انہیں سخت گرمی کے موسم میں جب گلیاں گرمی کی تپش سے تپ رہی ہوتی تھیں، بغیر جوتوں کے کئی میل پیدل چل کر جانا پڑتا تھا۔
جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے گئے، ویسے ویسے غیر ملکی غلامی سے آزاد ہونے کی جدوجہد میں ان کی دلچسپی بڑھتی گئی۔ وہ مہاتما گاندھی کے بھارتی دیسی راجاؤں کے ذریعہ بھارت میں برطانوی حکومت کی حمایت کے عمل کی مذمت سے بہت متاثر تھے۔ لال بہادر شاستری اس وقت صرف گیارہ برس کے تھے، تاہم وہ عمل جسے آخر کار انہیں قومی منظرنامے پر لے جانے والا تھا،اپنا کام شروع کر چکا تھا۔
لال بہادر شاستری کی عمر سولہ برس تھی جب گاندھی جی نے اہل وطن کو تحریک عدم تعاون میں شریک ہونے کا نعرہ دیا۔ انہوں نے مہاتما کی دعوت پر، فوری طور پر اپنی تعلیم ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے اس فیصلے نے ان کی ماں کے خوابوں کو چکناچور کر دیا۔ تاہم ان کا کنبہ انہیں ان کے اس فیصلے سے باز نہیں رکھ سکا۔ ان کے کنبے کا خیال تھا کہ یہ راستہ تباہ کن ہوگا۔ تاہم لال بہادر نے اپنا ذہن بنا لیا تھا۔ جو لوگ بھی ان سے قریب تھے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ایک مرتبہ جب وہ کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں تو پھر اسے کبھی نہیں بدلتے کیونکہ ان کے نرم ظاہر کے پیچھے ان کی شخصیت میں ایک چٹان جیسا پکا ارادہ مضمر تھا۔
لال بہادر شاستری نے برطانوی اقتدار کے برخلاف قائم کیے گئے متعدد قومی اداروں میں سے ایک ادارے یعنی وارانسی کے کاشی ودیا پیٹھ میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہاں وہ ملک کے عظیم ترین دانشوروں اور قوم پرستوں کے زیر اثر آئے۔ ودیا پیٹھ کے ذریعہ انہیں ’شاستری‘ کی بیچلر ڈگری تفویض کی گئی، تاہم یہ نام عوام کے ذہن میں ان کے نام کا حصہ بن کر محفوظ ہو گیا۔
۱۹۲۷ میں ان کی شادی ہوگئی۔ ان کی اہلیہ للیتا دیوی کا تعلق ان کے وطن مالوف کے نزدیک واقع مرزا پور سے تھا۔ یہ شادی ہر لحاظ سے روایتی انداز کی تھی صرف ایک فرق کے ساتھ کہ ایک چرخہ اور ہاتھوں سے بنا ہوا چند گز کپڑا کل جہیز کی شکل میں ملا تھا۔ دولہے کو اس سے زیادہ کچھ بھی قبول نہیں تھا۔
۱۹۳۰ میں مہاتما گاندھی نے ڈانڈی میں ساحل سمنرر کا سفر طے کرکے سامراجی نمک قانون توڑا۔ اس علامتی قدم نے پورے ملک کو بیدار کر دیا۔ لال بہادر شاستری نے پوری قوت کے ساتھ اپنے آپ کو جدو جہد آزادی کے لئے وقف کر دیا۔ انہوں نے متعدد احتجاجی مہمات کی قیادت کی اور مجموعی طور پر سات سال برطانوی جیلوں میں بسر کیے۔ اسی آگ میں تپ کر ان کی مزاج سازی ہوئی اور وہ ایک بالغ النظر شخص بن گئے۔
جب آزادی کے بعد کانگریس برسر اقتدار آئی تو ظاہری طور پر نرم مزاج اور سادہ شخصیت لال بہادر شاستری کو پہلے ہی قومی جدوجہد کے رہنماؤں کے طور پر تسلیم کیا جا چکا تھا۔ جب ۱۹۴۶ میں کانگریس حکومت قائم ہوئی تو ’منحنی قد کے اس مخزن قوت‘ کو ملک کی حکمرانی میں مثبت کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انہیں ان کی اپنی ریاست اترپردیش میں پارلیمانی سکریٹری کا عہدہ سونپا گیا اور جلد ہی وہ وزیر داخلہ کے عہدے پر پہنچ گئے۔ سخت محنت کی ان کی صلاحیت اور اثر انگیزی اترپردیش میں ایک مثال بن گئی۔ وہ ۱۹۵۱ میں دہلی منتقل ہو گئے اور مرکزی کابینہ میں متعدد قلم دان ہائے وزارتوں پر خدمات انجام دیں۔ وزیر ریلوے، نقل و حمل و مواصلات کے وزیر، تجارت و صنعت کے وزیر، وزیر داخلہ اور نہرو کی علالت کے دوران وزیر بے قلم دان رہے۔ ان کا سیاسی قد لگاتار بلند ہو رہا تھا۔ انہوں نے بطور وزیر ریلوے اس وقت استعفی دے دیا جب انہوں نے ایک ریلوے حادثے کے لئے خود کو ذمہ دار محسوس کیا جس میں بہت سی زندگیاں تلف ہو گئی تھیں۔ اس غیر معمولی قدم کو پارلیمنٹ اور ملک نے بڑی ستائش کی نظر سے دیکھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے اس واقعے کے سلسلے میں پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے لال بہادر شاستری کی دیانت داری اور بلند خیالات کی بڑی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان کا استعفی صرف اس لئے قبول کر رہے ہیں کہ وہ آئینی ذمہ داری نبھانے کی ایک مثال قائم کرے گا نہ کہ اس لئے کہ لال بہادر شاستری کسی بھی طریقے سے اس واقعہ کے لئے ذمہ دار ہیں جو وقوع پذیر ہوا ہے۔ ریلوے کے اس حادثے پر منعقد ہوئے طویل مباحثے کا جواب دیتے ہوئے لال بہادر شاستری نے کہا کہ ’’شاید میرے پستہ قد اور نرم گو ہونے کی وجہ سے لوگوں کو لگتا ہے کہ میں کسی معاملے میں مستحکم ہونے کا ثبوت نہیں دے سکتا۔ اگرچہ میں جسمانی طور پر مضبوط نہیں ہوں تاہم میرے خیال سے میں داخلی طور پر اتنا کمزور بھی نہیں ہوں۔‘‘
دریں اثنا وہ اپنی وزارتی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ وہ اپنی تنظیمی صلاحیتوں کو کانگریس پارٹی کے معاملات میں بروئے کار لاتے رہے۔ ۱۹۵۲ کے عام انتخابات میں پارٹی کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ ۱۹۵۷ اور ۱۹۶۲ میں ان کی تنظیمی اہلیت باقاعدہ طور پر ابھر کر سامنے آئی اور یہی ان کی مکمل شناخت بن گئی۔
لال بہادر شاستری کے پیچھے تیس برس سے زائد کی مبنی بر لگن خدمات تھیں۔ اس مدت کے دوران انہیں دیانت داری اور اہلیت کی حامل عظیم شخصیت کے طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ منکسر المزاج، روادار، داخلی قوت سے مالامال، فیصلہ لینے کے اہل، وہ ایک عوامی شخصیت تھے جنہیں عوام کی زبان اچھی طرح سمجھ میں آتی تھی۔ وہ ایک صاحب بصیرت رہنما تھے جنہوں نے ملک کو ترقی کی جانب گامزن کیا۔ لال بہادر شاستری، مہاتما گاندھی کی سیاسی تعلیمات سے بہت متاثر تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا کہ ’’سخت محنت عبادت کے برابر ہے۔‘‘ اس میں ان کے سرپرست کے خیالات کی جھلک ملتی ہے۔ مہاتما گاندھی کے سمت میں ہی لال بہادر شاستری نے بھارتی ثقافت میں بہترین نمائندگی کی مثال پیش کی۔