Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

جناب راجیو گاندھی

۳۱؍ اکتوبر ۱۹۸۴ - ۲؍ دسمبر ۱۹۸۹ | کانگریس (آئی)

جناب راجیو گاندھی


۴۰ برس کی عمر میں وزیر اعظم بننے والے جناب راجیو گاندھی بھارت کے سب سے کم عمر وزیر اعظم تھے اور غالباً دنیا کے ان نو عمر سیاست دانوں میں سے ہیں جنہوں نے حکومت کی رہنمائی کی۔ ان کی والدہ محترمہ اندرا گاندھی جب ۱۹۶۶ میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنیں، اُس وقت وہ عمر کے لحاظ سے جناب راجیو گاندھی سے آٹھ سال بڑی تھیں۔ ان کے نانا جان، عالی مرتبہ جناب پنڈت جواہر لال نہرو، ۵۸ برس کے تھے جب وہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم بنے اور ۱۷ برس کے لمبے عرصے تک اس عہدے پر فائز رہے۔

نسلی تبدیلی کے پیشوا رہے جناب گاندھی کو ملک کی تاریخ میں سب سے بڑا مینڈیٹ ملا تھا۔ اپنی والدہ کے قتل کے غم سے اُبھرنے کے بعد انہوں نے لوک سبھا کے لئے انتخاب کرانے کا حکم دیا۔ اس انتخاب میں کانگریس کو گذشتہ سات انتخابات کے مقابلے میں زیادہ تناسب میں ووٹ ملے اور پارٹی نے ۵۰۸ میں سے ریکارڈ ۴۰۱ نشستیں حاصل کیں۔

۷۰۰ کروڑ بھارتیوں کے لیڈر کے طور پر اس طرح کا شاندار آغاز کسی بھی صورتِ حال میں غیر معمولی مانا جاتا ہے۔ یہ کارکردگی اس لئے بھی منفرد مانی جاتی ہے کیونکہ وہ اس سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کی چار نسلوں نے جدوجہدِ آزادی کے دوران اور بھارت کی آزادی کے بعد ملک کی خدمت انجام دی تھی، اس کے باوجود جناب گاندھی سیاسی میدان میں اپنی آمد کے تعلق سے دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز بھی کافی دیر سے کیا۔

جناب راجیو گاندھی ۲۰ اگست ۱۹۴۴ کو بمبئی میں پیدا ہوئے۔ وہ اس وقت محض تین برس کے تھے جب بھارت کو آزادی ملی اور ان کے نانا جان ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ ان کے والدین لکھنؤ سے دہلی آکر بس گئے تھے۔ ان کے والد فیروز گاندھی نے رکن پارلیمنٹ بن کر ایک بہادر اور جفاکش رکن کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔

جناب راجیو گاندھی نے اپنے بچپن کا ابتدائی زمانہ اپنے نانا کے ساتھ تین مورتی ہاؤس میں گزارا، جہاں اندرا گاندھی، وزیر اعظم کی میزبان کی حیثیت سے فرائض انجام دیتی تھیں۔ انہوں نے مختصر وقفے کے لئے دہرادون کے ویلہم اسکول میں تعلیم حاصل کی، لیکن جلد ہی انہیں ہمالیائی تلہٹی میں رہائشی دون اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ یہاں ان کے کئی دوست بنے جن سے ان کی تاعمر دوستی قائم رہی ۔ ان کے چھوٹے بھائی سنجے کو بھی اسی اسکول میں بھیجا گیا جہاں دونوں ساتھ رہے۔

اسکول سے نکلنے کے بعد جناب گاندھی کیمبرج کے ٹرینٹی کالج گئے، لیکن جلد ہی وہ وہاں سے نکل کر لندن کے امپیرئیل کالج میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے وہاں سے میکینکل انجینئیرنگ کی تعلیم حاصل کی۔

یہ تو ظاہر تھا کہ سیاست میں اپنا کیرئیر بنانے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کے ہم جماعتوں کے مطابق، ان کی کتابوں کی الماری میں فلسفے، سیاست یا تاریخ کی بجائے سائنس اور انجینئیرنگ سے متعلق کتابیں پائی جاتی تھیں۔ حالانکہ موسیقی میں ان کی خاصی دلچسپی تھی۔ وہ مغربی اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے علاوہ جدید موسیقی کے بھی دلدادہ تھے۔

فضائی پرواز ان کا سب سے بڑا شوق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انگلینڈ سے واپسی کے بعد انہوں نے دہلی فلائنگ کلب کے داخلے کا امتحان پاس کیا اور تجارتی پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا۔ جلد ہی وہ گھریلو قومی ہوائی جہاز کمپنی، انڈین ایئرلائنز کے پائلٹ بن گئے۔

کیمبرج میں ان کی ملاقات اطالوی سونیا مینو سے ہوئی جو وہاں انگریزی کی تعلیم حاصل کر رہیں تھی۔۱۹۶۸ میں دونوں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ وہ اپنے دونوں بچوں، راہل اور پرینکا، کے ساتھ، نئی دہلی میں، محترمہ اندراگاندھی کی رہائش گاہ میں قیام پذیر رہے۔ آس پاس کی سیاسی سرگرمیوں سے الگ وہ اپنی نجی زندگی جیتے رہے۔

لیکن ۱۹۸۰ میں ان کے بھائی سنجے کی ہوائی حادثے میں موت کے بعد صورتِ حال یکسر تبدیل ہوگئی۔ ان پر سیاست کے میدان میں داخل ہونے اور اپنی والدہ کا ہاتھ بٹانے کے لئے دباؤ بڑھنے لگا۔ اس کے علاوہ داخلی اور باہری مسائل کا بھی سامنا تھا۔ ابتداء میں انہوں نے اس کی مخالفت کی لیکن بعد میں سیاسی میدان میں داخل ہونے کے لئے راضی ہوگئے۔ انہوں نے اپنے بھائی کی وفات کی وجہ سے اترپردیش کے امیٹھی حلقے کی لوک سبھا نشست کا ضمنی انتخاب جیتا۔

نومبر ۱۹۸۲ میں جب بھارت نے ایشین گیمز کی میزبانی کی، اس وقت اسٹیڈیم کی تعمیر اور دیگر ڈھانچہ جاتی سہولیات فراہم کرانے کے عزم کو پورا کیا۔ جناب گاندھی کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ سارے کام وقت پر مکمل ہوں اور بنا کسی رخنے اور خامیوں کے کھیلوں کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے۔ اس مشکل کام کی تکمیل میں، انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور بہتر تعاون کا مظاہرہ پیش کیا۔ اسی مدت کے دوران، کانگریس کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے، اپنی اسی صلاحیت و خوبی کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے پارٹی کو منظم اور فعال بنایا۔ آگے آنے والے سخت اور مشکلوں سے بھرے دنوں میں ان کی یہ خوبیاں مزید سامنے آئیں۔

جناب گاندھی سے زیادہ غمگین اور سخت حالات میں کوئی حکمراں نہیں بن سکتا تھا جب ۳۱ اکتوبر، ۱۹۸۴ کو اپنی والدہ محترمہ کے ظالمانہ قتل کے بعد انہیں کانگریس کا صدر اور ملک کا وزیر اعظم بننا پڑا۔ لیکن اپنی نجی زندگی میں غمگین ہونے کے باوجود انہوں نے غیر معمولی اعتدال، وقار اور شعور کے ساتھ قومی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا۔

ایک ماہ طویل انتخابی مہم کے لئے، جناب گاندھی نے بغیر کسی تھکان کے ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے، یعنی زمینی قطر کے ڈیڑھ گنا کے برابر، کا سفر طے کیا، ۲۵۰ مجالس سے خطاب کیا اور لاکھوں لوگوں سے آمنے سامنے ملاقات کی۔

مزاج سے سنجیدہ لیکن روشن خیال اور فیصلہ لینے کی غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے جناب گاندھی ملک کو دنیا کی اعلیٰ ترین تکنالوجی سے آراستہ کرنا چاہتے تھے اور جیسا کہ انہوں نے کئی مرتبہ زکر کیا تھا کہ بھارت کی یکجہتی کو بنائے رکھنے کے علاوہ ان کے دیگر اہم مقاصد میں سے ایک ہے – اکیسویں صدی کے بھارت کی تعمیر۔