عوام میں مقبول، اٹل بہاری واجپئی اپنے مضبوط سیاسی عقائد کے لئے جانے جاتے ہیں۔ ۱۳؍اکتوبر، ۱۹۹۹ کو انہوں نے نئی مخلوط حکومت‘قومی جمہوری اتحاد’ کے رہنما کے طور پر لگاتار دوسری میعاد کے لئے بھارت کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔۱۹۹۶ میں وہ کچھ مدت کے لئے وزیر اعظم بنے تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد وہ پہلے ایسے وزیر اعظم ہیں جو لگاتار دو مرتبہ منتخب کیے گئے۔
جناب اٹل بہاری واجپئی، ایک سینئر رکن پارلیمان جن کا سیاسی کرئیر چار دہائیوں پر محیط ہے، لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کے لئے نو (۹)اور راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) کے لئے دو(۲) مرتبہ منتخب ہوئے، جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔
وزیر اعظم نے، وزیر خارجہ، پارلیمنٹ کی مختلف اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئر پرسن اور اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے آزادی کے بعد کے بھارت کی داخلی اور خارجی پالیسی کو نئی شکل دینے میں سرگرم شراکت داری نبھائی۔۔
جناب واجپئی کا قوم پرست سیاست میں پہلی مرتبہ داخلہ اس وقت ہوا جب ۱۹۴۲ میں وہ بھارت چھوڑو تحریک میں شامل ہوئے جو بالآخر برطانوی استعمار کے خاتمے کا باعث بنی۔ وہ پولیٹکل سائنس اور قانون کے طالب علم تھے۔ کالج کے دنوں میں ہی ان کی دلچسپی داخلی امور میں بڑھی۔ انہوں نے اپنی اس دلچسپی کو برسوں تک پروان چڑھایا اور وہ کثیر جہتی اور باہمی پلیٹ فارموں پر بھارت کی نمائندگی کرتے ہوئے اس شوق کو بڑی مہارت کے ساتھ بروئے کار لائے۔
جناب واجپئی نے صحافی کے طور پر اپنے کرئیر کا آغاز کیا جو انہیں ۱۹۵۱ میں بھارتیہ جن سنگھ میں شامل ہونے کے بعد چھوڑنا پڑا۔ آج کی بھارتی جنتا پارٹی کو پہلے بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے جانا جاتا تھا، جو کہ قومی جمہوری اتحاد کا ایک اہم حصہ ہے۔ وہ ایک شاعر بھی ہیں جنہیں نقادوں کے ذریعہ کافی ستائش ملی ہے۔ اپنی سیاسی مصروفیات میں سے وقت نکال کر وہ موسیقی سننے اور کھانے بنانے کے اپنے شوق پورے کرتے ہیں۔
ان کی پیدائش ۲۵؍ دسمبر ۱۹۲۴ کو گوالیار (جو اب ہندوستانی ریاست مدھیہ پردیش کا حصہ ہے) میں ایک اسکول ٹیچر کے گھر ہوئی ۔ جناب واجپئی کی عوام میں مقبولیت ان کی سیاسی سوجھ بوجھ اور ہندوستانی جمہوریت کی دین ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں میں، وہ ایک ایسے رہنما کے طور پر ابھرے ہیں جو پورے عالم کے تئیں اعتدال پسندانہ رویہ ہے۔ وہ جمہوری اقدار کے لئے عزم مصمم رکھتے ہیں۔
خواتین کی ترقی اور سماجی برابری کے ایک بڑے علمبردار کے طور پر جناب واجپئی، تمام ملکوں کے درمیان بھارت کو ایک دور اندیش، ترقی یافتہ، مضبوط اور خوشحال ملک کے طور پر آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک ایسے بھارت کی نمائندگی کرتے ہیں جس ملک کی تہذیبی تاریخ ۵۰۰۰ سال پرانی ہے اور جو آئندہ ۱۰۰۰ سالوں میں درپیش مسائل کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے۔
انہیں نصف صدی سے زائد تک سماج اور قوم کی خدمت کرنے اور ملک کے لئے اپنی زندگی کو وقف کر دینے کے لئے، ہندوستان کے دوسرے سب سے بڑے شہری اعزاز، پدم وبھوشن، سے نوازا گیا۔ ۱۹۹۴ میں انہیں بھارت کا ’بہترین پارلیمان‘ کا خطاب دیا گیا۔ ایک قول کے مطابق : ’’اپنے نام کی طرح سچے، اٹل جی ایک ممتاز قومی رہنما ، ایک عالم سیاست داں، ایک بے لوث سماجی کارکن، ایک بااثر خطیب، شاعر اور مصنف، صحافی اور کثیر پہلوئی شخصیت کے مالک فرد ہیں۔ اٹل جی عوام کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور خواہشوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے کام قوم کے تئیں ان کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘