مہنت شری رام باپو جی، سماج کی سرکرد شخصیات، لاکھوں کی تعدادمیں آئے ہوئے تمام عقیدت مند بھائیو اور بہنو کو نمسکار، جے ٹھاکر۔
سب سے پہلے میں بھرواڑ سماج کی روایت اور تمام قابل احترام سنتوں، مہنتوں کو روایت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے تمام افراد کو عقیدت کے ساتھ ‘پرنام’ کرتا ہوں۔ آج خوشی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اس بار جو مہاکمبھ ہوا ہے، وہ تاریخی تو تھا ہی، لیکن ہمارے لیے فخر کی بات یہ ہے کہ مہاکمبھ کے مقدس موقع پر مہنت شری رام باپو جی کو مہا منڈلیشور کی‘اپادھی‘ حاصل ہوئی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے اور ہم سب کے لیے بے حد خوشی کا موقع ہے۔ رام باپو جی اور سماج کے تمام کنبوں کو میری طرف سے دلی مبارکباد۔
گزشتہ ایک ہفتے میں ایسا محسوس ہوا کہ بھاؤنگر کی سرزمین بھگوان شری کرشن کے ورندا ون میں تبدیل ہو گئی ہو اور اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ہمارے بھائی جی کی بھاگوت کتھا ہوئی۔ جس طرح کا عقیدت پرجوش ماحول بنا، لوگ جیسے کرشن میں رنگ گئے ہوں، ایسا منظر دیکھنے کو ملا۔
میرے پیارے سووجن باولِیالی استھان صرف ایک مذہبی مقام نہیں ہے ،بلکہ بھرواڑ سماج سمیت بے شمار لوگوں کے لیے عقیدت، ثقافت، اور اتحاد کی علامتی سرزمین بھی ہے۔
ناگا لاکھا ٹھاکر کی مہربانی سے اس مقدس مقام کو،یہاں سے بھرواڑ سماج کو ہمیشہ سچی رہنمائی، بہترین ترغیب اور ایک بے مثال وراثت حاصل ہوئی ہے۔ آج اس دھام میں شری ناگا لاکھا ٹھاکر مندر کی دوبارہ پران پرتِشتھا ہمارے لیے ایک سنہرا موقع ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے جیسے دھوم دھام مچ گئی ہے۔ سماج کا جوش و خروش اور ولولہ دیکھ کر ہر طرف خوشی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ میں بھی آپ سب کے درمیان پہنچوں، مگر پارلیمنٹ اور دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے نکل پانا مشکل ہے، لیکن جب میں ہماری ہزاروں بہنوں کے راس (رقص) کے بارے میں سنتا ہوں،تب دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے، واہ! انہوں نے وہیں پرورندا ون کو زندہ کر دیا۔
عقیدت، ثقافت اور روایت کا یہ حسین امتزاج دل و دماغ کو خوشی اور سکون بخشنے والا ہے۔ان تمام پروگراموں کے دوران ان فنکار بھائیوں اور بہنوں،جنہوں نے اپنی شرکت سے ان لمحات کو زندہ جاوید بنا یا اور وقت کے تقاضے کے مطابق سماج کو اہم پیغام دینے کا کام کیا۔ مجھے یقین ہے کہ بھائی جی بھی اپنی کتھا کے ذریعے ہمیں وقتاً فوقتاً ر پیغام تو دیں گے ہی، اس کے لیے جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔
میں مہنت شری رام باپو جی اور باولِیا دھام کے مقدس موقع پر مجھے شریک کرنے کے لیے ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ درحقیقت، مجھے معذرت چاہنی چاہیے، کیونکہ اس مبارک موقع پر میں آپ سب کے درمیان حاضر نہ ہو سکا۔ آپ سب کا مجھ پرپوراحق ہے اور مستقبل میں جب کبھی اس طرف آؤں گا،تب ماتھا ٹیکنے ضرور حاضر ہوں گا۔
میرے پیارے اہل خانہ
بھرواڑ سماج اور باولِیا دھام سے میرا تعلق آج یا کل کا نہیں، بلکہ بہت پرانا ہے۔ بھرواڑ سماج کی خدمت، ان کا فطرت سے لگاؤ اور گو سیوا(گائے کی خدمت) کا جذبہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ہم سب کی زبان سے ایک بات ہمیشہ بے ساختہ نکلتی ہے…
نگلا لاکھا نر بھالا
پچھم دھرا کے پیر
کھارے پانی میٹھے بنائے،
سوکھی سوکھی ندیوں میں بہائے نیر
یہ صرف الفاظ نہیں ہیں، بلکہ ایک عہد کی کہانی ہے، جہاں خدمت کا جذبہ اور مشکل ترین کام (جیسے ‘نیوا کے پانی موبھے لگا لیے” – گجراتی کہاوت) قدرتی طور پر ظاہر ہوتے تھے۔ ہر قدم پر خدمت کی خوشبو پھیلائی اور آج صدیوں بعد بھی لوگ انہیں یاد کر رہے ہیں، یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات ہے۔میں خود قابل احترام اسو باپو جی کی خدمات کا براہِ راست گواہ ہوں، میں نے ان کی خدمات کو دیکھا ہے۔ ہمارے گجرات میں خشک سالی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک وقت تھا ،جب ہر دس میں سے سات سال قحط پڑتا تھا۔ گجرات میں کہا جاتا تھا کہ بیٹی کی شادی دھندھوکا (خشک سالی سے متاثرہ علاقہ) میں مت کرانا۔(گجراتی کہاوت –‘‘بندُوکے دیجو، پن دھندھوکے نہ دیتاکا معنیٰ ہےکہ بیٹی کی شادی 9 دھندھوکا(خشک سالی سے متاثرہ) علاقہ میں مت کروانا… (اس کی وجہ تھی کہ اس وقت دھندھوکا میں قحط پڑتا تھا)دھندھوکا اور رانپور بھی پانی کے لیے تڑپنے والے مقامات تھے اور اس وقت قابل احترام اسو باپو جی نے جو خدمت انجام دی، جو پریشان حال لوگوں کی مدد کی، وہ براہِ راست نظر آتی ہے۔ نہ صرف میں بلکہ پورا گجرات ان کے کاموں کو دیوی خدمت (خدائی مشن) کی شکل مانتا ہے۔ان کی تعریف کرتے لوگ رکتے نہیں۔ نقل مکانی کرنے والی برادری کے بھائی بہنوں کی مدد، ان کے بچوں کی تعلیم کا کام ہو، ماحولیاتی تحفظ کے لیےخود کو وقف کرنا، گِیر گایوں کی خدمت—چاہے کسی بھی کام کولے لیجئے، ہر کام میں ہمیں ان کے خدمت کا جذبہ نظر آتا ہے۔
میرے پیارے سووجن(اہل خانہ)
بھرواڑ سماج کے لوگ کبھی بھی محنت اور قربانی سے پیچھے نہیں ہٹے، بلکہ ہمیشہ آگے رہے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ جب بھی میں آپ کے درمیان آیا ہوں، میں نے کڑوی باتیں کہی ہیں۔ میں نے بھرواڑ سماج سے کہا کہ اب لٹھ(ڈنڈے) کا زمانہ نہیں رہا، لٹھ لے کرکافی دنوں تک گھوم لیے آپ لوگ ، اب قلم کا زمانہ ہے اور مجھے فخر کے ساتھ کہنا ہوگا کہ جتنا بھی وقت مجھے گجرات میں خدمت کا موقع ملا، بھرواڑ سماج کی نئی نسل نے میری بات کو قبول کیا ہے۔ بچے پڑھ لکھ کر آگے بڑھنے لگے ہیں۔ پہلے میں کہتا تھا ‘‘لٹھ چھوڑکر، قلم پکڑو“، اور اب میں کہتا ہوں کہ میری بچیوں کے ہاتھ میں کمپیوٹر ہونا چاہیے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں اور یہی ہماری سب سے بڑی ترغیب ہے۔ ہمارا سماج قدرت اور ثقافت کا محافظ ہے۔
آپ نے تو حقیقت میں ‘‘اتھیتھی دیوو بھووا’’(مہمان بھگوان کا روپ ہوتا) کے اصول کو حقیقت میں زندہ کر دیا ہے۔ ہمارے یہاں چرواہے اور بالوا سماج کی روایت کے بارے میں لوگوں کو کم معلومات ہے، لیکن بھرواڑ سماج کے بزرگ اولڈ ایج ہوم میں نہیں ملیں گے۔ یہاں جوائنٹ فیملی کا کلچر ہے، بزرگوں کی خدمت کو بھگوان کی خدمت سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنے بزرگوں کو کبھی بھی اولڈ ایج ہوم نہیں بھیجتے، بلکہ ان کی خود ان کی خدمت کرتے ہیں۔ یہ جوتہذیب نئی نسل کو دیےگئے ہیں، وہ بیش قیمت ہیں۔
بھرواڑ سماج کے اخلاقی اور خاندانی اقدار کو مضبوط بنانے کے لیے نسل در نسل محنت کی گئی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارا سماج اپنی روایات کی حفاظت بھی کر رہا ہے اور جدیدیت کی طرف تیزی سے بڑھ بھی رہا ہے۔ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے پڑھے، ان کے لیے ہوسٹل کی سہولتیں فراہم ہوں، یہ بھی ایک طرح بڑی خدمت ہے۔سماج کو جدیدیت کے ساتھ جوڑنے کا کام، ملک کو دنیا کے ساتھ جوڑنے والے نئے مواقع فراہم کرنا ، یہ بھی ایک بڑی خدمت ہے۔ اب میری خواہش ہے کہ ہماری بیٹیاں کھیل کود میں بھی آگے آئیں، اس کے لیے ہمیں کام کرنا ہوگا۔ جب میں گجرات میں تھا تب کھیل مہاکمبھ میں دیکھا کرتا تھا کہ چھوٹی بچیاں اسکول جاتی اور کھیلوں میں بھی نمبر لاتی تھیں۔اب ان میں طاقت ہے، قدرت نے انہیں خصوصی صلاحیت سے نوازا ہے اور اب ہمیں ان کی ترقی پر بھی توجہ دینی ہوگی۔جیسے ہم اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ان کی صحت کی فکر کرتے ہیں، ویسے ہی ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم اور ترقی کے لیے بھی اتنی ہی سنجیدگی سے محنت کرنی چاہیے۔باولیا دھام تو ہمیشہ سے مویشی پروری میں نمایاں رہا ہے، خاص طور پر یہاں گیر گائیوں کی نسل کی نگرانی کی گی ہے، اس پر پورے ملک کو فخر ہے۔ آج پوری دنیا میں گیر گائے کی شہرت ہے اور یہ ہمارے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔
میرے پیارے اہل خانہ ،
بھائیو اور بہنو ، ہم مختلف نہیں ، ہم سب ساتھی ہیں ،میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ ہم خاندان کے افراد ہیں ۔ میں ہمیشہ آپ کے درمیان خاندان کے رکن کی طرح رہا ہوں ۔ آج جو بھی خاندان باولیا دھام آئے ہیں ، لاکھوں لوگ یہاں بیٹھے ہیں ، مجھےحق ہے کہ میں آپ سے کچھ طلب کروں۔ میں آپ سے مانگنا چاہتا ہوں اور میں درخواست کرنے والا ہوں، مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے کبھی مایوس نہیں کریں گے ۔ ہمیں اب ایسے نہیں رہنا ہے، ہمیں ایک چھلانگ لگانی ہے اور 25 برسوں میں ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا ہی ہے ۔ آپ کے تعاون کے بغیر میرا کام نامکمل رہے گا۔ اس مقصد کے لیے پورے معاشرے کو متحد ہونا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے لال قلعہ سے کہا تھا ، سب کا پریاس(سب کی کوشش)… سب کی کوشش ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے ۔ ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ہندوستان بنانے کا پہلا قدم اپنے دیہاتوں کی ترقی کرنا ہے ۔ آج ، قدرت اور مویشیوں کی خدمت ہمارا فطری دھرم ہے ۔ تب ایک اورکام ہم کیا نہیں کر سکیں گے…. حکومت ہند کی ایک اسکیم چلتی ہے ، اور یہ مکمل طور پر مفت ہے-پاؤں اور منہ کی بیماری ، جسے ہمارے یہاں خرپکا ، منہ پکا کی بیماری کے شکل کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس میں لگاتار ویکسین لینی پڑتی ہے ، تب ہی ہمارے جانور اس بیماری سے نکل سکتے ہیں ۔ یہ ہمدردی کا عمل ہے ۔
اب حکومت مفت ویکسین دے رہی ہے ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے معاشرے کے مویشیوں کو یہ ویکسین باقاعدگی سے ملنی چاہیے ۔ تب ہی ہمیں بھگوان شری کرشن کامسلسل آشرواد ملے گا ، ہمارے حامی ہماری مدد کے لیے آئیں گے ۔ اب ہماری حکومت نے ایک اور اہم کام کیا ہے ۔ پہلے کسانوں کے پاس کسان کریڈٹ کارڈ ہوتے تھے ، اب ہم نے مویشی پالنے والوں کو بھی کریڈٹ کارڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس کارڈ سے یہ مویشی پالنے والے کم شرح سود پر بینک سے رقم لے سکتے ہیں اور اپنا کاروبار بڑھا سکتے ہیں ۔ گایوں کی دیسی نسلوں افزائش کے لیے، ان کے فروغ کے لیے ، تحفظ کے لیےراشٹریہ گوکل مشن بھی چل رہا ہے۔میری آپ سے درخواست ہے کہ میں دہلی میں بیٹھ کر یہ سب کرتا ہوں اور آپ سب اس کا فائدہ بھی نہ اٹھائیں یہ کیسے چلے گا۔آپ لوگوں کو اس کا فائدہ اٹھانا پڑے گا۔ مجھے آپ لوگوں کے ساتھ لاکھوں جانوروں کی دعائیں ملیں گی ۔ جانداروں کی دعائیں ملیں گی ۔ اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھائیں ۔ دوسری اہم بات جو میں پہلے کہہ چکا ہوں اور آج پھر دوہراتا ہوں ، درخت لگانے کی اہمیت ہم سب جانتے ہیں ، اس سال میں نے ایک مہم شروع کی ،جسے دنیا کے لوگ سراہا رہے ہیں ۔‘ایک پیر ماں کے نام‘، اگر ہماری ماں زندہ ہیں تو اس کی موجودگی میں اور اگر ماں زندہ نہیں ہیں تو ان کی تصویر سامنے رکھ کر درخت لگائیں۔ ہم توچرواہے برادری کے ایسے لوگ ہیں ، جن کی تیسری-چوتھی نسل کے بزرگ نوے- سو سال تک زندہ رہتے ہیں اور ہم ان کی خدمت کرتے ہیں ۔ ہمیں ماں کے نام پر درخت لگانا ہے اور اس حقیقت پر فخر کرنا ہے کہ یہ میری ماں کے نام پر ہے ، میری ماں کی یاد میں ہے ۔
آپ جانتے ہیں ، ہم نے دھرتی ماں کو بھی تکلیف پہنچائی ہے ، پانی نکالتے رہے ، کیمیکل ڈالتے رہے ، اسے پیاسی بنا دیا ۔ اس پر زہر ڈال دیا ۔دھرتی ماں کو صحت مند رکھنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ ہمارے مویشی پالنے والوں کا گوبر بھی ہماری دھرتی ماں کے لیے دولت کی طرح ہے اوردھرتی ماں کو نئی طاقت دے گا ۔ اس کے لیےقدرتی کاشتکاری اہم ہے ۔ جن کے پاس زمین ہے ، موقع ہے ، وہ قدرتی کاشتکاری کرتے ہیں ۔ گجرات کے گورنر صاحب آچاریہ جی قدرتی کاشت کاری کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں ۔ میری آپ سب سے درخواست ہے کہ ہمارے پاس جو بھی چھوٹی اور بڑی زمین ہیں ، ہم سب کو قدرتی کاشتکاری کی طرف رخ کریں اور دھرتی ماں کی خدمت کریں۔
پیارے بھائیو اور بہنو ،
میں ایک بار پھر بھرواڑ سماج کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور ایک بار پھر دعا کرتا ہوں کہ نگالاکھا ٹھاکر کا آشریواد ہم سب پربرقرار رہے اور باولیادھام سے وابستہ تمام لوگوں کا فلاح ہو، خوشحالی آئے۔ ہماری بیٹیاں اور بچے پڑھ لکھ کر آگے آئیں ، سماج طاقتور بنے ، اس سے زیادہ اور کیا چاہیے ۔ اس سنہری موقع پر بھائی جی کے الفاظ کو سلام پیش کرتے ہوئے اور انہیں آگے لے جاتے ہوئے، اس بات کو یقینی بنائیں کہ سماج کو جدیدیت کی طرف طاقتور بنا کر آگے بڑھاناہے ۔ میں نے بہت لطف اٹھایا ۔ خود آیا ہوتا تو زیادہ خوشی ہوتی۔
جے ٹھاکر ۔
ڈسکلیمر: وزیر اعظم نے اپنی تقریر گجراتی زبان میں کی ہے، یہ اس کا قریب ترین اردو ترجمہ ہے۔
*************
(ش ح ۔ م ع ن۔م ض ر
U. No. 8629
Sharing my remarks during a programme of Bavaliyali Dham in Gujarat. https://t.co/JIsIUkNtGS
— Narendra Modi (@narendramodi) March 20, 2025