Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

دہلی میں ‘جہان خسرو 2025’ پروگرام میں وزیر اعظم کی تقریر کا متن

دہلی میں ‘جہان خسرو 2025’ پروگرام میں وزیر اعظم کی تقریر کا متن


ڈاکٹر کرن سنگھ جی، مظفر علی جی، میرا علی جی، پروگرام میں موجود دیگر معززین، خواتین و حضرات!

 آج جہان خسرو آنے کے بعد خوش ہونا فطری ہے۔ حضرت امیر خسروؒ جس بہار کے دیوانے تھے، وہ بہار آج دہلی میں نہ صرف موسم میں موجود ہے بلکہ جہاں خسروؒ کی فضاؤں میں بھی موجود ہے۔  حضرت خسرو کے الفاظ میں

सकल बन फूल रही सरसों, सकल बन फूल रही सरसों,

अम्बवा फूटे टेसू फूले, कोयल बोले डार-डार…

 (پورے جنگل میں سرسوں کھل رہی ہے، آم کا درخت کھل رہا ہے، ٹیسو کھل رہا ہے، کوئل ایک شاخ سے دوسری شاخ گا رہی ہے…)

 یہاں کا ماحول واقعی کچھ ایسا ہے۔  محفل میں آنے سے پہلے مجھے بازار (تہہ بازار) دیکھنے کا موقع ملا۔  اس کے بعد میں نے باغ فردوس میں کچھ دوستوں سے سلام کا تبادلہ بھی کیا۔  اب نظر کرشنا اور مختلف پروگرام ہوئے، تکالیف کے درمیان مائیک فنکار کے لیے اپنی طاقت ہے، لیکن اس کے بعد بھی انہوں نے قدرت کی مدد سے جو کچھ پیش کرنے کی کوشش کی، وہ بھی شاید تھوڑی مایوسی کا شکار ہوئے۔ جو لوگ اس تقریب سے لطف اندوز ہونے کے لیے آئے تھے وہ مایوس ہو چکے ہیں۔  لیکن بعض اوقات ایسے مواقع ہمارے لیے زندگی کا سبق چھوڑ جاتے ہیں۔  مجھے یقین ہے کہ آج کا موقع بھی ہمارے لیے سبق چھوڑ جائے گا۔

 ساتھیو،

 ایسے مواقع ملک کے فن اور ثقافت کے لیے اہم ہوتے ہیں، یہ سکون بھی فراہم کرتے ہیں۔  جہان خسرو کا یہ سلسلہ 25 سال مکمل کر رہا ہے۔  اس پروگرام نے ان 25 برسوں میں لوگوں کے ذہنوں میں جو جگہ بنائی ہے یہ اپنے آپ میں اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔  میں اس کے لیے ڈاکٹر کرن سنگھ جی، اپنے دوست مظفر علی جی، بہن میرا علی جی اور دیگر ساتھیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔  میں رومی فاؤنڈیشن اور آپ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں کہ جہان خسرو کا یہ گلدستہ اسی طرح کھلتا رہے۔  رمضان المبارک کا مقدس مہینہ بھی شروع ہونے والا ہے۔  میری طرف سے آپ سب کو اور تمام اہل وطن کو رمضان مبارک ہو۔  آج میں سندر نرسری آیا ہوں، تو میرے لیے عالی مرتبت پرنس کریم آغا خان کو یاد کرنا بالکل فطری ہے۔ سندر نرسری کو سجانے اور خوبصورت بنانے میں ان کا تعاون لاکھوں فن سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک اعزاز بن گیا ہے۔

 ساتھیو،

 سرکھیج روضہ گجرات میں صوفی روایت کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔  ایک زمانے میں وقت کی مار سے اس کی حالت بگڑ چکی تھی۔ لیکن جب میں وزیر اعلیٰ تھا تو اس کی بحالی اور تزئین کاری پر بہت کام کیا گیا تھا اور بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ایک وقت تھا جب سرکھیج روضہ میں کرشن اتسو بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا اور اسے بڑی مقدار میں بنایا جاتا تھا اور آج بھی ہم سب یہاں کرشن کی عقیدت کے رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔  میں سرکھیج روضہ میں ہونے والے سالانہ صوفی موسیقی کے پروگرام میں بھی ہمیشہ شرکت کرتا تھا۔ صوفی موسیقی ایک مشترکہ ورثہ ہے جسے ہم سب ایک ساتھ گزارتے آئے ہیں۔  ہم سب اس طرح بڑے ہوئے ہیں۔  اب یہاں نظر کرشنا کی پیش کش بھی ہمارے مشترکہ ورثے کی عکاسی کرتی ہے۔

ساتھیو،

جہان خسرو کے اس پروگرام میں ایک الگ ہی خوشبو ہے۔  یہ خوشبو ہندوستان کی مٹی کی ہے۔  وہ ہندوستان جس کا موازنہ حضرت امیر خسرو نے جنت سے کیا۔ ہمارا ہندوستان جنت کا وہ باغ ہے جہاں ثقافت کا ہر رنگ پروان چڑھا ہے۔  یہاں کی مٹی کی فطرت میں کچھ خاص ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب صوفی روایت ہندوستان میں آئی تو اسے بھی ایسا لگا جیسے وہ اپنی سرزمین سے جڑ گئی ہے۔  یہاں بابا فرید کی روحانی گفتگو نے دلوں کو سکون بخشا۔  حضرت نظام الدین کی محفلوں نے محبتوں کے چراغ جلائے۔  حضرت امیر خسروؒ کے کلام نے نئے موتی بکھیرے اور جو نتیجہ نکلا اس کا اظہار حضرت خسروؒ کی ان مشہور سطروں میں ہوتا ہے۔

बन के पंछी भए बावरे, बन के पंछी भए बावरे,

ऐसी बीन बजाई सँवारे, तार तार की तान निराली,

झूम रही सब वन की डारी।

 

(جنگل کے پرندے دیوانے ہوگئے، سنوارے نے ایسی خوبصورت بانسری بجائی، ہر تار کی دھن منفرد، جنگل کی سبھی شاخیں ناچ رہی ہیں۔)

 

 صوفی روایت نے ہندوستان میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔  صوفی بزرگوں نے اپنے آپ کو مساجد یا خانقاہوں تک محدود نہیں رکھا، وہ قرآن پاک کے حروف کو پڑھتے اور ویدوں کو بھی سنتے تھے۔ انہوں نے اذان کی آواز میں بھکتی کے گیتوں کی مٹھاس شامل کی اور اسی لیے جسے اپنیشد سنسکرت میں एकं सत् विप्रा बहुधा वदन्ति کہا گیا ہے، حضرت نظام الدین اولیاء نے صوفی گیت گا کر یہی بات کہی، ہر قوم راست راہے، دین و قبلہ گاہے)۔  زبان، انداز اور الفاظ مختلف لیکن پیغام ایک ہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج جہان خسرو اسی روایت کی جدید شناخت بن چکی ہے۔

 ساٹھیو،

 کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت کی آواز اس کے گیتوں اور موسیقی سے ملتی ہے۔  اس کا اظہار فن کے ذریعے ہوتا ہے۔  حضرت خسروؒ فرماتے تھے کہ ہندوستان کی اس موسیقی میں ایک منفرد کشش ہے، ایسی کشش کہ جنگل میں ہرن اپنی جان کا خوف بھول کر ساکت ہو جاتے تھے۔  ہندوستانی موسیقی کے اس سمندر میں صوفی موسیقی ایک مختلف بہاؤ کے طور پر آئی اور یہ سمندر کی خوبصورت لہر بن گئی۔  جب صوفی موسیقی اور کلاسیکی موسیقی کے وہ قدیم دھارے ایک دوسرے سے جڑے تو ہمیں محبت اور عقیدت کی ایک نئی آواز سننے کو ملی۔  یہ بات ہمیں حضرت خسرو کی قوالی میں ملتی ہے۔  یہیں سے ہمیں بابا فرید کے اشعار ملے۔  بلھے شاہ کی آواز، میر کے گیت، یہاں ہمیں کبیر، رحیم اور راس خاں ملے۔ ان اولیاء اور بزرگوں نے عقیدت کو ایک نئی جہت دی۔  آپ سورداس پڑھتے ہیں یا رحیم و راس خاں یا حضرت خسرو کو آنکھیں بند کرکے سنتے ہیں، جب آپ گہرائی میں جاتے ہیں تو اسی مقام پر پہنچتے ہیں۔  یہ مقام روحانی محبت کی بلندی ہے جہاں انسانی بندشیں ٹوٹ کر انسان اور خدا کا وصال محسوس ہوتا ہے۔  آپ نے دیکھا کہ ہمارا راس خاں مسلمان تھا مگر ہری بھکت تھا۔  راس خاں یہ بھی کہتے ہیں- प्रेम हरी को रूप है, त्यों हरि प्रेम स्वरूप। एक होई द्वै यों लसैं, ज्यौं सूरज अरु धूप॥ یعنی محبت اور ہری دونوں ایک ہی شکل ہیں جیسے سورج اور سورج کی روشنی اور حضرت خسرو کو بھی یہ احساس تھا۔  اس نے لکھا تھاखुसरो दरिया प्रेम का, सो उलटी वा की धार। जो उतरा सो डूब गया, जो डूबा सो पार।। یعنی محبت میں ڈوب کر ہی تفریق کی رکاوٹیں عبور کی جاتی ہیں۔  یہاں ہونے والی شاندار پریزنٹیشن میں بھی ہم نے ایسا ہی محسوس کیا ہے۔

ساتھیو،

 صوفیانہ روایت نے نہ صرف انسانوں کے درمیان روحانی فاصلوں کو ختم کیا ہے بلکہ دنیا میں دوریوں کو بھی کم کیا ہے۔  مجھے یاد ہے جب میں 2015 میں افغانستان کی پارلیمنٹ میں گیا تھا تو میں نے وہاں رومی کو بہت جذباتی الفاظ میں یاد کیا تھا۔  آٹھ صدیاں قبل رومی وہاں کے صوبہ بلخ میں پیدا ہوئے۔ میں یہاں رومی کی تحریروں کا ہندی ترجمہ ضرور دہرانا چاہوں گا کیونکہ یہ الفاظ آج بھی اتنے ہی معنویت کے حامل ہیں۔  رومی نے کہا تھا لفظوں کو اہمیت دو آواز کو نہیں کیونکہ پھول بارش میں پیدا ہوتے ہیں طوفان میں نہیں۔  مجھے ان کی ایک بات اور یاد ہے، اگر میں اسے مقامی الفاظ میں کہوں تو اس کا مطلب ہے، میں نہ مشرق سے ہوں نہ مغرب سے، نہ میں سمندر سے آیا ہوں نہ خشکی سے آیا ہوں، میرے لیے کوئی جگہ نہیں، کوئی نہیں، میرا تعلق کسی جگہ سے نہیں، یعنی میں ہر جگہ ہوں۔ یہ سوچ، یہ فلسفہ ہماری وسودھیو کٹم بکم کی روح سے مختلف نہیں ہے۔  یہ خیالات مجھے طاقت دیتے ہیں جب میں دنیا کے مختلف ممالک میں ہندوستان کی نمائندگی کرتا ہوں۔  مجھے یاد ہے کہ جب میں ایران گیا تھا تو مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران میں نے وہاں مرزا غالب کا ایک شعر سنایا تھا۔

जनूनत गरबे, नफ्से-खुद, तमाम अस्त।

ज़े-काशी, पा-बे काशान, नीम गाम अस्त॥

 یعنی جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں کاشی اور کاشان کے درمیان صرف آدھا قدم کا فاصلہ ہے۔ درحقیقت آج کی دنیا میں جہاں جنگ انسانیت کو اتنا بڑا نقصان پہنچا رہی ہے، یہ پیغام بہت مفید ہو سکتا ہے۔

ساتھیو،

 حضرت امیر خسروؒ کو طوطئ ہند کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی تعریف میں، ہندوستان کی محبت میں جو گیت گائے، ہندوستان کی عظمت اور دلکشی کی تفصیل ان کی کتاب نہہ سپہر میں ملتی ہے۔  حضرت خسروؒ نے ہندوستان کو اس وقت کی دنیا کے تمام بڑے ممالک سے بڑا قرار دیا۔ انہوں نے سنسکرت کو دنیا کی بہترین زبان قرار دیا۔  وہ ہندوستان کے اسکالرز کو عظیم اسکالرز سے بڑا سمجھتے تھے۔ ہندوستان میں صفر، ریاضی، سائنس اور فلسفے کا علم باقی دنیا تک کیسے پہنچا؟  ہندوستانی ریاضی عرب تک کیسے پہنچی اور وہاں ہندسہ کے نام سے مشہور ہوئی؟  حضرت خسرو نے نہ صرف اپنی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے بلکہ اس پر فخر بھی کیا ہے۔ اگر آج ہم اپنے ماضی سے واقف ہوں جب غلامی کے طویل دور میں بہت کچھ تباہ ہوا تو اس میں حضرت خسرو کی تحریروں کا بڑا ہاتھ ہے۔

ساتھیو،

 

 ہمیں اس ورثے کو تقویت بخشتے رہنا ہے۔  مجھے اطمینان ہے کہ جہان خسرو جیسی کاوشیں اس ذمہ داری کو بخوبی نبھا رہی ہیں اور اس کام کو 25 سال سے لگاتار کرنا کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے۔  میں اپنے دوست کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔  میں ایک بار پھر آپ سب کو اس پروگرام کے انعقاد کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کچھ مشکلات کے باوجود مجھے اس پروگرام سے محظوظ ہونے کا موقع ملا، اس کے لیے میں اپنے دوست کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔  آپ کا بہت بہت شکریہ!  آپ کا بہت بہت شکریہ!

******

(ش ح –م ع- ر ا)  

U. No.7696