Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

تمل شاعر سبرامنیا بھارتی کے مکمل کاموں کے مجموعہ کے اجراء پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

تمل شاعر سبرامنیا بھارتی کے مکمل کاموں کے مجموعہ کے اجراء پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن


مرکزی وزیر جناب گجیندر سنگھ شیخاوت جی، راؤ اندرجیت سنگھ، ایل مروگن جی، اور اس پروگرام کے مرکزی نقطہ نگاہ  ساہتیہ سیوی، سینی وشواناتھن جی، پرکاشک وی سری نواسن جی اور یہاں موجود تمام معزز شخصیات   اور خواتین و حضرات…!

 

آج ملک عظیم شاعر سبرامنیا بھارتی جی کی یوم پیدائش منا رہا ہے۔ میں سبرامنیا بھارتی جی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میں اپنی طرف سے بھی  خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آج ہندوستانی ثقافت اور ادب کے لیے، ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی یادوں اور تمل ناڈو کی فخر کے لیے ایک بڑا موقع ہے۔ عظیم شاعر سبرامنیا بھارتی کے کاموں اور تخلیقات کی اشاعت ایک عظیم خدمت ہے، ایک عظیم روحانی عمل ہے، جو آج مکمل ہو رہا ہے۔ 6 دہائیوں کی انتھک محنت سے 21 جلدوں میں ’کلواریسائیل بھارتیہ پدپوگال‘کو مرتب کرنے کی اتنی ہمت غیر معمولی، کام بے مثال ہے۔ یہ لگن، یہ سادھنا، سینی وشواناتھن جی کی اس  محنت پر مجھے  پورا بھروسہ ہے، آنے والی نسلیں اس سے بہت فائدہ اٹھائیں گی ۔ ہم کبھی کبھی ایک لفظ سنتے تھے۔’ ایک زندگی، ایک مشن۔‘ لیکن سینی جی نے دیکھا ہے کہ ’ون لائف ون‘ مشن کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ریاضت ہے۔ ان کی لگن نے آج مجھے مہا مہوپادھیائے پانڈورنگ ومن کینے کی یاد دلائی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے 35 سال دھرم شاستر کی تاریخ لکھنے میں گزارے۔ مجھے یقین ہے کہ سینی وشوناتھن جی کا یہ کام علمی دنیا میں ایک ’معیاری کام  ‘ بن جائے گا۔ میں وشواناتھن جی، ان کے تمام ساتھیوں اور آپ سب کو اس کام کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو!

مجھے بتایا گیا ہے کہ ’کالوری سائل بھارتی پدپوگال‘ کی یہ 23 جلدیں نہ صرف بھارتیار  جی کی تخلیقات پر مشتمل ہیں،  بلکہ ان میں اُن کے ادب کے پس منظر کی معلومات اور فلسفیانہ تجزیہ بھی شامل ہے۔ بھارتیار  جی کے خیالات کی گہرائی اور گہرائی کو سمجھنے میں نہ صرف  ریسرچ اسکالرز کو  بہت مدد ملے گی بلکہ یہ تعلیم یافتہ افراد کے لیے بھی بہت مددگار ثابت ہوگا۔

ساتھیو!

آج گیتا جینتی کا مقدس موقع بھی ہے۔جناب سبرامنیا بھارتی جی کو گیتا پر گہرا یقین تھا، اور گیتا کے علم کے بارے میں ان کی سمجھ بھی اتنی ہی گہری تھی۔ انہوں نے گیتا کا تمل میں ترجمہ کیا اور اس کی سادہ اور آسان وضاحت بھی کی۔ اور آج دیکھیں کہ حسن اتفاق گیتا جینتی بھی ہے، سبرامنیا بھارتی جی کی یوم پیدائش اور ان کی تخلیقات کی اشاعت، یعنی ایک طرح سے، تروینی سنگم ہے ۔ اس پروگرام کے ذریعے میں آپ سب کو اور تمام ہم وطنوں کو گیتا جینتی کی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو!

 

ہمارے ملک میں الفاظ کو محض اظہار خیال کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ ہم اس ثقافت کا حصہ ہیں، جو ’شبد برہما‘کے بارے میں بات کرتی ہے، لفظ کی لامحدود طاقت کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اس لیے حکیموں اور عرفان کی باتیں صرف ان کے خیالات نہیں ہیں۔ یہ اس کے خیالات، اس کے تجربات اور اس کے مراقبہ کا نچوڑ ہے۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم ان غیر معمولی شعور کے جوہر کو اپنے اندر سمیٹیں اور انہیں اگلی نسلوں کے لیے محفوظ رکھیں۔ آج جدید تناظر میں ایسی تالیف کی جتنی اہمیت ہے، ہماری روایت میں بھی اتنی ہی اہمیت  رہی ہے۔ مثال کے طور پر، ہمارے پاس بھگوان ویاس کے لکھے ہوئے بہت سے کاموں کی پہچان ہے۔ وہ کام آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں، کیونکہ وہ پرانوں کے ایک نظام کی شکل میں مرتب کیے گئے ہیں۔ اسی طرح سوامی وویکانند کا مکمل کام، ڈاکٹرباباصاحب امبیڈکر کی تحریریں اور تقریر، دین دیال اپادھیائے سمپورنا وانگمایا، جدید دور کی ایسی تالیفات ہمارے معاشرے اور تعلیمی اداروں کے لیے بہت مفید ثابت ہو رہی ہیں۔ ’تھروکورل‘ کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کا کام بھی جاری ہے۔ ابھی پچھلے سال، جب میں پاپوا نیو گنی گیا تھا، مجھے مقامی ٹوک پسن زبان میں ’تھروکورل‘ اجراکرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس سے پہلے یہاں، لوک کلیان مارگ میں، میں نے گجراتی میں ’تھروکورل‘کے ترجمہ  کا بھی اجرا کیا تھا۔

ساتھیو!

سبرامنیا بھارتی جی ایسے عظیم دانشور تھے جنہوں نے ملک کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کیا۔ ان کی نظر بہت وسیع تھی۔ انہوں نے ہر اس سمت میں کام کیا جس کی اس دور میں ملک کو ضرورت تھی۔ بھارتیار جی نہ صرف تمل ناڈو اور تمل زبان کی میراث ہیں بلکہ وہ ایک مفکر تھے جن کی ہر سانس مادر ہند کی خدمت کے لیے وقف تھی۔ ہندوستان کی ترقی، ہندوستان کا فخر، یہ ان کا خواب تھا۔ فرض کے احساس سے ہماری حکومت نے بھا رتی جی کے تعاون کو ہر ایک تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ 2020 میں، پوری دنیا کوویڈ کی مشکلات سے پریشان تھی، لیکن اس کے باوجود ہم نے سبرامنیا بھارتی جی کی 100 ویں برسی شاندار طریقے سے منائی۔ میں خود بھی بین الاقوامی بھارتی فیسٹیول کا حصہ بن گیا۔ ملک کے اندر لال قلعہ کی فصیل ہو یا دنیا کے دیگر ممالک، میں نے عظیم کوی بھارتی جی کے افکار کے ذریعے مسلسل ہندوستان کے تصور کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اور اب سنی جی نے ذکر کیا کہ میں دنیا میں جہاں بھی گیا ہوں، میں نے بھارتی جی کے بارے میں بات کی ہے اور سنی جی نے ان کی تعریف کی ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ میرے اور سبرامنیا بھارتی جی کے درمیان ایک زندہ کڑی ، ایک روحانی ربط ہے، ہمارا کاشی بھی وہیں ہے۔ میرے کاشی سے ان کا رشتہ، کاشی میں گزرا وقت، کاشی کی وراثت کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ علم حاصل کرنے کے لیے کاشی آئے اور وہیں رہا ئش پذیر ہوئے ۔ ان کے خاندان کے کئی افراد اب بھی کاشی میں رہتے ہیں۔ اور میں خوش قسمت ہوں کہ ان سے رابطہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی جی  کو کاشی میں رہتے ہوئے ہی اپنی شاندار مونچھوں کو  رکھنے کی تحریک ملی۔ بھارتیار نے گنگا کے کنارے کاشی میں رہتے ہوئے اپنی بہت سی تخلیقات لکھیں۔ اس لیے آج کاشی کے ایم پی کی حیثیت سے میں ان کے کلام کو مرتب کرنے کے اس نیک کام کے لیے ان کا خیرمقدم اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ ہماری حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ بی ایچ یو میں عظیم شاعر بھارتیار کی خدمات کے لیے وقف ایک چئیر  قائم کی گئی ہے۔

ساتھیو!

سبرامنیا بھارتی جیسی شخصیت صدی میں ایک بار ملتی ہے۔ ان کی سوچ، ان کی ذہانت، ان کی ہمہ جہتی شخصیت، آج بھی سب کو حیران کردیتی ہے۔ صرف انتالیس ( 39 )سال کی زندگی میں بھارتی جی نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے، جس کو سمجھانے میں اہل دانش  اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔ ان کی عمر 39 سال تھی اور انہوں نے 60 سال کام کرتے ہوئے گزارے۔ بچپن میں کھیلنے اور سیکھنے کی عمر میں ان میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار ہو رہا تھا۔ ایک طرف وہ روحانیت کے متلاشی تھے تو دوسری طرف جدیدیت کے داعی بھی تھے۔ ان کے کام فطرت سے محبت اور بہتر مستقبل کے لیے تحریک کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ جدوجہد آزادی کے دوران انہوں نے نہ صرف آزادی کا مطالبہ کیا بلکہ ہندوستان کے لوگوں کے ذہنوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اور یہ ایک بڑی بات ہے! انہوں نے ہم وطنوں سے کہا تھا کہ میں صرف تمل میں بات کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تمام معزز ین سے  اپنی  تلفظ کی غلطی کو در گذر کرنے کا خواستگار ہوں ، عظیم شاعر بھارتیار نے کہا تھا۔

’اینرو تانیوم، اند سودنتیر، داگم، اینرو مدیوم انگل ادیمائینموگم‘

یعنی آزادی کی یہ پیاس کب بجھے گی؟ ہماری غلامی کا سحر کب ختم ہوگا؟ یعنی اس زمانے میں ایک طبقہ تھا جسے غلامی کا جنون تھا، وہ انہیں ڈانٹتے تھے۔ غلامی کا یہ سحر کب ختم ہوگا؟ یہ اپیل صرف وہی شخص کر سکتا ہے، جس میں خود کو دیکھنے کی ہمت ہو اور جیتنے کا یقین بھی ہو! اور یہ بھارتیار کی خاصیت تھی۔ وہ دو ٹوک بات کرتے تھے اور معاشرے کو ایک بہتر سمت دکھاتے تھے۔ انہوں نے صحافت کے میدان میں بھی حیرت انگیز کام کیا ہے، 1904 میں انہوں نے تمل اخبار سودیشمترن میں شمولیت اختیار کی۔ پھر 1906 میں سرخ کاغذ پر ہندوستان کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار چھاپنا شروع کیا۔ یہ تمل ناڈو میں سیاسی کارٹون چھاپنے والا پہلا اخبار تھا۔ بھارتی جی معاشرے کو کمزور اور محروم لوگوں کی مدد کرنے کی ترغیب دیتے تھے ۔ اپنے شعری مجموعہ کنن پٹو میں انہوں نے بھگوان کرشن کو 23 شکلوں میں تصور کیا ہے۔ اپنی ایک نظم میں وہ غریب خاندانوں اور ضرورت مندوں کے لیے کپڑوں کے تحفے مانگتے  ہیں۔ اس طرح وہ عطیہ کرنے کے اہل لوگوں تک پیغام پہنچا رہے تھے۔ ہمیں آج بھی انسان دوستی کے جذبے سے بھرپور ان کی نظموں سے تحریک ملتی ہے۔

ساتھیو!

بھارتیار ایک ایسے شخص ہیں جنہوں  نے اپنے وقت سے بہت آگے دیکھا اور مستقبل کو سمجھا۔ اس وقت بھی جب معاشرہ دیگر مسائل میں الجھا ہوا تھا۔ بھارتیار نوجوانوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کے زبردست حامی تھے۔ بھارتیار کو سائنس اور اختراع پر بھی بے پناہ یقین تھا۔ اس وقت انہوں نے ایک ایسی مواصلات کا تصور کیا تھا جو دوریاں کم کرکے پورے ملک کو جوڑنے کا کام کرے گا۔ اور وہ ٹیکنالوجی جس کے ساتھ ہم آج جی رہے ہیں۔ بھرتیار جی نے اس وقت اس ٹیکنالوجی پر بحث کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا۔

’’کاشی نگر، پلوار پسم، اُرائی تان، کانچییل، کیتپادارکور، کرووی چیاووم۔‘‘

یعنی کوئی ایسا آلہ ہونا چاہیے جس سے کوئی کانچی میں بیٹھ کر سن سکے کہ بنارس کے سنت کیا کہہ رہے ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ڈیجیٹل انڈیا ان خوابوں کو حقیقت میں بدل رہا ہے۔ بھاشینی جیسی ایپس نے زبان کی تمام مشکلات کو بھی ختم کر دیا ہے۔ جب ہندوستان کی ہر زبان کے تئیں احترام کا جذبہ ہو، جب ہندوستان کی ہر زبان پر فخر ہو، جب ہندوستان کی ہر زبان کو بچانے کی نیت ہو، تو اس طرح ہر زبان کی خدمت کا کام ہوتا ہے۔

ساتھیو!

عظیم شاعر بھارتی جی کا ادب، دنیا کی قدیم ترین زبان تمل کے لیے ایک ورثے کی طرح ہے۔ اور ہمیں فخر ہے کہ دنیا کی قدیم ترین زبان ہماری تمل زبان ہے۔ جب ہم ان کے ادب کا فروغ کرتے ہیں تو ہم تمل زبان کی بھی خدمت کرتے ہیں۔ جب ہم تمل کی خدمت کرتے ہیں تو ہم اس ملک کے قدیم ترین ورثے کی بھی خدمت کرتے ہیں۔

بھائی بہنو!

پچھلے 10 سالوں میں، ملک نے تمل زبان کے فخر کے لیے لگن سے کام کیا ہے۔ میں نے اقوام متحدہ میں تامل کا فخر پوری دنیا کے سامنے رکھا تھا۔ ہم دنیا بھر میں تھروولاور ثقافتی مراکز بھی کھول رہے ہیں۔ ایک بھارت ایک بہتر ہندوستان کی روح میں سبرامنیا بھارتی کے خیالات کا عکاس ہے۔ بھارتیار نے ہمیشہ ملک کی مختلف ثقافتوں کو جوڑنے والے نظریہ کو مضبوط کیا۔ آج کاشی تمل سنگم اور سوراشٹرا تمل سنگم جیسی تنظیمیں بھی یہی کام کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک بھر کے لوگوں میں تمل کے بارے میں جاننے اور جاننے کا تجسس بڑھتا جا رہا ہے۔ تمل ناڈو کی ثقافت کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہمارا عزم ہے کہ ہر ملک کا باشندہ ملک کی ہر زبان کو اپنا سمجھے، ہر ہندوستانی کو ہر زبان پر فخر ہو۔ تمل جیسی ہندوستانی زبانوں کو فروغ دینے کے لیے ہم نے نوجوانوں کو ان کی مادری زبان میں اعلیٰ تعلیم کا اختیار بھی دیا ہے۔

ساتھیو!

مجھے یقین ہے کہ بھارتی جی کا ادبی مجموعہ تامل زبان کے فروغ سے متعلق ہماری کوششوں کو تقویت دے گا۔ ہم ساتھ مل کر ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف تک پہنچیں گے اور ہندوستانیوں کے خوابوں کو پورا کریں گے۔ ایک بار پھر، میں آپ سب کو اس تالیف اور اشاعت کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور میں دیکھ رہا تھا کہ عمر کے اس مرحلے میں اور دہلی کی سردی میں تامل میں رہنا بہت بڑی سعادت ہے اور زندگی میں کتنی تپسیا کی ہوگی اور میں ان کے ہاتھ کی تحریر دیکھ رہا تھا۔ ایسی خوبصورت تحریریں ہیں۔ اس عمر میں ہم دستخط کرتے ہوئے بھی کانپ جاتے ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں آپ کی سادھنا ہے، آپ کی لگن اور محنت ہے۔ میں آپ کو سچی عقیدت کے ساتھ سلام کرتا ہوں۔ آپ سب کو وانکم، بہت بہت شکریہ!

*****

ش ح۔ ال

U-3850