Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

سپریم کورٹ میں یوم دستور کی تقریب میں وزیر اعظم کے خطاب کا انگریزی ترجمہ

سپریم کورٹ میں یوم دستور کی تقریب میں وزیر اعظم کے خطاب کا انگریزی ترجمہ


بھارت کےچیف جسٹس ، جسٹس سنجیو کھنہ جی، جسٹس بی آر گوئی جی، جسٹس سوریہ کانت جی، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی،جناب ارجن رام میگھوال جی، اٹارنی جنرل جناب وینکٹ رمنی جی، بار کونسل کے چیئرمین منن کمار مشرا جی، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر جناب کپل سبل جی، سپریم کورٹ کے جج صاحبان، سابق چیف جسٹس صاحبان، دیگر معزز مہمانان، خواتین و حضرات!

یوم دستور پر آپ کو اور تمام شہریوں کو مبارکباد۔ بھارت کے آئین کا 75واں سال پوری قوم کے لیے بہت فخر کی بات ہے۔ آج میں ہندوستان کے آئین اور دستور ساز اسمبلی کے تمام اراکین کو عاجزی کے ساتھ خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

دوستو

جیسا کہ ہم اس اہم جمہوری تہوار کی یاد مناتے ہیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج ممبئی دہشت گردانہ حملے کی برسی بھی ہے۔ میں ان لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس حملے میں اپنی جانیں گنوائیں اوراس بات کااعادہ کرتاہوں کہ قوم کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو فیصلہ کن جواب دے گی جو بھارت کی سلامتی کو چیلنج کریں گی۔

دوستو،

آئین ساز اسمبلی میں تفصیلی بحث کے دوران بھارت کے جمہوری مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ باتیں ہوئیں۔ آپ سب ان مباحثوں سے بخوبی واقف ہیں۔ اس وقت، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا، ‘‘آئین محض وکلاء کی دستاویز نہیں ہے… اس کی روح ہمیشہ عہد کی روح رہی ہے۔’’ باباصاحب نے جس جذبے کا ذکر کیا ہے وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے آئین کی دفعات ہمیں بدلتے وقت اور حالات کے مطابق اس کی تشریح کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ ہمارے آئین کے معماروں نے تسلیم کیا کہ بھارت کی امنگیں اور خواب وقت کے ساتھ نئی بلندیوں تک پہنچیں گے اور یہ کہ آزاد بھارت اور بھارت کے شہریوں کی ضروریات اور چیلنجزمیں تبدیلی آئے گی۔ اس طرح انہوں نے ہمارے آئین کو محض ایک قانونی دستاویز کے طور پر نہیں چھوڑا بلکہ اسے ایک متحرک، مسلسل بہتا ہوا دھارا بنا دیا۔

دوستو،

ہمارا آئین ہمارے حال اور مستقبل کے لیے رہنما کا کام کرتا ہے۔گزشتہ 75 برسوں میں ملک کو جتنے بھی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، ہمارے آئین نے مناسب حل فراہم کیا۔ ایمرجنسی کے دوران بھی،جو جمہوریت کے لیے ایک اہم چیلنج کا دور تھا، ہمارا آئین مضبوط طریقے سے ابھرا۔ ہمارا آئین ملک کی ہر ضرورت اور ہر توقع پر پورا اترتا ہے۔ آئین کی اس طاقت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ آج بابا صاحب کا آئین جموں و کشمیر میں بھی پوری طرح سے نافذ ہے۔ پہلی بار وہاں یوم آئین منایا جا رہا ہے۔

دوستو،

بھارت ایک زبردست یکسر تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے، اور ایسے اہمیت کے حامل وقت میں، ہمارا آئین ہمیں راستہ دکھا رہا ہے اور ہمارے لیے رہنمائی کی روشنی بنا ہوا ہے۔

دوستو،

بھارت کے لیے آگے کا راستہ بڑے خوابوں اور عزائم کو پورا کرنے کا ہے۔ آج ہر شہری ایک ہی مقصد کے لیے متحد ہے یعنی ‘وکِسِت بھارت’ (ترقی یافتہ ہندوستان) کی تشکیل۔ ’وکست بھارت‘ کا مطلب ہے ایک ایساملک جہاں ہر شہری کو معیاری زندگی اور عزت و وقار حاصل ہو۔ یہ سماجی انصاف کے لیے ایک اہم محرک ہے، جو کہ آئین کی بنیادی روح بھی ہے۔ اس لیے حالیہ برسوں میں معاشی اور سماجی مساوات کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران، 53 کروڑ سے زیادہ ہندوستانی جن کے پاس پہلے بینکوں تک رسائی نہیں تھی، اکاؤنٹ کھول چکے ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں چار کروڑ بے گھر شہریوں کو مستقل رہائش فراہم کی گئی جن کے پاس نسلوں سے گھر نہیں تھے۔ پچھلے 10 سالوں میں 10 کروڑ سے زیادہ خواتین کو مفت گیس کنکشن ملے ہیں، جو کئی سالوں سے اپنے گھروں میں گیس کنکشن کا انتظار کر رہی تھیں۔ آج کی زندگی میں، یہ بہت آسان لگتا ہے کہ ہم گھر میں نل کھولتے ہیں، اور پانی بہتا ہے۔تاہم، ملک کی آزادی کے 75 سال بعد بھی، صرف 3 کروڑ گھرانوں کو نل کا پانی میسر تھا۔ لاکھوں لوگ اب بھی اپنے گھروں میں نل کے پانی کے منتظر تھے۔ میں مطمئن ہوں کہ ہماری حکومت نے 5-6 سال کے عرصے میں 12 کروڑ سے زیادہ گھرانوں کو نل کا پانی فراہم کیا ہے، جس سے شہریوں بالخصوص خواتین کی زندگیوں کو آسان بنایا گیا ہے اور آئین کی روح کو تقویت ملی ہے۔

دوستو،

جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ہمارے آئین کے اصل مسودہ میں بھگوان رام، ماں سیتا، ہنومان جی، بدھ، مہاویر، اور گرو گوبند سنگھ جی کی مثالیں ہیں، جو کہ بھارت کی ثقافت کی علامت ہیں۔ آئین میں دی گئی یہ مثالیں ہمیں انسانی اقدار کی اہمیت کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ اقدار جدید بھارت کی پالیسیوں اور فیصلوں کی بنیاد ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہندوستانیوں کو فوری انصاف ملے، ایک نیا عدالتی ضابطہ نافذ کیا گیا ہے۔ سزا پر مبنی نظام اب انصاف پر مبنی نظام میں تبدیل ہو چکا ہے۔ خواتین کی سیاسی شراکت داری بڑھانے کے لیے ناری شکتی وندن ادھینیم کے ساتھ ایک تاریخی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہم نے تیسری صنف کی پہچان اور حقوق کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔ مزید برآں، ہم نے معذور افراد کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے اقدامات پرعمل درآمد کیا ہے۔

دوستو،

آج، ملک اپنے شہریوں کے لیے زندگی کی آسانی کو بہتر بنانے پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب پنشن حاصل کرنے والے بزرگ شہریوں کو یہ ثابت کرنے کے لیے بینکوں کا رخ کرنا پڑتا تھا کہ وہ زندہ ہیں۔ اب بزرگ شہری اپنے گھر سے ڈیجیٹل لائف سرٹیفکیٹ جمع کرانے کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اب تک تقریباً 1.5 کروڑ بزرگ شہریوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ آج بھارت ایک ایسا ملک ہے جو ہر غریب خاندان کو 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک بھی ہے جو 70 سال سے زیادہ عمر کے ہر بزرگ کو مفت صحت کی دیکھ بھال فراہم کرتا ہے۔ ملک بھر کے ہزاروں جن اوشدھی کیندروں پر سستی دوائیں 80 فیصد رعایت پر دستیاب ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہمارے ملک میں ٹیکہ کاری 60 فیصد سے بھی کم تھی اور لاکھوں بچے ہر سال ویکسینیشن سے محروم رہتے تھے۔ آج، میں یہ دیکھ کر مطمئن ہوں کہ بھارت کی ٹیکہ کاری کوریج 100 فیصد تک پہنچ رہی ہے،اوریہ مشن اندر دھنش کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ دور دراز کے گاؤوں میں بھی اب بچوں کو وقت پر ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔ ان کوششوں سے غریب اور متوسط ​​طبقے کی پریشانیوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔

دوستو،

آج ملک کس طرح کام کر رہا ہے اس کی ایک مثال امنگوں والے اضلاع  کی مہم ہے۔ 100 سے زیادہ اضلاع جو کبھی پسماندہ تصور کیے جاتے تھے، ان کی امنگوں والے اضلاع کے طور پرازسرنو تشریح کی گئی ہے، جہاں تمام پیرامیٹرز میں ترقی کو تیز کیا گیا ہے۔ آج ان میں سے بہت سے امنگوں والے اضلاع دوسرے اضلاع کے مقابلے بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس ماڈل کی بنیاد پر، ہم نے اب امنگوں والے بلاک پروگرام شروع کیا ہے۔

دوستو،

ملک اب لوگوں کو درپیش روزمرہ کے چیلنجوں کو ختم کرنے پر بہت زور دے رہا ہے۔ ابھی کچھ سال پہلے، بھارت میں ڈھائی کروڑ گھرانے تھے جو ہر شام اندھیرے میں ڈوب جاتے تھے کیونکہ ان کے پاس بجلی کا کنکشن نہیں تھا۔ سب کو بجلی کے مفت کنکشن دے کر ملک نے ان کی زندگیوں کو روشن کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں، دور دراز علاقوں میں بھی ہزاروں موبائل ٹاورز نصب کیے گئے ہیں تاکہ لوگوں کی 4جی اور 5جی کنیکٹیویٹی تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس سے پہلے، اگر آپ انڈمان یا لکشدیپ جزائر کا دورہ کرتے تھے، تو براڈ بینڈ کنیکٹیویٹی دستیاب نہیں تھی۔ آج سمندر کے اندر آپٹیکل فائبر کیبلز نے ان جزائر پر تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کیا ہے۔ ہم گاؤں کے گھروں اوردیہی علاقوں میں زمین کے تنازعات سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک کو بھی زمین کے ریکارڈ کے حوالے سے اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم، آج کا بھارت اس مسئلے کو حل کرنے میں پیش پیش ہے۔ پی ایم سوامیتو یوجنا کے تحت، گاؤں کے گھروں کی ڈرون میپنگ کی جا رہی ہے، اور رہائشیوں کو قانونی دستاویزات جاری کی جا رہی ہیں۔

دوستو،

ملک کی ترقی کے لیے جدید انفراسٹرکچر کی تیز رفتار ترقی بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے سے نہ صرف ملکی وسائل کی بچت ہوتی ہے بلکہ ان منصوبوں کی افادیت میں بھی نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ اس وژن کے ساتھ، پرگتی کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا گیا ہے، جہاں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کا باقاعدہ جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ منصوبے 30-40 سال سے زیر التوا تھے۔ میں ذاتی طور پر ان میٹنگوں کی صدارت کرتا ہوں۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اب تک 18 لاکھ کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا جائزہ لیا جا چکا ہے، اور ان کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو دور کر دیا گیا ہے۔ وقت پر مکمل ہونے والے پروجیکٹ لوگوں کی زندگیوں پر گہرے مثبت اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ یہ کوششیں ملک کی ترقی کو تیز کر رہی ہیں اور آئین کی بنیادی اقدار کو بھی مضبوط کر رہی ہیں۔

دوستو،

میں اپنی تقریر ڈاکٹر راجندر پرساد کے ان الفاظ پر ختم کرنا چاہوں گا۔ اسی دن، 26 نومبر، 1949 کو، ڈاکٹر راجندر پرساد نے دستور ساز اسمبلی میں اپنی اختتامی تقریر کے دوران کہاتھا، ‘‘بھارت کو آج ایماندار لوگوں کے ایک گروپ سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے جو ملک کے مفاد کو اپنے مفاد سے بالاتر رکھیں’’۔ ‘ملک سب سے مقدم،ملک سب سے بالاتر’ کا جذبہ بھارت کے آئین کو آنے والی کئی صدیوں تک زندہ رکھے گا۔ جو کام مجھے آئین نے دیا ہے، میں نے اس کی حدود میں رہنے کی کوشش کی ہے، میں نے کوئی تجاوز کرنے کی کوشش نہیں کی۔ چونکہ آئین نے مجھے یہ کام سونپا ہے اس لیے میں نے اپنی حدود کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ یہاں صرف اشارہ ہی کافی ہے، زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔

آپ کا بہت بہت شکریہ۔

 

 

****

 

ش ح۔ف ا۔ف ر

Urdu No. 2028