Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

30اپریل،2023ءکو  وزیر اعظم کی ’ من کی بات  ‘ کے100ویں  ایپیسوڈ  میں وزیر اعظم کا خطاب


میرے پیارے ہم وطنو ،  نمسکار !   آج ‘من کی بات’ کا 100 واں ایپیسوڈ ہے ۔ مجھے آپ سب کے ہزاروں خطوط موصول ہوئے ہیں، لاکھوں پیغامات   ملے ہیں اور میں نے کوشش کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خطوط پڑھوں، انہیں دیکھوں، پیغامات کو ذرا  سمجھنے کی کوشش کروں۔ آپ کے خط پڑھتے ہوئے کئی بار میں جذباتی ہوا، جذبات سے لبریز ہوا، جذبات میں بہہ گیا اور خود کو بھی سنبھالا۔ آپ نے مجھے ‘من کی بات’ کی 100ویں قسط پر مبارکباد دی ہے لیکن میں  سچے دِل سے کہتا ہوں  کہ در اصل  مبارکباد  کے مستحق تو  آپ سبھی ‘من کی بات’ کے سننے والے ہمارے ہم وطن ہیں ۔ ‘من کی بات’ کروڑوں  بھارتیوں  کی ‘دِل  کی بات’ ہے، یہ ان کے جذبات کی عکاسی ہے۔

ساتھیو ،   3 اکتوبر ،  2014  ء کو وجے دشمی کا تہوار تھا اور ہم سب نے مل کر وجے دشمی کے دن ‘من کی بات’ کا سفر شروع کیا تھا ۔ وجے دشمی کا مطلب ہے برائی پر اچھائی کی جیت کا تہوار۔ ‘من کی بات’ بھی ہم وطنوں کی اچھائیوں اور مثبتیت کا ایک منفرد تہوار بن گیا ہے۔ ایسا ہی ایک تہوار  ، جو ہر مہینے آتا ہے، جس کا ہم سبھی کو  انتظار  ہوتا  ہے ۔ ہم اس میں مثبتیت کا جشن مناتے ہیں۔ ہم اس میں لوگوں کی شرکت کا  بھی  جشن مناتے ہیں۔ کبھی کبھی یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ‘من کی بات’ کو اتنے مہینے اور اتنے سال گزر چکے ہیں۔ ہر  ایپیسوڈ اپنے آپ میں خاص  رہا ۔ ہر بار نئی مثالوں کی نوید، ہر بار وطن عزیز کی نئی کامیابیوں کی  توسیع  ۔ ‘من کی بات’ میں ملک کے کونے کونے سے ہر عمر کے لوگ شامل ہوئے۔ چاہے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کی بات ہو ،  سووچھ بھارت   مہم ہو ، کھادی سے محبت ہو یا فطرت کی بات ہو ، آزادی کا امرت مہوتسو ہو یا امرت سروور  کی بات ہو ،  ‘من کی بات’  ، جس موضوع سے جڑی  ، وہ عوامی تحریک بن گئی  اور آپ  لوگوں نے  بنا دیا  ۔ جب میں نے اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما کے ساتھ ‘من کی بات’ شیئر کی تو پوری دنیا میں اس کا چرچا ہوا۔

ساتھیو  ، ‘من کی بات’ میرے لیے دوسروں کی خوبیوں کی پوجا  کرنے کی طرح ہی رہا ہے۔ میرے ایک رہنما تھے –  جناب لکشمن راؤ جی انعامدار۔ ہم انہیں وکیل صاحب کہا کرتے  تھے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں دوسروں کی خوبیوں کی پرستش کرنی چاہیے۔ کوئی بھی آپ کے سامنے ہو، آپ کے ساتھ ہو، آپ کا مخالف ہو، ہمیں ان کی خوبیوں کو جاننے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کی یہ بات ہمیشہ مجھے متاثر کرتی رہی ہے۔ ‘من کی بات’ دوسروں کی خوبیوں سے سیکھنے کا ایک بہترین ذریعہ بن گیا ہے۔

     میرے پیارے ہم وطنو، اس پروگرام نے مجھے آپ سے کبھی دور نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو وہاں عام لوگوں  سے ملنا جلنا فطری  طور پر ہو ہی جاتا تھا۔ وزیراعلیٰ کا کام  کاج اور آفس ایسا ہی ہوتا ہے، ملاقات کے بہت مواقع  ملتے رہتے ہیں لیکن  2014  ء میں دلّی آنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ یہاں کی زندگی بہت مختلف ہے۔ کام کی نوعیت مختلف ہے، ذمہ داریاں مختلف ہیں،  صورتِ حال  کی پابندی ،  سکیورٹی کا تام جھام ، وقت کی حد۔ ابتدائی دنوں میں کچھ مختلف محسوس ہوا، خالی  خالی سا محسوس  کرتا تھا ۔ پچاس سال پہلے میں نے اپنا گھر اس لیے نہیں چھوڑا تھا کہ ایک دن اپنے ہی ملک کے لوگوں سے رابطہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اہل وطن  ، جو میرا سب کچھ ہیں، میں ان سے جدا نہیں رہ سکتا۔ ‘من کی بات’ نے مجھے اس چیلنج کا حل دیا، عام آدمی سے جڑنے کا ایک طریقہ فراہم کیا ۔ دفتر اور پروٹوکول نظام تک محدود رہا اور عوامی جذبات، کروڑوں عوام کے ساتھ، میرے جذبات، دنیا کا لازم و ملزوم حصہ بن گئے۔ میں ہر ماہ ملک کے لوگوں کے ہزاروں پیغامات پڑھتا ہوں، ہر ماہ مجھے اہل وطن کا ایک شاندار روپ نظر آتا ہے۔ میں  ہم وطنوں کے تپ اور تیاگ کی انتہا   کو دیکھتا ہوں  اور محسوس کر  تا ہوں۔ مجھے تو یہ بھی نہیں لگتا کہ میں آپ  سے ذرا بھی دور ہوں۔ میرے لیے ‘من کی بات’ کوئی پروگرام نہیں، میرے لیے یہ ایک  عقیدت ، پوجا ، وَرَت  ہے۔  جیسے لوگ ایشور کی پوجا کرنے جاتے ہیں تو پرساد کی تھال لاتے ہیں ۔  میرے لیے ‘من کی بات’  ایشور کی صورت میں عوام کے قدموں میں پرساد کی تھال کی طرح ہے  ۔ ‘من کی بات’ میرے دِل کا روحانی سفر بن گیا ہے۔

मन की बात’ स्व से समिष्टि की यात्रा है।

मन की बात’ अहम् से वयम् की यात्रा है।

यह तो मैं नहीं तू ही इसकी संस्कार साधना है।

آپ  تصور کریں ، میرے کچھ ہم وطن 40-40 سالوں سے ویران پہاڑیوں اور بنجر زمینوں پر درخت لگا رہے ہیں، تو بہت سے لوگ 30-30 سالوں سے پانی کے تحفظ کے لیے  باولیاں اور تالاب بنا رہے ہیں، ان کی صفائی کر رہے ہیں۔ کوئی 25-30 سال سے غریب بچوں کو پڑھا رہا ہے، کوئی غریبوں کے علاج میں مدد کر رہا ہے۔ ‘من کی بات’ میں کئی بار ان کا ذکر کرتے ہوئے میں جذباتی ہو گیا  ہوں۔ آل انڈیا ریڈیو کے ساتھیوں کو اسے کئی بار دوبارہ ریکارڈ کرنا پڑا۔ آج چاہے ماضی کتنا ہی آنکھوں کے سامنے آرہا ہو۔ ہم وطنوں کی ان کوششوں نے مجھے مسلسل محنت کرنے کی ترغیب دی ہے۔

ساتھیو  ، جن لوگوں کا ہم ‘من کی بات’ میں ذکر کرتے ہیں وہ  سب ہمارے ہیرو ہیں  ، جنہوں نے اس پروگرام کو جاندار بنایا ہے۔ آج جب ہم 100ویں قسط کے سنگ میل پر پہنچ چکے ہیں، میری یہ خواہش بھی ہے کہ ہم ایک بار پھر ان تمام ہیروز  کے پاس جاکر ، ان کے سفر کے بارے میں جانیں ۔ آج ہم کچھ ساتھیوں سے بھی بات کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہریانہ کے بھائی سنیل جگلان میرے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ سنیل جگلان جی کا میرے ذہن پر اتنا اثر ہوا کیونکہ ہریانہ میں صنفی تناسب پر کافی بحث ہوتی تھی اور میں نے بھی ہریانہ سے ہی ‘بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ’ کی مہم شروع کی تھی  اور اس دوران، جب میں نے سنیل جی کی ‘سیلفی ود ڈاٹر’ مہم دیکھی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے بھی ان سے سیکھا اور اانہیں ‘من کی بات’ میں شامل کیا۔  دیکھتے ہی دیکھتے  ، ‘سیلفی ود ڈاٹر’ ایک عالمی مہم میں تبدیل ہو گئی اور اس میں مسئلہ سیلفی کا نہیں تھا ، ٹیکنالوجی کا نہیں تھا ،اس میں ڈاٹر کو ، بیٹی کو اہمیت دی گئی تھی ۔ زندگی میں بیٹی کا مقام  کتنا اہم ہوتا ہے ، اس مہم  سے یہ بھی واضح ہوا  ۔ ایسی بہت سی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہریانہ میں صنفی تناسب میں بہتری آئی ہے۔ چلو آج سنیل جی کے ساتھ کچھ گپ شپ کرتے ہیں۔

محترم وزیر اعظم  –  نمسکار  سنیل  جی ،

سنیل-  نمسکار سر، آپ کی آواز سن کر میری خوشی بہت بڑھ گئی ہے۔

وزیر اعظم- سنیل جی  ‘ سیلفی وِد ڈاٹر ‘ ہر کسی کو یاد ہے… اب جب اس پر دوبارہ  بات ہو رہی ہے تو آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟

سنیل –  محترم وزیر اعظم ،  اصل میں  آپ نے ،ہماری ریاست ہریانہ سے پانی پت کی چوتھی  لڑائی بیٹیوں کی چہروں پر مسکراہٹ لانے کے لئے شروع کی تھی ،   جسے پورے ملک نے آپ کی قیادت میں جیتنے کی کوشش کی ہے، واقعی  ہر بیٹی کے والد اور بیٹیوں کے چاہنے والوں کے لئے بہت بڑی بات ہے  ۔

وزیر اعظم- سنیل جی، آپ کی بیٹی اب کیسی ہے، ان دنوں کیا کر رہی ہے؟

سنیل-  جی ، میری بیٹیاں نندنی اور  یاچیکا ہیں، ایک ساتویں کلاس میں پڑھ رہی  ہے اور  ایک چوتھی کلاس میں پڑھ رہی ہے اور وہ  آپ کی بہت بڑی مداح ہے  ۔ انہوں نے  آپ کے لئے تھینک یو پرائم منسٹر کرکے اپنی کلاس میٹس جو ہیں ، لیٹر بھی لکھوائے تھے ۔

وزیراعظم – واہ واہ! اچھی بیٹیوں کو آپ میرا اور من کی بات سننے والوں کا ڈھیروں آشیر  واد  دیجئے ۔

سنیل- آپ کا بہت بہت شکریہ، آپ کی وجہ سے ملک کی بیٹیوں کے چہروں پر مسکراہٹ مسلسل بڑھ رہی ہے۔

وزیر اعظم – بہت بہت شکریہ سنیل جی۔

سنیل – شکریہ۔

ساتھیو ، میں بہت مطمئن ہوں کہ ‘من کی بات’ میں ہم نے ملک کی خواتین کی طاقت کی سینکڑوں متاثر کن کہانیوں کا ذکر کیا ہے۔ ہماری فوج ہو یا کھیلوں کی دنیا، میں نے جب بھی خواتین کی کامیابیوں کی بات کی ہے، ان کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم نے چھتیس گڑھ کے دِیور گاؤں کی خواتین کے بارے میں بات کی۔ یہ خواتین سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے گاؤں کے چوراہوں، سڑکوں اور مندروں کو صاف کرنے کی مہم چلاتی ہیں۔ اسی طرح، ملک نے تمل ناڈو کی قبائلی خواتین سے بھی بہت زیادہ ترغیب لی، جنہوں نے ہزاروں ماحول دوست ٹیراکوٹا کپ برآمد کیے۔ تمل ناڈو میں ہی 20,000 خواتین ویلور میں ناگ ندی کو زندہ کرنے کے لیے اکٹھی ہوئیں۔ ایسی بہت سی مہمات کی قیادت ہماری  ناری شکتی نے کی ہے اور ‘من کی بات’ ان کی کوششوں کو سامنے لانے کا ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے۔

ساتھیو، اب ہمارے پاس فون لائن پر ایک اور  شخص موجود ہیں ۔ ان  کا نام منظور احمد ہے۔ ‘من کی بات’ میں جموں و کشمیر کی  پینسل سلیٹس کے بارے میں بات کرتے ہوئے منظور احمد جی کا ذکر کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم – جناب منظور صاحب کیسے ہیں آپ؟

منظور- شکریہ  سر …   بہت اچھے  سے ہیں سر ۔

وزیر اعظم- من کی بات کے اس 100ویں ایپی سوڈ میں آپ سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے۔

منظور۔ شکریہ سر ۔

وزیر اعظم- اچھا،  یہ پینسل سلیٹس والا  کام کیسا چل رہا ہے؟

منظور – بہت اچھا چل رہا ہے  سر ، بہت اچھا  سر ، جب سے آپ نے ‘من کی بات’ میں ہمارے بارے میں بات کی ہے، تب سے  بہت کام بڑھ گیا ہے اور دوسروں کا  اس کام میں روزگار بہت بڑھ گیا ہے۔

وزیراعظم: اب کتنے لوگوں کو روزگار ملتا ہوگا؟

منظور – اب میرے پاس 200 پلس ہیں…

وزیر اعظم – اوہ واہ!  مجھے بہت خوشی ہوئی ۔

منظور –  سر جی..  سر جی … اب میں اسے ایک دو مہینے میں اس کو اور بڑھا رہا ہوں اور 200 لوگوں کا روزگار بڑھ جائے گا  سر ۔

وزیراعظم – واہ واہ!  دیکھئے منظور جی…

منظور –  جی سر…

وزیر اعظم- مجھے اچھی طرح یاد ہے اور اس دن آپ نے مجھے بتایا تھا کہ یہ ایسا کام ہے  ، جس کی کوئی پہچان نہیں، کوئی اپنی شناخت نہیں اور آپ کو بہت تکلیف  بھی تھی اور اس کی وجہ سے آپ کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔  لیکن اب تو آپ کی پہچان بھی بن گئی ہے  اور  200 سے زیادہ  لوگوں کو روزگار دے رہے ہیں۔

منظور –  جی سر – جی سر ۔

وزیراعظم-  آپ نے نئی توسیع کرکے اور 200 لوگوں کو روزگار دے کر بڑی خوشی کی خبر دی ہے۔

منظور – یہاں تک کہ جناب، یہاں کے کسانوں کو بھی اس سے بہت فائدہ ہوا،  سر ۔ ایک درخت 2000 میں بکتا تھا، اب وہی درخت 5000 تک پہنچ گیا ہے  سر ۔ اس کے بعد سے اس کی مانگ اتنی بڑھ گئی ہے..اور یہ اس کی اپنی پہچان بھی بن گئی ہے،  سر  میرے پاس اس کے بہت سے آرڈرز ہیں، ابھی  میں  آئندہ ایک دو مہینے  میں  اور ایکسپینڈ کرکے دو – ڈھائی سو ، دو چار گاؤوں میں جتنے بھی لڑکے لڑکیاں ہیں ، اس میں کام کر سکتے ہیں  ، اُن کی بھی   روزی  روٹی چل سکتی ہے سر ۔

وزیر اعظم- دیکھیے  منظور جی،  ووکل فار لوکل  کی طاقت کتنی زبردست ہے، آپ نے  اسے زمین پر  اتار کر دکھا دیا ہے ۔

منظور –  جی سر ۔

وزیر اعظم- آپ کو اور گاؤں کے تمام کسانوں اور آپ کے ساتھ کام کرنے والے تمام ساتھیوں کے لیے  میری طرف سے بہت سی نیک خواہشات، شکریہ بھائی۔

منظور ۔ شکریہ سر ۔

ساتھیو، ہمارے ملک میں بہت سے ایسے باصلاحیت لوگ ہیں  ، جو اپنی محنت کی بدولت کامیابی کے معراج پر پہنچے ہیں۔ مجھے یاد ہے، وشاکھاپٹنم کے وینکٹ مرلی پرساد جی نے   خود کفیل بھارت کا چارٹ شیئر کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ  بھارتی مصنوعات کا استعمال کریں گے۔ جب بیتیا کے پرمود جی نے ایل ای ڈی بلب بنانے کے لیے ایک چھوٹا یونٹ قائم کیا  تھا  ،  گڑھ مکتیشور کے سنتوش جی نے چٹائیاں بنانے کا کام کیا ،  ‘من کی بات’   ہی ، اُن کی مصنوعات کو سب کے سامنے لانے کا ذریعہ بنی ۔ ہم نے ‘من کی بات’ میں میک ان انڈیا  سے لے کر   اسپیس اسٹارٹ اپس  تک کی  بات چیت کی ہے ۔

ساتھیو، آپ کو یاد ہوگا کہ چند  ایپیسوڈ پہلے  ، میں نے منی پور کی بہن وجے شانتی دیوی کا بھی ذکر کیا تھا۔ وجے شانتی جی کمل کے ریشوں سے کپڑے بناتی ہیں۔ جب ‘من کی بات’ میں ان کے اس منفرد ماحول دوست آئیڈیا کے بارے میں بات کی گئی تو ان کا کام زیادہ مقبول ہوا۔ آج وجے شانتی جی فون پر ہمارے ساتھ ہیں۔

وزیر اعظم:- نمستے وجے شانتی جی! آپ کیسی ہو؟

وجے شانتی جی:- سر، میں ٹھیک ہوں۔

وزیراعظم:- اور آپ کا کام کیسا چل رہا ہے؟

 وجے شانتی جی:- جناب، اب بھی میں  30 خواتین کے ساتھ  مل کر کام کر رہی ہوں ۔

وزیراعظم:- اتنی مختصر مدت میں آپ 30 افراد کی ٹیم تک پہنچ گئی ہیں!

جے شانتی جی:- ہاں  سر  ، اس سال  میں اپنے علاقے میں 100 خواتین کے ساتھ  اور توسیع کروں گی ۔

وزیراعظم: تو آپ کا ہدف 100 خواتین ہیں۔

وجے شانتی جی :-  جی! 100 خواتین

وزیر اعظم:- اور اب لوگ اس لوٹس اسٹیم فائبر سے واقف ہیں۔

وجے شانتی جی:- ہاں  سر ، پورے  بھارت میں ‘من کی بات’ پروگرام  کے ذریعے  اب سب جان چکے ہیں۔

وزیر اعظم: – تو اب یہ بہت مشہور ہے۔

وجے شانتی جی:- ہاں  سر ، وزیر اعظم کے ‘من کی بات’ پروگرام سے ہر کوئی کمل کے فائبر کے بارے میں جان گیا ہے ۔

وزیراعظم: تو اب آپ کو  مارکیٹ  بھی مل گیا ہے ؟

وجے شانتی جی:- ہاں، مجھے امریکہ  کا ایک مارکیٹ ملا ہے  ، وہ  اسے بڑی مقدار میں خریدنا چاہتے ہیں، لیکن میں اس سال سے  یہ امریکہ بھیجنا  شروع کروں گی ۔

وزیر اعظم:-  یعنی اب آپ  ایک بر آمد کار بن گئی ہیں؟

وجے شانتی جی:-  جی سر ، اس سال سے میں   بھارت میں بنی ہوئی لوٹس فائبر کی مصنوعات برآمد کر رہی  ہوں۔

وزیر اعظم:- تو، جب میں کہتا ہوں ووکل فار لوکل اور اب لوکل فار گلوبل ۔

وجے شانتی جی:-  جی سر ، میں اپنی  مصنوعات کو پورے عالم میں  ، پوری دنیا تک پہنچانا چاہتی  ہوں  ۔

وزیر اعظم: – تو مبارکباد اور آپ کے لیے نیک خواہشات ۔

وجے شانتی جی:- شکریہ  سر ۔

وزیر اعظم:- شکریہ، شکریہ وجئے شانتی ۔

وجے شانتی جی:-  آپ کا شکریہ  سر ۔

ساتھیو، ‘من کی بات’ کی ایک اور خاصیت رہی ہے۔ ‘من کی بات’ کے ذریعے کئی عوامی تحریکوں نے جنم لیا اور  رفتار بھی پکڑی ہے ۔ مثال کے طور پر،  ہمارے کھلونے  ، ہماری ٹوئے انڈسٹری کو دوبارہ قائم کرنے کا مشن ‘من کی بات’ سے  ہی شروع ہوا تھا ۔    بھارتی نسل کے دیسی کتوں کو لے کر بیداری بڑھانے کا آغاز بھی تو   ‘من کی بات’  سے ہی کیا گیا تھا  ۔ ہم نے ایک اور مہم شروع کی تھی کہ ہم غریب چھوٹے دکانداروں سے  مول بھاؤ نہیں کریں گے، جھگڑا نہیں کریں گے۔ جب ‘ہر گھر ترنگا’ مہم شروع ہوئی تب بھی  ‘من کی بات’ نے  ، ہم وطنوں کو اس عہد سے جوڑنے میں اہم رول ادا کیا۔ ایسی ہر مثال معاشرے میں تبدیلی کا سبب بنی ہے۔ پردیپ سنگوان جی نے بھی سماج کو تحریک دینے کا ایسا کام  کیا ہے۔ ‘من کی بات’ میں، ہم نے پردیپ سنگوان جی کی ‘ہیلنگ ہمالیہ’ مہم پر تبادلہ خیال کیا تھا ۔ وہ فون لائن پر ہمارے ساتھ ہیں ۔

مودی جی – پردیپ جی نمسکار!

پردیپ جی – سر جئے ہند۔

مودی جی – جئے ہند، جئے ہند، بھائی! آپ کیسے ہو ؟

پردیپ جی –  سر بہت بڑھیا  ،  آپ کی آواز سن کر اور بھی اچھا ۔

مودی جی – آپ نے ہمالیہ کو  ہیل کرنے کا سوچا ۔

پردیپ جی – جی سر ۔

مودی جی  –   مہم  چلائی ، آج کل آپ کی مہم کیسی  چل رہی ہے؟

پردیپ جی – سر یہ بہت اچھی  چل رہی ہے۔   2020  ء سے یقین کریں  ، جو کام ہم پانچ سال میں کرتے تھے  ، وہ اب ایک سال میں ہو جاتا ہے۔

مودی جی –  ارے  واہ!

پردیپ جی – جی ہاں،  سر ۔ شروع میں، میں بہت گھبرایا ہوا تھا، مجھے اس بات کا بہت ڈر تھا کہ کیا میں ساری زندگی یہ کام کر پاؤں گا  یا نہیں کر پاؤں گا لیکن مجھے کچھ سہارا ملا اور  2020  ء تک،  ہم بہت جدو جہد بھی کر رہے تھے  ۔ لوگ بہت کم  جڑ رہے تھے، بہت سے لوگ ایسے تھے  ، جو تعاون نہیں کر پا رہے تھے۔ وہ ہماری مہم پر بھی اتنی توجہ نہیں دے رہے تھے لیکن  2020  ء کے بعد جب ‘من کی بات’ میں اس کا ذکر آیا تو بہت سی چیزیں بدل گئیں۔ مطلب کہ پہلے ہم ایک سال میں 6-7 کلیننگ ڈرائیوز کرتے تھے، اب ہم 10 کلیننگ ڈرائیوز کرتے  ہیں ۔ آج کی تاریخ میں ہم روزانہ کی بنیاد پر الگ الگ مقامات سے پانچ ٹن کچرا جمع کرتے ہیں۔

مودی جی –  واہ  واہ!

پردیپ جی – سر، ‘من کی بات’ میں ذکر ہونے کے بعد، یقین کریں کہ میں ایک وقت میں تقریباً  چھوڑنے کے مرحلے پر  پہنچ گیا تھا اور اس کے بعد میری زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں اور چیزیں اتنی تیز رفتار ہو گئیں کہ جو چیزیں ہم نے سوچی بھی نہیں تھی ، وہ ہونے لگیں  ۔  میں واقعی شکر گزار ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ آپ ہم جیسے لوگوں کو کیسے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اتنے دور افتادہ علاقے میں کون کام کرتا ہے، ہم ہمالیائی علاقے میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔ ہم اس بلندی پر کام کر رہے ہیں۔ آپ نے ہمیں وہاں  ڈھونڈ لیا ۔ ہمارے کام کو دنیا کے سامنے   لے کر آئے ۔ اس لیے یہ میرے لیے  ، اس وقت بھی اور آج بھی بہت جذباتی لمحہ تھا کہ میں اپنے ملک کے  اوّلین خادم ( پرتھم سیوک )  کے ساتھ بات چیت کر پا رہا ہوں۔ میرے لیے اس سے زیادہ خوش قسمتی  کی بات کوئی نہیں ہو سکتی۔

مودی جی – پردیپ جی! آپ ہمالیہ کی چوٹیوں پر حقیقی معنوں میں  سادھنا کر رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اب آپ کا نام سن کر لوگوں کو یاد  آتا جاتا ہے کہ آپ  کیسے پہاڑوں کی  سووچھتا مہم میں جڑے ہیں۔

پردیپ جی – جی  سر ۔

مودی جی – اور جیسا کہ آپ نے بتایا کہ اب ایک بہت بڑی ٹیم بنتی  جا رہی ہے اور آپ روزانہ اتنا بڑا کام کر رہے ہیں۔

پردیپ جی – جی  سر ۔

مودی جی – اور مجھے پورا بھروسہ ہے کہ آپ کی ان کوششوں کی وجہ سے، اس پر  بات چیت سے ، اب  تو کتنے ہی کوہ پیما  صفائی  ستھرائی سے متعلق تصاویر پوسٹ کرنے لگے ہیں۔

پردیپ جی – جی  سر ! بہت

مودی جی – یہ اچھی بات ہے، آپ جیسے ساتھیو کی کوششوں سے،   کچرا بھی دولت بن رہا ہے ، یہ  بات اب لوگوں کے دماغ میں بیٹھ رہی ہے اور ماحولیات کا بھی تحفظ ہو رہا ہے اور ہمالیہ  کا ، جو ہمارا فخر ہے ، اسے سنوارنا اور سنبھالنا ، اس سے لوگ جڑ رہے ہیں  ۔ پردیب جی ، بہت اچھا لگا مجھے ، بہت شکریہ بھیا ۔

پردیپ جی –  شکریہ  سر  آپ کا بہت بہت شکریہ جئے ہند۔

ساتھیو، آج ملک میں سیاحت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہمارے قدرتی وسائل ہوں، دریا ہوں، پہاڑ ہوں، تالاب ہوں یا ہمارے مقدس مقامات ہوں ، ان کو صاف ستھرا رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس سے سیاحت کی صنعت کو بہت مدد ملے گی۔ سیاحت میں صفائی کے ساتھ ساتھ ہم نے بے مثال بھارت مہم   پر بھی کئی مرتبہ بات کی ہے۔ اس تحریک کی وجہ سے پہلی بار لوگوں کو بہت سی ایسی جگہوں کے بارے میں معلوم ہوا، جو ان کے آس پاس  ہی موجود تھیں ۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ بیرون ملک سیاحت پر جانے سے پہلے ہمیں اپنے ملک کے کم از کم 15 سیاحتی مقامات کی سیر کرنی چاہیے اور یہ مقام ، اس ریاست  کا نہیں ہونا چاہیے  ، جہاں آپ رہتے ہیں، آپ کی ریاست سے باہر کسی دوسری ریاست کے ہونے چاہئیں ۔ اسی طرح ہم نے  سووچھ سیاچن، سنگل یوز پلاسٹک اور ای ویسٹ جیسے سنجیدہ موضوعات پر مسلسل بات کی ہے۔ آج ‘من کی بات’ کی یہ کوشش ماحولیاتی مسئلے کو حل کرنے میں بہت اہم ہے  ، جس پر پوری دنیا پریشان ہے۔

ساتھیو، اس بار مجھے یونیسکو کے ڈی جی، آدرے  ازولے کی طرف سے ‘من کی بات’ کے حوالے سے ایک اور خاص پیغام ملا ہے۔ انہوں نے تمام ہم وطنوں کو 100 ایپیسوڈ کے اس شاندار سفر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے کچھ سوالات پوچھے ہیں ۔   آئیے  ، پہلے یونیسکو کے ڈی جی کے  دِل کی  بات سنتے ہیں۔

#Audio (UNESCO DG)#

ڈی جی یونیسکو: نمستے ایکسی لینسی، محترم وزیر اعظم یونیسکو کی جانب سے میں ‘من کی بات’ ریڈیو نشریات کے 100ویں ایپی سوڈ کا حصہ بننے کے لیے ، اس موقع کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یونیسکو اور  بھارت کی ایک طویل مشترکہ تاریخ  رہی ہے۔ ہمارے مینڈیٹ کے تمام شعبوں میں ایک ساتھ بہت مضبوط شراکت داری ہے – تعلیم، سائنس، ثقافت اور معلومات اور میں آج اس موقع  پر تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔ یونیسکو اپنے رکن ممالک کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہا ہے کہ  2030  ء تک دنیا میں ہر کسی کو معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہو۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے ساتھ، کیا آپ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے  بھارتی طریقہ کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ یونیسکو ثقافت کی حمایت اور ورثے کے تحفظ کے لیے بھی کام کرتا ہے اور  بھارت اس سال جی – 20   کی صدارت کر رہا ہے۔ اس تقریب میں عالمی رہنما دلّی آئیں گے۔ محترم،  بھارت کس طرح ثقافت اور تعلیم کو بین الاقوامی ایجنڈے میں سرفہرست رکھنا چاہتا ہے؟ میں ایک بار پھر  یہ موقع    دینے کے  لئے ، آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کے ذریعے  بھارت کے لوگوں  کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں…. جلد ہی ملتے ہیں۔ بہت بہت شکریہ ۔

وزیر اعظم مودی: آپ کا شکریہ،  سر ۔ مجھے 100ویں ‘من کی بات’ پروگرام میں آپ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے خوشی ہو ئی  ہے۔  میں اس بات  پر بھی خوش ہوں کہ آپ نے تعلیم اور ثقافت کے اہم مسائل کو اٹھایا ہے۔

ساتھیو، یونیسکو کے ڈی جی نے تعلیم اور ثقافتی تحفظ کے سلسلے میں  بھارت کی کوششوں کے بارے میں جاننا چاہا ہے۔ یہ دونوں موضوعات ‘من کی بات’ کے پسندیدہ موضوعات رہے ہیں۔

چاہے بات تعلیم کی ہو یا ثقافت کی، چاہے اس کے تحفظ کی ہو یا فروغ کی، یہ  بھارت کی قدیم روایت رہی ہے۔ آج ملک  ، اس سمت میں  ، جو کام کر رہا ہے  ، وہ  واقعی قابل ستائش ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی ہو یا علاقائی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا اختیار، تعلیم میں ٹیکنالوجی کا انضمام، آپ کو ایسی بہت سی کوششیں  دیکھنے کو ملیں گی۔ برسوں پہلے گجرات میں  بہتر تعلیم دینے اور اسکول چھوڑنے والوں کی شرح کو کم کرنے کے لئے ، ‘گنو اُتسو اور شالا پرویشو اُتسو’ جیسے پروگرام عوامی شراکت کی شاندار مثال بنے تھے ۔   ‘من کی بات’ میں، ہم نے ایسے بہت سے لوگوں کی کوششوں کو اجاگر کیا ہے، جو تعلیم کے لیے بے لوث کام کر رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا، ایک بار ہم نے اوڈیشہ  میں ٹھیلے پر چائے بیچنے والے آنجہانی ڈی پرکاش راؤ  جی کے بارے میں بات کی تھی  ، جو غریب بچوں کو پڑھانے کے مشن میں  لگے ہوئے تھے۔ جھارکھنڈ کے دیہات میں ڈیجیٹل لائبریریاں چلانے والے سنجے کشیپ ہوں،  کووڈ کے دوران ای لرننگ کے ذریعے بہت سے بچوں کی مدد کرنے والی ہیم لتا این کے جی ہوں  ، ایسے بہت سے اساتذہ کی مثالیں ہم نے  ‘من کی بات’  میں  شامل کی ہیں  ۔ ہم نے ‘من کی بات’ میں ثقافتی تحفظ کی کوششوں کو بھی مستقل جگہ دی ہے۔

لکشدیپ کے کمیل  برادرس چیلنجرز کلب ہو  یا کرناٹک کے  ‘کوئیم  شری’  ،   ‘کلا چیتنا’ جیسے فورم ہوں ، ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے مجھے خط لکھ کر ایسی مثالیں بھیجی ہیں۔ ہم نے ان تین مقابلوں کے بارے میں بھی بات کی  ، جو حب الوطنی پر ‘گیت’، ‘لوری’ اور ‘رنگولی’ سے  جڑے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا، ایک بار ہم نے ملک بھر   سے  داستان گو افراد سے داستان گوئی کے ذریعے تعلیم کے بھارتی طریقوں پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ اجتماعی کوششیں سب سے بڑی تبدیلی لا سکتی ہیں۔ اس سال جہاں ہم آزادی کے  امرت کال میں آگے بڑھ رہے ہیں  ، وہیں جی – 20   کی صدارت بھی کر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ متنوع عالمی ثقافتوں کو تقویت دینے کا ہمارا عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے اپنشدوں کا ایک منتر صدیوں سے ہمیں   ترغیب دیتا آیا ہے۔

चरैवेति चरैवेति चरैवेति।

चलते रहो-चलते रहो-चलते रहो।

آج ہم  اسی چریویتی چریویتی کے جذبے کے ساتھ  ‘من کی بات’ کا 100واں  ایپیسوڈ  مکمل کر رہے ہیں۔  بھارت کے سماجی تانے بانے کو مضبوط کرنے میں، ‘من کی بات’ ایک مالا کے دھاگے کی طرح ہے  ، جو ہر  ایک  موتی جوڑے رکھتا ہے۔ ہر  ایپیسوڈ میں اہل وطن کی خدمت اور  صلاحیت نے دوسروں کو  تحریک دی ہے ۔ اس پروگرام میں ہر ہم وطن دوسرے ہم وطنوں کے لیے تحریک بنتا ہے۔ ایک طرح سے من کی بات کا ہر ایپیسوڈ  اگلے ایپیسوڈ کے لئے بنیاد تیار کرتا ہے۔ ‘من کی بات’ ہمیشہ خیر سگالی، خدمت اور فرض کے احساس کے  جذبے کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ آزادی کے  امرت کال میں یہ مثبتیت ملک کو آگے لے جائے گی، اسے ایک نئی بلندی پر لے جائے گی اور مجھے خوشی ہے کہ ‘من کی بات’ سے جو شروعات ہوئی  تھی ، وہ آج ملک میں ایک نئی روایت بن رہی ہے۔ ایک ایسی روایت  ، جس میں ہمیں    ، سب کی کوششوں  کا جذبہ  نظر آتا ہے ۔

ساتھیو، آج میں آل انڈیا ریڈیو کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا  ،  جو بہت صبر کے ساتھ  ، اس پورے پروگرام کو ریکارڈ  کرتے ہیں ۔  وہ مترجم ، جو بہت ہی کم وقت میں ، بہت تیزی کے ساتھ ‘من کی بات’ کا مختلف علاقائی زبانوں میں  ترجمہ  کرتے ہیں ، میں اُن کا بھی شکر گزار ہوں ۔ میں دوردرشن  کے اور  مائی گوو  کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں ملک بھر کے تمام ٹی وی چینلز، الیکٹرانک میڈیا والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو کمرشل وقفے کے بغیر ‘من کی بات’ دکھاتے ہیں اور آخر میں، میں ان لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا  ، جو ‘من کی بات’  کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں – بھارت کے لوگ ، بھارت میں یقین رکھنے والے لوگ ، یہ سب کچھ آپ کی تحریک اور طاقت سے ہی ممکن ہو پایا ہے ۔ 

 

ساتھیو  ،  ویسے تو میرے دِل میں آج  اتنا کچھ  کہنے کو ہے کہ وقت اور الفاظ دونوں کم  پڑ رہے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ سب میرے جذبات کو سمجھیں گے ۔ آپ کے خاندان کے ایک فرد کے طور پر، میں ‘من کی بات’ کی مدد سے آپ کے درمیان رہا ہوں، آپ کے درمیان رہوں گا۔ ہم اگلے مہینے پھر ملیں گے۔ ہم ایک بار پھر نئے  موضوعات اور نئی  جانکاریوں کے ساتھ ہم وطنوں کی کامیابیوں کا جشن منائیں گے، تب تک  کے لئے مجھے وداع  دیجیے  اور اپنا اور اپنوں کا خوب خیال رکھیے ۔ بہت بہت شکریہ ۔ نمسکار  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا )

U. No. 4663