Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

وزیر اعظم نے اتراکھنڈ کے مانا میں 3400 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت کے روڈ اور روپ وے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا

وزیر اعظم نے اتراکھنڈ کے مانا میں 3400 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت کے روڈ اور روپ وے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا


 

’’میرے لیے سرحد پر واقع ہر گاؤں، ملک کا پہلا گاؤں ہے‘‘

’’21ویں صدی کے ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کے دو بنیادی ستون ہیں۔ پہلا، اپنی وراثت پر فخر اور دوسرا، ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش‘‘

’’ان ترقیاتی پروجیکٹوں کی تکمیل سے  پوری دنیا کے عقیدت مندوں کو خوشی حاصل ہوگی‘‘

’’شرم جیوی، بھگوان کا کام کر رہے ہیں، آپ ان کا خیال رکھیں، انہیں صرف اجرت یافتہ کارکن نہ سمجھیں‘‘

’’عقیدت کے ان مقامات کی خستہ حالت غلامی کی ذہنیت کی واضح نشانی تھی‘‘

’’آج، کاشی، اجین، ایودھیا اور  عقیدت کے کئی دیگر مراکز کو ان کا کھویا ہوا امتیاز اور وراثت دوبارہ حاصل ہو رہی ہے‘‘

’’اپنے سفر سے متعلق بجٹ کا پانچ فیصد حصہ مقامی مصنوعات کو خریدنے پر خرچ کریں‘‘

’’پہاڑ کے لوگوں کی نرم روی کو ان کے خلاف بہانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا‘‘

’’ہم نے ان سرحدی علاقوں کو خوشحالی کی شروعات مان کر وہاں سے کام کا آغاز کیا‘‘

’’ہم سرحدی علاقوں کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہاں ہونے والی ترقی سے سب کو فائدہ ہو‘‘

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اتراکھنڈ کے مانا میں 3400 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت کے روڈ اور روپ وے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس سے پہلے، وزیر اعظم نے کیدار ناتھ کا دورہ کیا اور شری کیدار ناتھ مندر کے درشن اور پوجا ارچنا کی۔ انہوں نے آدی گرو شنکرا چاریہ سمادھی استھل کا بھی دورہ کیا اور منداکنی آستھا پتھ اور سرسوتی آستھا پتھ کے زیر تکمیل کاموں کا جائزہ لیا۔ وزیر اعظم نے  بدری ناتھ کا بھی دورہ کیا اور شری بدری ناتھ مندر کے درشن اور پوجا ارچنا کی۔ اس کے بعد انہوں نے الک نندا ریور فرنٹ  کے کام میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا۔

مجمع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے  کہا کہ دھام کے درشن اور پوجا ارچنا کرنے سے انہیں کافی خوشی حاصل ہوئی اور زندگی مالا مال ہو گئی۔ انہوں نے کہا، ’’میری زندگی مالا مال ہو گئی، من خوش ہو گیا اور یہ لمحات ترو تازہ ہو گئے۔‘‘ اپنے پہلے کے دورے کے دوران کہے گئے الفاظ کہ موجودہ دہائی اتراکھنڈ کی ہے، کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ  انہیں پورا عقیدہ ہے کہ بابا کیدار اور بدری وشال ان الفاظ کو پورا کریں گے۔ انہوں نے کہا، ’’آج، میں آپ کے درمیان  ہوں اور ان نئے پروجیکٹوں کے بارے میں اپنے اسی عہد کو دہراتا ہوں۔‘‘

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ مانا گاؤں کو ہندوستان کی سرحد کا آخری گاؤں تصور کیا جاتا ہے، وزیر اعظم نے کہا، ’’میرے لیے سرحد کا ہر گاؤں، ملک کا پہلا گاؤں ہے  اور سرحد کے قریب رہنے والے لوگ ملک کے مضبوط محافظ ہیں۔ وزیر اعظم نے  اس علاقےکے ساتھ اپنی طویل وابستگی اور اس کی اہمیت کے بارےمیں ان کے مسلسل تعاون کویاد کیا۔ انہوں نے ان کے تعاون اور اعتماد کا بھی ذکر کیا۔ مانا کے لوگوں کی طرف سے ملنے والی مسلسل محبت اور حمایت کا وزیر اعظم نے شکریہ ادا کیا۔

وزیر اعظم نے 21ویں صدی کے ترقی یافتہ ہندوستان کے دو بڑے ستونوں کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا، ’’پہلا، اپنی وراثت پر فخر اور دوسرا،  ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش۔  آج اترا کھنڈ نے ان دونوں ستونوں کو مضبوط کیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ  کیدارناتھ اور بدری وشال کے درشن سے انہیں  کافی خوشی حاصل ہوئی ہے،  انہوں نے ترقیاتی پروجیکٹوں کا بھی جائزہ لیا اور کہا، ’’130 کروڑ لوگ  میرے لیے بھگوان کی ہی شکل ہیں۔‘‘

کیدار ناتھ سے گوری کنڈ اور ہیم کنڈ  کے دو روپ وے کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے  اس میں ہونے والی پیش رفت کا کریڈٹ  بابا کیدار ناتھ، بدری وشال اور سکھ گروؤں سے ملنے والی ’کرپا‘ کو دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ  اس غیر متوقع پہل سے  پوری دنیا کے عقیدت مندوں کو بے انتہا خوشی حاصل ہوگی۔

وزیر اعظم نے  ان پروجیکٹوں  کی تکمیل میں لگے ہوئے شرم جیویوں اور دیگر اہلکاروں کی حفاظت کے لیے دعا کی اور کام کے ان مشکل حالات میں ان کی لگن اور محنت کو تسلیم کیا۔  وزیر اعظم نے کہا، ’’یہ لوگ بھگوان کا کام کر رہے ہیں، آپ ان کا خیال رکھیں، انہیں صرف اجرت یافتہ کارکن نہ سمجھیں، یہ لوگ  بھگوان کے پروجیکٹ کو پورا کرنے میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ کیدار ناتھ میں شرم جیویوں سے ہونے والی بات  چیت کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ  کارکنوں اور انجینئروں کی زبان سے یہ سننا بہت بڑا تجربہ رہا جب انہوں نے  کہا کہ وہ یہ کام بابا کیدار کی پوجا کے طور پر کر رہے ہیں۔

نوآبادیاتی ذہنیت سے آزاد ہونے کے لیے لال قلعہ کی فصیل سے، قوم سے اپنی اپیل کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے آزادی کے 75 سال بعد یہ اپیل کرنے کی ضرورت کی وضاحت کی اور اس بات پر زور دیا کہ غلامی کی ذہنیت نے قوم کو اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ کچھ لوگ ملک میں ترقی کے کام کو جرم سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’ملک کی ترقی میں ہونے والی پیش رفت کو غلامی کی شہتیر کے پیمانے پر تولا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایک عرصے سے ملک میں عقیدت کے مقامات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا  رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’دنیا بھر کے لوگ ان مذہبی مقامات کی تعریف کرنے سے کبھی باز نہیں آتے۔‘‘ ماضی کی کوششوں کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ سومناتھ مندر اور رام مندر کی تعمیر کے دوران جو کچھ ہوا وہ سب کو یاد ہے۔

جناب مودی نے کہا، ’’عقیدت کے ان مقامات کی خستہ حالی، غلامی کی ذہنیت کی واضح نشانی تھی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ  ان مقامات پر جانے والے راستے بھی کافی خراب حالت میں تھے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا، ’’دہائیوں سے ہندوستان کے روحانی مراکز کو نظرانداز کیا جاتا رہا۔ اوریہ سب سابقہ حکومتوں  کی خود غرضی کی وجہ سے ہوا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ اس بات کو بھول گئے تھے کہ  کروڑوں ہندوستانیوں کے دلوں میں  ان روحانی مراکز کی کیا اہمیت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ نہ تو ہمارے روحانی مراکز کی اہمیت ان کی کوششوں سے متعین ہوئی اور نہ ہی ان روحانی مراکز کی طرف لوگوں کے عقیدے میں کوئی کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آج، کاشی، اجین، ایودھیا اور کئی دیگر روحانی مراکز اپنے کھوئے ہوئے فخر اور میراث کو دوبارہ حاصل کر رہے ہیں۔ کیدارناتھ، بدری ناتھ اور ہیم کنڈ صاحب اپنے عقیدے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور خدمات کو ٹیکنالوجی سے جوڑ رہے ہیں۔ ایودھیا میں رام مندر سے لے کر گجرات کے پاوا گڑھ میں ماں کالیکا مندر اور دیوی وندھیاچل راہداری تک، ہندوستان اپنی ثقافتی اور روایتی ترقی کا اعلان کر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ عقیدت مندوں کو ان مراکز ایمان تک پہنچنے میں آسانی ہوگی اور جو خدمات متعارف کرائی جارہی ہیں ان سے بزرگوں کی زندگی آسان ہوجائے گی۔

وزیر اعظم نے ان مذہبی مقامات کی بحالی کے ایک اور پہلو پر زور دیا یعنی پہاڑی علاقوں میں لوگوں کے رہنے میں آسانی اور ان علاقوں کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع۔ جناب مودی نے کہا، ’’ریل، سڑکیں اور روپ وے اپنے ساتھ روزگار لاتے ہیں اور زندگی کو آسان اور بااختیار بناتے ہیں۔ یہ سہولیات سیاحت میں اضافہ کرتی ہیں اور پہاڑی علاقے میں نقل و حمل کو آسان بناتی ہیں۔ ان دشوار گزار علاقوں میں رسد کو بہتر بنانے کے لیے ڈرونز کو بھی تعینات کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘

مقامی مصنوعات اور مقامی سیلف ہیلپ گروپوں کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ملک کے لوگوں سے اپیل کی۔ انہوں نے ملک کے کسی بھی حصے میں سیاحت کے لیے جانے والے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے سفری بجٹ کا 5 فیصد مقامی مصنوعات خریدنے کے لیے نکالیں۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’اس سے مقامی مصنوعات کو مضبوطی حاصل ہوگی اور آپ کو بھی بے حد اطمینان ملے گا۔‘‘

وزیر اعظم نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ پہاڑی علاقوں کے لوگوں کی نرمی کو ان کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ان کی محنتی طبیعت اور طاقت کو بہانہ بنا کر انہیں ہر طرح کی سہولت سے محروم رکھا گیا۔ سہولیات اور مراعات کے معاملے میں وہ آخری ترجیح تھے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اسے تبدیل کرنا تھا۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’پہلے، جن علاقوں کو ملکی سرحدوں کے طور پر نظر انداز کیا جاتا تھا، ہم نے وہاں سے انہیں خوشحالی کا آغاز قرار دیتے ہوئے کام شروع کیا۔ ہم نے پہاڑوں کے ان چیلنجوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جس سے مقامی لوگوں کی کافی توانائی ضائع ہوتی تھی۔‘‘ انہوں نے تمام گاؤوں میں بجلی پہنچانے، ہر گھر جل، پنچایتوں کو آپٹیکل فائبر سے جوڑنے، ہر گاؤں میں صحت اور فلاح و بہبود کے مراکز، ٹیکہ کاری کے دوران پہاڑی علاقوں کو ترجیح، وبائی امراض کے دوران غریبوں کو مفت راشن کی فراہمی جیسے اقدامات کی فہرست پیش کی جس کے تحت زندگی کو مزید آسان بنایا گیا اور لوگوں کو عزت و وقار فراہم کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان سہولیات سے نوجوانوں کو نئے مواقع ملتے ہیں اور سیاحت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے خوشی ہے کہ ڈبل انجن کی سرکار گھر پر قیام کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے نوجوانوں کی ہنر مندی کے لیے مسلسل مالی مدد فراہم کر  رہی ہے۔ سرحدی علاقوں کے نوجوانوں کو این سی سی سے جوڑنے کی مہم بھی انہیں روشن مستقبل کے لیے تیار کر رہی ہے۔‘‘

وزیر اعظم نے کہا، ’’جدید کنیکٹویٹی قومی دفاع کی بھی ضمانت ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس لیے حکومت گزشتہ 8 سالوں سے اس سمت میں ایک کے بعد ایک قدم اٹھا رہی ہے۔ چند سال پہلے شروع کی گئی دو بڑی کنیکٹویٹی اسکیموں پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے بھارت مالا اور ساگر مالا کی مثال پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مالا کے تحت ملک کے سرحدی علاقوں کو بہترین اور چوڑی شاہراہوں سے جوڑا جا رہا ہے اور ساگر مالا سے بھارت کے سمندری ساحلوں کی کنیکٹویٹی کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی بتایا کہ حکومت نے پچھلے 8 سالوں میں جموں و کشمیر سے اروناچل پردیش تک سرحدی کنیکٹویٹی میں بے مثال توسیع کی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا، سال 2014 سے، بارڈر روڈز آرگنائزیشن نے تقریباً 7000 کلومیٹر نئی سڑکیں تعمیر کی ہیں اور سینکڑوں پل بنائے ہیں۔ بہت سی اہم سرنگیں بھی مکمل ہو چکی ہیں۔‘‘

وزیر اعظم نے پروت مالا یوجنا پر روشنی ڈالی، جو پہاڑی ریاستوں کے رابطے کو بہتر بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کے تحت اتراکھنڈ اور ہماچل میں روپ وے کے ایک بڑے نیٹ ورک کی تعمیر شروع ہو چکی ہے۔ وزیراعظم نے سرحدی علاقوں کے بارے میں سوچ کو اسی طرح تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس طرح فوجی ادارے نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم کوششیں کر رہے ہیں تاکہ ان علاقوں میں ایک متحرک زندگی ہو جہاں ترقی کا جشن منایا جا سکے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ مانا سے مانا درّے تک جو سڑک بنائی جائے گی، اس سے اس خطے کو بہت فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جوشی مٹھ سے ملاری روڈ کو چوڑا کرنے سے، عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ہمارے فوجیوں کے لیے سرحد تک پہنچنا بھی بہت آسان ہو جائے گا۔

خطاب کے اختتام پر وزیر اعظم نے اتراکھنڈ کو یقین دلایا کہ ریاست کی امیدوں اور امنگوں کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت اور لگن ہمیشہ کام کرے گی۔ اس اعتماد کو پورا کرنے کے لیے میں یہاں بابا کیدار اور بدری وشال سے آشیرواد لینے آیا ہوں۔

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ جناب پشکر سنگھ دھامی، اتراکھنڈ کے گورنر، ریٹائرڈ جنرل گرمیت سنگھ، رکن پارلیمنٹ جناب تیرتھ سنگھ راوت، اتراکھنڈ حکومت کے وزیر جناب دھن سنگھ راوت اور بی جے پی کے ریاستی صدر مہندر بھٹ اس موقع پر موجود تھے۔

پس منظر

کیدارناتھ میں روپ وے کی لمبائی تقریباً 9.7 کلومیٹر ہوگی اور یہ گوری کنڈ کو کیدارناتھ سے جوڑے گا، اس طرح دونوں جگہوں کے درمیان سفر کا وقت فی الحال 6-7 گھنٹے سے گھٹ کر محض 30 منٹ رہ جائے گا۔ ہیم کنڈ روپ وے، گووند گھاٹ کو ہیم کنڈ صاحب سے جوڑے گا۔ اس کی لمبائی تقریباً 12.4 کلومیٹر ہو گی اور سفر کا وقت ایک دن سے کم کر کے صرف 45 منٹ رہ جائے گا۔ یہ روپ وے گھانگریا کو بھی جوڑ گا، جو پھولو کی وادی نیشنل پارک کا داخلی دروازہ  ہے۔

تقریباً 2430 کروڑ روپے کی مجموعی لاگت سے تیار کردہ روپ وے، سفر کو محفوظ، آرام دہ اور مستحکم بنانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا ایک ماحول دوست طریقہ ہوگا۔ ان بنیادی ڈھانچوں کی ترقی سے مذہبی سیاحت کو فروغ ملے گا، جس سے خطے میں اقتصادی ترقی کو تقویت ملے گی اور روزگار کے متعدد مواقع پیدا ہوں گے۔

اس دورے کے دوران تقریباً 1000 کروڑ روپے کے سڑکوں کو چوڑا کرنے کے منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔ سڑک کو چوڑا کرنے کے دو پروجیکٹ –  مانا سے مانا درّہ (این ایچ 07) اور جوشی مٹھ سے ملاری (این ایچ 107 بی) تک –  ہمارے سرحدی علاقوں میں ہر موسم کے موافق روڈ کنیکٹویٹی فراہم کرنے کی طرف ایک اور قدم ہوگا۔ کنیکٹویٹی کو فروغ دینے کے علاوہ، یہ پروجیکٹ اسٹریٹجک نقطہ نظر سے بھی فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

کیدارناتھ اور بدری ناتھ سب سے اہم ہندو مندروں میں سے ایک ہیں۔ یہ علاقہ سکھ یاتریوں کے لیے قابل احترام مقامات  میں سے ایک – ہیم کنڈ صاحب کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ شروع کیے جا رہے کنیکٹویٹی پروجیکٹ مذہبی اہمیت کے حامل مقامات تک رسائی کو آسان بنانے اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے وزیر اعظم کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔

 

*****

ش ح – ق ت – ت ع

U: 11708