Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

وزیر اعظم نے گریٹر نوئیڈا میں بین الاقوامی ڈیری فیڈریشن عالمی ڈیری سربراہ ملاقات 2022 کا افتتاح کیا

وزیر اعظم نے گریٹر نوئیڈا میں بین الاقوامی ڈیری فیڈریشن عالمی ڈیری سربراہ ملاقات 2022 کا افتتاح کیا


وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج گریٹر نوئیڈا کے انڈیا ایکسپو سینٹر اور مارٹ میں منعقدہ بین الاقوامی ڈیری فیڈریشن عالمی ڈیری اجلاس (آئی ڈی ایف ڈبلیو ڈی ایس) 2022 کا افتتاح کیا۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ڈیری کےشعبہ سے تعلق رکھنے والے  دنیا کی تمام معزز شخصیات آج بھارت میں جمع ہوئی ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ عالمی ڈیری اجلاس خیالات کے تبادلے کا ایک بہترین ذریعہ بننے جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈیری سیکٹر کی صلاحیت نہ صرف دیہی معیشت کو تقویت دیتی ہے بلکہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی روزی روٹی کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے۔

وزیر اعظم نے بھارت کے ثقافتی منظر نامے میں ‘پشو دھن’ اور دودھ سے متعلق کاروبار کی مرکزیت کو اجاگر کیا۔اس سے بھارت کے ڈیری سیکٹر کو بہت سی منفرد خصوصیات  حاصل ہوئی  ہیں۔وزیر اعظم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ دنیا بھرکے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برعکس بھارت میں ڈیری سیکٹر کوچلانے والے ملک کے چھوٹے کسان ہے ۔بھارت کا ڈیری سیکٹر ‘‘بڑے پیمانے پر پیداوار’’ سے زیادہ ‘‘عوام کے ذریعہ پیداوار’’ کی خصوصیت کا حامل ہے ۔ ایک، دو یا تین مویشی رکھنے والے ان چھوٹے کسانوں کی کوششوں کی بنیاد پر بھارت سب سے بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ شعبہ ملک میں 8 کروڑ سے زیادہ خاندانوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

بھارت کے ڈیری نظام کی دوسری منفرد خصوصیت کی وضاحت کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ بھارت میں ڈیری کوآپریٹیو کا اتنا بڑا نیٹ ورک ہےکہ پوری دنیا میں اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی۔جناب مودی نے کہا کہ یہ ڈیری کوآپریٹیوس ملک کے دو لاکھ سے زیادہ گاؤوں میں تقریباً دو کروڑ کسانوں سے دن میں دو بار دودھ اکٹھا کرتے ہیں اور اسے صارفین  تک پہنچاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس حقیقت کی طرف بھی سب کی توجہ مبذول کرائی کہ اس سارے عمل میں کوئی بچولیا نہیں ہے اور صارفین سے جو رقم وصول کی جاتی ہے اس کا 70 فیصد سے زیادہ براہ راست کسانوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا ‘‘پوری دنیا میں کسی اور ملک میں یہ تناسب نہیں ہے’’۔انہوں نے ڈیری سیکٹر میں ادائیگی کے ڈیجیٹل نظام کی کارکردگی پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ اس میں دیگر ممالک کو سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے ۔

وزیر اعظم کے مطابق ایک اور منفرد خصوصیت دیسی نسلیں ہیں جو بہت سے منفی حالات کا سامنا کر سکتی ہیں۔انہوں نے گجرات کے کچھ علاقے کی مضبوط بھینس کی نسل بنی بھینس کی مثال دی۔ انہوں نے بھینسوں کی دیگر نسلوں جیسے مرہ،  مہسانہ، جعفرآبادی، نیلی راوی، اور پنڈھرپوری کے بارے میں بھی بات کی اور ادھرگائے کی نسلوں میں انہوں نے گر، ساہیوال، راٹھی، کنکریج، تھرپارکر اور ہریانہ کا ذکر کیا۔

ایک اور منفرد خصوصیت کے طور پر، وزیر اعظم نے ڈیری سیکٹر میں خواتین کی طاقت کو اجاگر کیا، وزیر اعظم نے اس بات کو نمایاں کیاکہ بھارت کے ڈیری سیکٹر میں  افرادی قوت میں خواتین کی نمائندگی 70 فیصدہے۔‘‘خواتین ہی بھارت کے ڈیری سیکٹر کی حقیقی قائد  ہیں‘‘، انہوں نے مزید کہا،‘‘صرف یہی نہیں، بھارت میں ڈیری کوآپریٹیو س کی ایک تہائی سے زیادہ ممبران خواتین ہیں۔’’ انہوں نے کہا کہ ساڑھے آٹھ لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کا ڈیری سیکٹر گیہوں اور چاول کی مشترکہ قیمت سے زیادہ ہے۔اور ان سب کو بھارت کی خواتین کی طاقت چلارہی ہے۔

وزیر اعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت نے 2014 سے بھارت کے ڈیری سیکٹر کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ اس س  ے دودھ کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے جس سے کسانوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کی طرف بھی  اشارہ کیا کہ‘‘بھارت میں 2014 میں دودھ کی پیداوار جو146 ملین ٹن تھی  اب یہ بڑھ کر 210 ملین ٹن ہو گئی ہے۔ یعنی  اس میں تقریباً 44 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘‘بھارت کی دودھ کی پیداوار عالمی شرح نمو کے 2 فیصد کے مقابلے 6 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے’’۔

وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت   متوازی ڈیری  ماحولیاتی نظام تیار کرنے پر کام کر رہی ہے جہاں پیداوار بڑھانے پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ شعبوں کے چیلنجوں سے بھی نمٹا جا رہا ہے۔ کسانوں کے لیے اضافی آمدنی، غریبوں کو بااختیار بنانا، سوچھتا، کیمیکل سے پاک کھیتی، صاف توانائی اور مویشیوں کی دیکھ بھال، اس ماحولیاتی نظام میں ایک دوسرے سے باہمی طور پر منسلک ہیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مویشی پروری اور ڈیری کو دیہات میں سبز اور پائیدار ترقی کے ایک طاقتوروسیلے کے طور پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ راشٹریہ گوکل مشن، گوبردھن یوجنا، ڈیری سیکٹر کا ڈیجیٹلائزیشن اور مویشیوں کی یونیورسل ٹیکہ کاری جیسی اسکیمیں اور سنگل یوز پلاسٹک پر پابندی جیسے اقدامات اسی سمت میں اٹھائے گئے اقدامات ہیں۔

 

جدید ٹکنا لوجی کے استعمال پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان ڈیری جانوروں کا سب سے بڑا ڈیٹا بسس  تیا رکر رہا ہے اور ڈیری سکٹر  سے وابستہ ہر جانور کو  نشان زد  کای جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا۔”ہم جانوروں کی بائو  مٹرےک شناخت کر رہے ہںی۔ ہم نے اس کا نام رکھا ہے ۔پشو آدھار”۔

جناب مودی نے ایف پی ایز اور خواتنا کے سلف  ہلپا گروپس اور اسٹارٹ اپس جسے  بڑھتے ہوئے کاروباری ڈھانچوں  پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے  میں  حالہپ دنوں مںت 1000 سے زیادہ اسٹارٹ اپ سامنے آئے ہںن۔ انہوں نے گوبردھن یوجنا مںک ہونے والی پشرڈفت کے بارے مںک بھی بات کی اور کہا کہ اس کا مقصد ایی  صورتحال تک پہنچنا ہے جہاں ڈیری پلانٹ گوبر سے اپنی بجلی خود تاکر کریں۔ اس کے نتجےہ مں   پیدا ہونے والی کھاد سے  کاشتکاروں کو بھی مدد ملے گی۔

کھیا  باڑی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ موییہ پروری  اور کھیسر باڑی مں  تنوع کی ضرورت ہوتی ہے اور یک فصلی کاشتکاری ہی اس مسئلے کا  واحد حل نہںت ہو سکتا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ آج ہندوستان مقامی نسلوں اور ہائبرڈ دونوں نسلوں پر یکساں توجہ دے رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے موسماوتی تبدیوکہں سے ہونے والے نقصان کے خطرے کو بھی کم کاس جاسکے گا۔

وزیر اعظم نے ایک اور بڑے مسئلے پر توجہ دی جو کسانوں کی آمدنی کو متاثر کر رہی ہے  اور یہ مسئلہ جانوروں کی بماےریاں ہںا۔ انھوں نے مزید کہا‘‘جب جانور بماار ہوتا ہے تو اس سے کسان کی زندگی متاثر ہوتی ہے، اس کی آمدنی متاثر ہوتی ہے۔ اس سے جانور کی کارکردگی، اس کے دودھ اور دیگر متعلقہ مصنوعات کے معاےر پر بھی اثر پڑتا ہے’’، وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اس سمت مںے، ہندوستان جانوروں کی عالمی ویکسینیشن کی سمت کام کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘ ہم نے عزم کار ہے کہ 2025 تک، ہم 100فیصد جانوروں کو پاؤں اور منہ کی بماوری اور بروسلو سس کے خلاف وینسا  دیں گے۔ ہم اس دہائی کے آخر تک ان بمارریوں سے مکمل طور پر آزاد ہونے کا ہدف رکھتے ہں ”،

وزیر اعظم نے  اس رائے کااظہار کیا کہ  ماضی قریب مں۔ لمپی نامی بما ری کی وجہ سے ہندوستان کی بہت سی ریاستوں مں  مویو جں کا نقصان ہوا ہے اور سب کو ینم  دلایا کہ مرکزی حکومت مختلف ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر اپنی سطح پر پوری کوشش کر رہی ہے۔ اس کے بعد  وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ‘‘ہمارے سائنسدانوں نے جلد کی بما ری کے لےک دییا وینسپ  بھی تا ر کی ہے۔’’ وزیر اعظم نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ وبا کو قابو مںر رکھنے کے لےن جانوروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی کوششںک کی جا رہی ہںر، چاہے وہ جانوروں کی ویکسینیشن ہو یا کوئی اور جدید ٹکنا لوجی۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان اپنے شراکت دار ممالک سے سکھنے  کی کوشش کرتے ہوئے ڈیری کے شعبے مںن تعاون کرنے کے لےا ہمشہی خواہش مندہے۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ ‘‘ہندوستان نے اپنے فوڈ سیٹ ک کے معاےرات پر تز ی سے کام کاپ ہے’’۔

خطاب کے اختتام پر، وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کان کہ ہندوستان ایک ڈیٹلڈ  نظام پر کام کر رہا ہے جو مویو  ں کے شعبے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کی تمام سرگرمیوں  کااحاطہ کرے گا۔ یہ اس شعبے کو بہتر بنانے کے لےی درکار درست معلومات فراہم کرے گا۔ اس  چوٹی کانفرنس  مںم اس کام کو سامنے رکھا جائے گا جو اس طرح کی بہت سی ٹکنا لوجزف کے حوالے سے دناا بھر مںا ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نے تمام حاضرین پر زور دیا کہ وہ اس شعبے سے متعلق مہارت کو شئرج کرنے کے طریقے تجویز کریں۔وزیر اعظم نے اپنی بات کا اختتام ان الفاظ پر کیا کہ ‘‘مںن ڈیری انڈسٹری کے عالمی رہنماؤں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہندوستان مں  ڈیری سکٹر  کو بااختاکر بنانے کی مہم مں  شامل ہوں۔ مں  بنھ الاقوامی ڈیری فڈ ریشن کو ان کے بہترین کام اور شراکت کے لےا بھی سراہتا ہوں’’۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتہ  ناتھ، ماہی پروری، حواانات اور ڈیری کے مرکزی وزیر جناب پرشوتم روپالا، ماہی پروری، حوھانات اور ڈیری کے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر ایل مروگن، زراعت اور فوڈ پروسسنگ  کے مرکزی وزیر مملکت، اس موقع پر شری سنجو  کمار بالا،ن، ممبران پارلمنٹ ، سریندر سنگھ نگر اور ڈاکٹر مہشہ شرما، انٹرنشنلر ڈیری فڈسریشن کے صدر، شری پی برازیل، اور انٹرنشنل  ڈیری فڈےریشن کی ڈائریکٹر جنرل محترمہ کر ولنن ایمنڈ اس موقع پر موجود تھے۔ 75 لاکھ کسانوں کو  ٹکنا لوجی کے ذریعے اس تقریب سے جوڑا گیا ۔

پس منظر

چارروزہ 2022 ، جس کا انعقاد 12 سے 15 ستمبر تک  ہوا، عالمی اور ہندوستانی ڈیری اسٹکک ہولڈرز کا ایک اجتماع ہے جس مںا صنعت کے رہنما، ماہرین، کسان اور پالیا  پلانرز شامل ہں  جو ‘غذائت  اور معاش کے لےد ڈیری’ کے موضوع پر  توجہ مرکوزکر رہے  ہں ۔ آئی ڈی ایف ڈبلیو ڈی ایس  2022 مں2 50 ممالک سے تقریباً 1500 شرکاء کی شرکت متوقع ہے۔ اس طرح کی آخری چوٹی کانفرنس تقریباً نصف صدی قبل 1974 مںس ہندوستان مںن منعقد ہوئی تھی۔

ہندوستانی ڈیری انڈسٹری اس اعتبار سے منفرد ہے کومنکہ یہ ایک کوآپریٹو ماڈل پر مبنی ہے جو چھوٹے اور معمولی ڈیری کسانوں، خاص طور پر خواتنت کو بااختامر بناتی ہے۔ وزیر اعظم کے ویژن کے تحت حکومت نے ڈیری سکٹر  کی بہتری کے لےک متعدد اقدامات کےس ہں  جس کے نتجے  مںد پچھلے آٹھ سالوں مںح دودھ کی پد۔اوار مںو 44 فصدع سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستانی ڈیری انڈسٹری کی کاما بی کی کہانی، جو  دودھ کی عالمی پیداوار کا تقریباً 23 فصدے حصہ رکھتی ہے، تقریباً 210 ملنپ ٹن سالانہ پد ا کرتی ہے، اور 8 کروڑ سے زیادہ ڈیری فارمرز کو بااختایر بناتی ہے، کو  آئی ڈی ایف ڈبلیو ڈی ایس 2022 مںڈ دکھایا جائے گا۔ سربراہی اجلاس ہندوستانی ڈیری کو بھی مدد فراہم کرے گا۔ اس چوٹی کانفرنس سے کسانوں کو عالمی بہترین طریقوں سے آگاہی حاصل کرنے میں مدد ملے گی ۔

 

 

*************

 

 

 

ش ح – ش ر – س ب ۔ رض – م ش

 

U. No.10166