Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

آزادی پسند جناب پرہلاد جی پٹیل کی 115 ویں یوم پیدائش کے موقع پر بیچراجی، گجرات میں منعقدہ ایک پروگرام میں وزیر اعظم مودی کے پیغام کا انگریزی ترجمہ

آزادی پسند جناب پرہلاد جی پٹیل کی 115 ویں یوم پیدائش کے موقع پر بیچراجی، گجرات میں منعقدہ ایک پروگرام میں وزیر اعظم مودی کے پیغام کا انگریزی ترجمہ


بیچراجی کا مطلب ہے، دیوی بہوچرا کا مقدس زیارت گاہ۔ بیچراجی کی پاک سرزمین نے بہت سے بیٹے، سماجی کارکن اور محب وطن پیدا کیے ہیں۔ اس مٹی کے ایک ایسے ہی بیٹے، آزادی پسند اور سماجی کارکن جناب پرہلاد جی ہرگوونداس پٹیل کی 115 ویں یوم پیدائش کے موقع پر، ہمیں ان کی خوبیوں کو یاد کرنے کا موقع ملا ہے اور وہ بھی نوراتری کے مقدس تہوار کے موقع  پر اور ماں بہوچرا کی موجودگی میں۔  اور جیسا کہ ہم ہندوستانی ‘آزادی کا امرت مہوتسو’ منا رہے ہیں، پرہلاد بھائی جیسے محب وطن کی یاد منانا میرے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے۔

پرہلاد بھائی اصل میں سیتا پور گاؤں سے تعلق رکھتے تھے، لیکن بیچراجی آکر آباد ہو گئے تھے۔ پرہلاد جی پوری ریاست میں سیٹھ لاٹی والا کے نام سے مشہور ہو چکے تھے۔ گویا وہ اس حالت میں کرشن کے ‘سانوالیا سیٹھ’ کے روپ میں آئے تھے اور انہوں نے دل کھول کر سماج کی خدمت کی تھی۔ بہت سے نوجوانوں کی طرح پرہلاد بھائی بھی جدوجہد آزادی کے دوران، گاندھی جی کے زیر اثر تحریک آزادی میں سرگرم ہو گئے تھے۔ وہ سابرمتی اور یرواڈا جیل میں بھی قید بھی رہےتھے۔ اس کے والد کا انتقال ایسی ہی ایک قید کے دوران ہوا تھا، لیکن انہوں نے برطانوی حکومت کو معافی نامہ لکھنے اور پیرول پر رہا ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس کے والدین کی تدفین اس کے عمزاد نے کی تھی۔ اس طرح قوم کے مفاد کو خاندان سے بالاتر رکھتے ہوئے وہ ‘قوم سب سے پہلے’ کے تصور پر قائم رہے۔ آزادی کی جنگ میں وہ کچھ زیر زمین سرگرمیوں میں بھی ملوث تھا اور بیچراجی میں کئی جنگجوؤں کو چھپانے کی کوشش کی تھی۔ آزادی کے بعد انہوں نے سردار صاحب کی ہدایت پر، ملک کی چھوٹی ریاستوں کے انضمام میں اہم کردار ادا کیا تھا اور دساڈا، ونود اور زین آباد جیسی ریاستوں کو ہندوستان سے ملحق کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ملک کی تاریخ کی کتابوں میں ایسے محب وطن لوگوں کا ذکر مشکل ہی سے ملتا ہے۔

یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پرہلاد بھائی جیسے آزادی پسندوں کی بہادری کی داستان نئی نسل کو سنائی جائے جو اس سے ترغیب حاصل کر سکتی ہے۔ آزادی کی جدوجہد ختم ہونے کے بعد بھی، آزاد ہندوستان میں انہوں نے آرام نہیں کیا۔ وہ سماجی کاموں میں مصروف رہے۔ 1951 میں، وہ ونوبا بھاوے کی بھودان تحریک میں شامل ہو گئے تھے اور اپنی زیر ملکیت کی 200 بیگھہ زمین عطیہ کر دی تھی۔ یہ ایک ‘بھومی پتر’ کی طرف سے کئی بے زمین لوگوں کے مفاد میں اٹھایا گیا ایک بڑا قدم تھا۔ 1962 میں ریاست بمبئی سے الگ ہونے کے بعد، گجرات کے پہلے الیکشن میں وہ چناسما سیٹ سے لڑے تھے اور عوامی نمائندے ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کی آواز بھی بن گئے تھے۔ انہوں نے پوری ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ مجھے اب بھی یاد ہے، میں اس وقت سنگھ کے لیے کام کرتا تھا اور اس کے لیے مختلف جگہوں پر جانا پڑتا تھااور جب بھی لوگ بیچراجی جانا چاہتے تھے، ان کے لیے ایسا لگتا تھا جیسے پرہلاد بھائی کی لاٹھی ہی عوامی فلاح و بہبود کی جگہ بن گئی ہو۔ پرہلاد بھائی، جنہوں نے امانت داری کے جذبے سے کام کیا، گجرات کی مہاجن روایت کی ایک کڑی تھے اور پرہلاد بھائی کی بات کریں تو آج کا واقعہ ان کی اہلیہ کاشی با کے ذکر کے بغیر ادھورا رہے گا۔ کاشی با نہ صرف ایک مثالی گھریلو خاتون تھیں بلکہ کستوربا کی طرح انہوں نے بھی شہری فرائض انجام دیے تھے اور اپنے شوہر کو بھرپور تعاون فراہم کیا تھا۔ ان کی پوری زندگی، کام کی روایت، ان حالات میں کام کرنے کی خواہش اور ہر چھوٹی موٹی چیز کوجدوجہد آزادی کی انمول دستاویز سمجھنے  میں گزری ہے۔ ان کے کام اور سماجی شراکت داری کو دستاویزی شکل دی جانی چاہیے تاکہ یہ آج کی نسل کو نئی معلومات فراہم کرے۔ اور اس طرح، وہ آنے والی نسل کے لیے ایک تحریک بنیں گے۔ اپنی زندگی میں وہ عوامی خدمت میں پیش پیش رہے لیکن اپنی وفات کے بعد بھی انہوں نے آنکھیں عطیہ کرنے کا عزم کیا۔ ذرا سوچئے، انہوں نے آنکھیں عطیہ کرنے کا فیصلہ ان دنوں بھی لیا جب آنکھوں کے عطیہ کے بارے میں کوئی شعورموجود نہیں تھا۔ یہ قرارداد کتنی عظیم اور متاثر کن تھی!

گجرات کی تمام یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ ریاست کے کونے کونے سے ایسے عظیم انسانوں کو تلاش کریں اور ان کی گمنام زندگی، گمنام کہانیوں کو مرتب کریں اور انہیں کتاب کی شکل میں شائع کریں۔ یہ تب ہی ہے جب آزادی کا امرت مہوتسو اپنے حقیقی معنی کو برقرار رکھے گا۔ شری پرہلاد بھائی حب الوطنی، جذبہ عقیدت، فرض اور خدمت کے تروینی سنگم کی طرح تھے۔ آج، ان کی لگن کے بارے میں سوچیں اور نئے ہندوستان کی تعمیر اور مزید ترقی کی سمت میں تحریک حاصل کریں۔ یہ ان کے لیے حقیقی معنوں میں خراج عقیدت ہو گا۔ میں احترام کے ساتھ پرہلاد بھائی اور ان کے بہترین کام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اور ماں بہوچرا کی موجودگی میں، میں ماں بہوچرا اور ماں بھارتی کی خدمت کرنے والوں کی تعظیم میں جھک کر اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔

بھارت ماتا کی جئے!

جئے جئے گڑوی گجرات!

ڈس کلیمر: یہ وزیراعظم کی تقریر کا تخمینی ترجمہ ہے۔ اصل تقریر گجراتی میں کی گئی ہے۔

*****

U.No.3875

(ش ح – اع – ر ا)