Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

ایل بی ایس این اے اےمیں 96ویں کامن فاؤنڈیشن کورس  کی اختتامی تقریب میں وزیر اعظم کے خطاب کا بنیادی متن

ایل بی ایس این اے اےمیں 96ویں کامن فاؤنڈیشن کورس  کی اختتامی تقریب میں وزیر اعظم کے خطاب کا بنیادی متن


نئی دہلی:17؍مارچ2022:

آپ تمام نوجوان ساتھیوں کو فاؤنڈیشن کورس مکمل ہونے پر بہت بہت مبارکباد۔آج ہولی کا تہوار ہے۔ میں تمام ملک کے عوام کو، آپ کو اکیڈمی کے لوگوں کو اور آپ کے اہل خانہ کو ہولی کی بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتاہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج آپ کی اکیڈمی کے ذریعے سردار بلبھ بھائی پٹیل جی، لال بہادر شاستری  جی کو وقف پوسٹل سرٹیفکیٹ بھی جاری کئے گئے ہیں۔آج نئے اسپورٹس کمپلیکس کا افتتاح اور ہیپی ویلی کمپلیکس کا وقف بھی ہوا ہے۔یہ سہولتیں ٹیم اسپرٹ کی ، ہیلتھ اور فٹ نس  کے جذبے کو مضبوط کریں گی، سول سروسز کو مزید اسمارٹ اور مؤثر بنانے میں مدد کریں گی۔

ساتھیوں،

گزشتہ برسوں میں، میں نے متعدد بیچوں کے سول سرونٹس سے بات کی ہے، ملاقات بھی کی ہے اور اُن کے ساتھ میں ایک طویل وقت بھی گزارا ہے۔لیکن آپ کا جو بیچ ہے نا، میری نقطہ نظر سے بہت خاص ہے۔  آپ ہندوستان کی آزادی کے 75ویں سال میں اِس امرت مہوتسو کے وقت اپنا کام شروع کررہے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اُس وقت نہیں ہوں گے، جب ہندوستان اپنی آزادی کے 100ویں سال میں داخل ہوگا، لیکن آپ کا یہ بیچ اُس وقت بھی رہے گا، آپ بھی رہیں گے۔ آزادی کے اِس امرت کال میں آئندہ 25سال میں ملک جتنی ترقی کرے گا، اُن سب میں آپ کے داستان کی، آپ کی اِس ٹیم کا بہت بڑا رول رہنے والا ہے۔

ساتھیوں،

21ویں صدی کے جس مقام پر آج  ہندوستان ہے، پوری دنیا کی نظریں آج ہندوستان پر ٹکی ہوئی ہیں۔ کورونا نے جو حالات پیدا کئے ہیں، اُن میں ایک عالمی نظام اُبھر رہا ہے۔ اِس نئے عالمی نظام میں ہندوستان کا اپنا کردار بڑھا نا ہے اور تیزی رفتاری سے اپنی ترقی بھی کرنی ہے۔ پچھلے 75برسوں میں ہم نے جس رفتار سے ترقی کی ہے، اب اُس سے کئی گنا تیزی سے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ آنے والے برسوں میں آپ کہیں کسی ضلع کو سنبھال رہے ہوں گے، کہیں کسی محکمے کو سنبھال رہے ہوں گے، کہیں بنیادی ڈھانچے کا بہت بڑا پروجیکٹ آپ کی نگرانی میں چل رہا ہوگا، کہیں آپ پالیسی سطح پر اپنے مشورے دے رہے ہوں گے، اِن تمام کاموں میں آپ کو ہمیشہ ایک بات کا دھیان رکھنا ہے اور وہ ہے  21ویں صدی کے ہندوستان کا سب سے بڑا ہدف۔ یہ ہدف ہے –آتم نر بھر بھارت کا، جدید بھارت کا، اس وقت کو ہمیں کھونا نہیں ہے اور اِس لیے آج میں آپ کے درمیان بہت ساری توقعات لے کر آیا ہوں۔ یہ توقعات آپ کی شخصیت سے بھی جڑی ہے اور آپ کے فرائض سے بھی۔ آپ کے کام کرنے کے طور طریقوں سے بھی، ورک-کلچر سے بھی جڑی ہوئی ہے اور اِسی لئے میں شروع کرتا ہوں کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں ،جو آپ کی شخصیت کے لئے ہو سکتا ہے کچھ کام آجائیں۔

ساتھیوں،

تربیت کے دوران آپ کو سردار پٹیل جی کے وژن، اُن کے خیالات سے متعارف کرایا  گیا ہے۔ خدمات کا جذبہ اور فرض کا جذبہ، اِن دونوں کی اہمیت ، آپ کی تربیت کا غیر منقسم حصہ رہی ہے۔ آپ جتنے سال بھی اِس سروس میں رہیں گے، آپ کی ذاتی اور پروفیشنل  کامیابی کا پیمانہ یہی فیکٹر رہنا چاہئے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے کام کرنے کا جذبہ کم ہورہا ہے، فرض کا جذبہ کم ہورہا ہے، یہ سوال ہر بار خود سے پوچھنا چاہئے، تشخیص کرنی چاہئے کہ کہیں اِس ہدف کو اوجھل ہوتے تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہمیشہ اِس ہدف کو سامنے رکھئے گا۔ اِس میں نہ کوئی موڑ (ڈائیورژن)آنا چاہئے اور نہ ہی کمی(ڈائیلوشن)آنی چاہئے۔یہ ہم سب نے دیکھا ہے کہ جس کسی میں خدمت کا جذبہ کم ہوا، جس کسی میں حکمرانی کا جذبہ حاوی ہوا، وہ فرد ہو یا نظم، اس کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ کسی کو جلد، کسی کو قدر تاخیر سے، لیکن نقصان ہونا طے ہے۔

ساتھیوں،

آپ کو ایک اور بات سمجھاتاہوں شاید کام آ سکتی ہے۔ جب ہم سینس آف ڈیوٹ اور سینس آف پرپس کے ساتھ کام کرتے ہیں، تو کبھی بھی، کوئی کام ہمیں بوجھ نہیں لگتا ہے۔ آپ بھی یہاں ایک سینس آف پرپس کے ساتھ آئے ہیں۔ آپ سماج کے لئے، ملک کےلئے ایک مثبت تبدیلی کا حصہ بننے آئے ہیں۔حکم دے کر کام کرانے اور دوسروں کو فرض کے احساس سے متحرک کرکے اِن دونوں میں کام کروانے کے طریقوں میں آسمان زمین کا فرق ہوتاہے۔بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔یہ ایک لیڈر شپ کوالٹی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جو آپ کو خود میں پیدا کرنی چاہئے۔ ٹیم اسپرٹ کے لئے یہ لازمی ہے۔اُس میں کوئی سمجھوتا ممکن نہیں ہے، اسے کرنا بہت ضروری ہے۔

ساتھیوں،

اب سے کچھ مہینوں بعد ہی آپ لوگ فیلڈ میں کام کرنے جائیں گے، اپنی آگے کی زندگی کو اب اُس میں آپ کو فائلوں اور فیلڈ کا فرق سمجھتے ہوئے ہی کام کرنا ہوگا۔فائلوں میں آپ کو حقیقی احساس نہیں ملے گا، احساس کے لئے آپ کو فیلڈ سے جڑے رہنا ہوگا اور میری یہ بات آپ زندگی بھر یاد رکھئے گا کہ فائلوں میں اعدادو شمار ہوتے ہیں، وہ صرف عدد (نمبر)نہیں ہوتے۔ہر ایک  ڈاٹر، ہر ایک نمبر،  ایک زندگی ہوتا ہے۔ اُس زندگی کے کچھ خواب ہوتے ہیں، اُس زندگی کی کچھ خواہشات ہوتی ہیں، اُس زندگی کے سامنے کچھ پریشانیاں ہوتی ہیں، چیلنج ہوتے ہیں۔ اس لئے آپ کو نمبر کے لئے نہیں ، ہر ایک زندگی کے لئے کام کرنا ہے۔ میں آپ کے سامنے ایک دلی جذبہ اور بھی رکھنا چاہتا ہوں اور یہ فلسفہ آپ کو فیصلہ لینے کا حوصلہ بھی دے گا اور اِس پر عمل کریں گے تو آپ سے غلطی سرزد ہونے کا امکان بھی کم ہوگا۔

ساتھیوں،

آپ جہاں بھی جائیں گے، آپ میں ایک جوش ہوگا، اُمنگ ہوگی، کچھ نیا کرنے کا جذبہ ہوگا، بہت کچھ ہوگا۔ میں یہ کردوں ، میں وہ کردوں گا، میں اِس کو بدلوں گا، اُس کو اُٹھاکر پٹخ دوں گا، سب کچھ ہوگا من میں ، لیکن میں آپ سے گزارش کروں گا کہ من میں ایسا جب بھی خیال آئے  کہ ہاں یہ ٹھیک نہیں ہے، تبدیلی ہونی چاہئے، تو آپ کو برسوں پہلے کی متعدد ایسی روایتی دکھائی دیں گی، متعدد اصول و ضوابط ملیں گے، جو آپ کو غیر متعلق لگتے ہوں گے، پسند نہیں آتے ہوں گے۔ آپ کو لگتا ہے وہ سب بوجھ ہے اور وہ سب غلط ہوگا، ایسا میں نہیں کہتا، ہوگا۔ آپ کے پاس طاقت ہوگی تو دل کرے گا کہ نہیں، یہ نہیں یہ کرو، وہ نہیں ڈھمکا کرو،  فلاں نہیں فلاں کرو، یہ ہوجائے گا، لیکن تھوڑا صبر کے ساتھ کچھ سوچ کرکے میں جو راستہ دکھاتا ہوں، اس پر چل سکتے ہیں کیا۔

ایک صلاح میں دینا چاہتاہوں وہ روایت کیوں بنی، یا وہ قانون کیوں بنا، کن حالات میں بنا، کس سال میں بنا، تب کے حالات کیا تھے، فائل کے ایک ایک لفظ کو، صورتحال کو آپ تصور کیجئے کہ 20 سال ، 50 سال، 100 سال پہلے کیوں بنا ہوگا، اُس کی بنیادی وجہ کو ضرور سمجھنے کی کوشش کیجئے اور پھر سوچئے، یعنی پوری طرح اسٹڈی کیجئے گا کہ جو نظم قائم کیا گیا، اُس کے پیچھے کوئی تو دلیل ہوگی، کوئی تو فکر ہوگی، کوئی تو ضرورت ہوگی۔ اس بات کی تہہ تک جایئے گا کہ جب وہ قانون بنایا گیا تھا تو اُس کے پیچھے کی وجہ کیا تھی۔جب آپ مطالعہ کریں گے، کسی مسئلے کی بنیادی وجہ تک پہنچیں گے، تو پھر آپ اُس کا حتمی حل بھی دے پائیں گے۔ ہر بڑی میں کی ہوئی باتیں فوری طور پر تو ٹھیک لگیں گی، لیکن مستقل حل نہیں نکلے گا اور اِن ساری چیزوں کی گہرائی میں جانے سے آپ کو اُس شعبے کے ایڈمنسٹریشن پر پوری پکڑ آجائے گی اور اِتنا کچھ کرنے کے بعد جب آپ کو فیصلہ لینا ہو، تو پھر ایک بات اور یاد رکھئے گا۔

مہاتما گاندھی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگر آپ کے فیصلے سے سماج کے آخری صف میں کھڑے شخص کو فائدہ ہوگا، تو پھر آپ اُس فیصلے کو لینے میں جھجک مت کریئے گا۔ میں اِس میں ایک بات اور جوڑنا چاہتاہوں، آپ جو بھی فیصلہ کریں، جو بھی انتظامی تبدیلی لائیں، تو  مکمل ہندوستان کے پس منظر ضرور سوچیں، کیونکہ ہم آل اِنڈیا سول سروسز کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہمارے دماغ میں فیصلہ بھلے ہی مقامی ہوگا، لیکن خواب مکمل ملک کا ہوگا۔

ساتھیوں،

آزادی کے اِس امرت کال میں ہمیں ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم کو اگلی سطح پر لے جانا ہے۔ اِسی لئے آج کا ہندوستان سب کی کوشش کے جذبے سے آگے بڑھ رہا ہے۔آپ کو بھی اپنی کوششوں کے درمیان یہ سمجھنا ہوگا کہ سب کی کوشش ، سب کی شراکت داری کی طاقت کیا ہوتی ہے۔اپنے کاموں میں آپ جس قدر زیادہ انتظامیہ میں جتنے بھی حصے ہیں، سب کو جوڑ کر کے کوشش کریں، ہر ملازم کو جوڑ کر کے کوشش کریں،  تو وہ تو پہلا ایک پہلا دائرہ ہوگیا، پہلا سرکل ہوگیا، لیکن بڑ ا سرکل سماجی تنظیموں کو جوڑیں، پھر عام لوگوں کو جوڑیں۔ ایک طرح سے سب کی کوشش، سماج کا آخری شخص بھی آپ کی کوششوں کا حصہ ہونا چاہئے، اُس کی آنر شپ ہونی چاہئے ، اگر یہ کام آپ کرتے ہیں تو آپ تصور نہیں کرسکتے کہ آپ کی طاقت کس قدر بڑھ جائے گی۔

اب جیسے سوچ لیجئے کسی بڑے شہر کی ہمارے یہاں کوئی میونسپلٹی ہے، وہاں اُس کے پاس متعدد صفائی ملازمین ہوتے ہیں ، وہ اتنی محنت کرتے ہیں، وہ بھی شہر کو صاف رکھنے کے لئے جی جان سے لگے رہتے ہیں، لیکن اُن کی کوششوں کے ساتھ ہر خاندان جڑ جائے، ہر شہری جڑ جائے، گندگی نہ ہونے دینے کا عہد عوامی تحریک بن جائے، تو مجھے بتایئے ، اُن صفائی کرنے والوں کے لئے بھی ہر دن ایک تہوار بن جائے گا کہ نہیں بن جائے گا۔ جو نتائج ملتے ہیں، وہ کئی گنا بڑھ جائیں گے کہ نہیں بڑھ جائیں گے، کیونکہ سب کی کوشش ایک مثبت تبدیلی لاتی ہے۔ جب عوامی شراکت  داری ہوتی ہے ، تب ایک اور ایک مل کر دو نہیں بنتے، بلکہ ایک اور ایک مل کر گیارہ بن جاتے ہیں۔

ساتھیوں،

 آج میں آپ کو ایک اور  کام بھی دینا چاہتا ہوں۔ یہ کام آپ کو اپنے پورے کیریئر میں کرتے رہنا چاہئے، ایک طرح سے اِس کو زندگی کا حصہ بنالینا چاہئے، عادت بنا لینی چاہئے اور رویہ کی میری سیدھی سیدھی تعریف یہی ہے کہ کوششوں سے پیدا کی ہوئی اچھی عادت، اُس کا مطلب سنسکار۔

آپ جہاں بھی کام کریں، جس بھی ضلع میں کام کریں، آپ دل میں طے کرلیجئے کہ اِس ضلع میں اِتنے سارے مسائل ہیں، اتنی مشکلات ہیں، جہاں پہنچا جانا چاہئے، نہیں پہنچ پاتا تو آپ کا تجزیہ ہوگا۔ آپ کے دل میں یہ بھی آئے گا کہ پرانے لوگوں نے پتہ نہیں اِسے کیوں نہیں کیا، یہ نہیں کیا،  سب ہوگا۔  کیا آپ خود اُس علاقے میں جو بھی آپ کو کام کا علاقہ ملے، چھوٹا ہو یا بڑا ہو، آپ یہ طے کرسکتے ہیں کہ جو پانچ چیلنج ہیں، میں اُن کی شناخت کروں گا اور ایسے چیلنج جواُس علاقے میں لوگوں کی زندگی کو مشکل بناتے ہیں،  اُن کی ترقی میں رُکاوٹ بن کر کھڑے ہیں، مقامی سطح پر ااپ کے ذریعے اِن کی شناخت بہت ضروری ہے اور یہ ضروری کیوں ہے، یہ بھی میں آپ کو بتاتاہوں۔جیسے ہم سرکار میں آئے، تو ہم نے بھی ایسی ہی کئی سارے چیلنجز کی شناخت کی تھی۔  ایک بار یہ چیلنجز سامنے آگئے تو پھر ہم حل کی طرف بڑھیں۔ اب جیسے آزادی کے اِتنے سال ہوگئے کیا غریبوں کے لئے پختہ گھر ہونا چاہئے، نہیں ہونا چاہئے، یہ چیلنج تھا۔ ہم نے اُس چیلنج کو اُٹھایا ، ہم نے اُنہیں پختہ گھردینے کا تہیہ کیا اور پی ایم آواس یوجنا کو تیز رفتاری کے ساتھ وسعت دی۔

ملک میں ایسے متعد اضلاع بھی بہت بڑا چیلنج تھے جو ترقی کے دوڑ میں دہائیوں پیچھے تھے۔ ایک ریات ہے کافی آگے ہے، لیکن دو اضلاع بہت پیچھے ہے۔ ایک ضلع بہت آگے ہے، لیکن دو بلاک بہت پیچھے ہے۔ ہم نیشن کی طور پر، ہندوستان کے طورپر ایک خیال تیار کیا کہ ایسے اضلاع کی بھی شناخت کی جائے اور خواہش مند اضلاع کی ایک مہم چلائی جائے اور اُن کو ریاست کی اوسط کے برابر لایا جائے، ہو سکے تو قومی اوسط تک لے جایا جائے۔

اِسی طرح  ایک چیلنج تھا غریبوں کو بجلی کنکشن کا، گیس کنکشن کا۔ ہم نے سوبھاگیہ یوجنان شروع کی، اوجولا یوجنا چلاکر اُنہیں مفت گیس کنکشن دیا۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے، جب کسی سرکار نے منصوبوں کو سیچوریشن کی طرف لے جانے کی ، یعنی ایک طرح بات کہی ہے اور اُس کے لئے منصوبہ بنا یا ہے۔

اب اس پس منطر میں ، میں آپ کو ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ ہمارے یہاں الگ الگ محکموں میں تال میل کی کمی کی وجہ سے پروجیکٹ برسہا برس تک لٹکے رہتے تھے۔ یہ بھی ہم نے دیکھا ہے کہ آج سڑک بنی، تو کل ٹیلی فون والے آکر کھود گئے، پرسوں نالی بنانے والوں نے اُسے کھود دیا۔ کوآرڈنیشن میں کمی کے سبب اِس چیلنج کو درست کرنے کے لئے ہم نے پی ایم گتی شیل نیشنل ماسٹر پلان بنایا ہے۔تمام سرکاری محکموں کو ، تمام ریاستوں کو تمام مقامی اداروں کو ، ہر ایک اسٹیک ہولڈرز کو  پیشگی طور پر جانکاری ہو، یہ یقینی بنایا جارہا ہے۔ یعنی جب آپ چیلنج کو شناخت کرلیتے ہیں تو حل تلاش کرکے اُس پر کام کرنا بھی آسان ہوجاتاہے۔

میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ بھی ایسے5,7,10 جو بھی آپ کو ٹھیک لگے، ایسے کون سے  چیلنج ہیں ، جو علاقے کے لوگوں کے لئے  اگر وہ اُس مصیبت سے آزاد ہوجائیں تو ایک خوشی کی لہر چھاجائے گی۔سرکار کے تئیں اعتماد بڑھ جائے گا۔ آپ کے تئیں احترام بڑھ جائے گا اورمن میں طے کرلیجئے، اپنی مدت کار میں ، میں اِس علاقے کو اِس پریشانی سے آزاد کرکے رہوں گا۔

اور آپ نے سنا ہوگا، ہمارے یہاں شاستروں سوانت سوکھائے کی  بات کہی گئی ہے۔ کبھی کبھی زندگی میں متعدد کام کرنے کے بعد بھی جتنا سکون نہیں ملتا ہے، ایک آدھ کام خود نے طے کیا اور پورا کیا، جس میں خود کو سکون ملتا ہے، لطف آتا ہے، ہم جوش سے بھر جاتے ہیں۔ کبھی تھکن کا احسان نہیں ہوتا ہے۔ ایسا سوانت سکھائے، اِس کا احساس اگر ایک چیلنج، دو چیلنج، پانچ چیلنج اُٹھاکر اُس کو پوری طرح دور کردیں گے، آپ کو مکمل  وسائل کا استعمال کرتے ہوئے  یا تجربے کا استعمال کرتے ہوئے  ، آپ کی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے، آپ دیکھئے زندگی سکون سے جو آگے بڑھتی ہے نا اُس چیلنج کو حل کرنے سے سکون  کی جو رفتار ہوتی ہے وہ کئی گنا طاقت ور ہوتی ہے۔

آپ کے کام بھی ایسے ہونے چاہئے جو من کو سکون دیں اور جب اُس کا فائدہ اٹھانے والا آپ سے ملے تو لگے کہ ہاں، یہ صاحب تھے نا، تو میرا اچھا کام ہوگیا۔ آپ کو اُس علاقے کو چھوڑنے کے 20 سال بعد بھی وہاں کے لوگ یاد کریں، ارے بھائی وہ ایک صاحب آئے تھے نا اپنے علاقے میں، ایک بہت پرانے مسئلے کو حل کرگئے، بہت اچھا کام کرکے گئے۔

میں چاہوں گا  آپ بھی ایسے  موضوعات تلاش کیجئے گا، جس میں آپ معیار پر مبنی تبدیلی لا پائیں۔ اِس کے لئے آپ کو بین الاقوامی مطالعات کو کھنگالنا  پڑے تو وہ بھی کیجئے، قانون کا مطالعہ کرنا پڑے، تو وہ بھی کیجئے، ٹیکنالوجی کی مدد لینی پڑے تو وہ بھی لیجئے۔ آپ سوچئے ، آپ سینکڑوں لوگوں کی طاقت  الگ الگ اضلاع میں ایک ساتھ لگے گی، آپ 400-300لوگ ہیں، یعنی ملک کے آدھے اضلاع میں کہیں نہ کہیں آپ کے پیر پڑنے والے ہیں۔مطلب آدھے ہندوستان میں آپ ایک نئی اُمید کو مل کر جنم دے سکتے  ہیں، تو کتنی بڑی تبدیلی آئے گی۔ آپ اکیلے نہیں ہیں، 400 اضلاع میں آپ کی یہ سوچ، آپ کی یہ کوشش، آپ کا یہ قدم، آپ کی پہل نصف ہندوستان کو متاثر کرسکتی ہے۔

ساتھیوں،

سول سروسز کے ٹرانسفارمیشن کے اس دور کو ہماری سرکاری اصلاح سے مدد کررہی ہے۔ مشن کرم یوگی اور آرمبھ پروگرام اِس کا ہی ایک حصہ ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کی اکیڈمی میں بھی تربیت کی شکل اب مشن کرم یوگی پر مبنی کردی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے اس کا بھی فائدہ بہت فائدہ آپ سب کو ملے گا۔ ایک اور بات آپ کے دھیان میں لانا چاہتا ہوں، آپ یہ دعا ضرور کیجئے گا کہ مستقبل میں  آپ کو کوئی آسان کام نہ ملے۔ میں دیکھ رہا ہوں  جب میں یہ کہا تو آپ کے چہرے ذرا اُتر گئے۔

آپ ایسی دعا کیجئے کہ آپ کو کوئی آسان کام نہ ملے۔ آپ کو محسوس ہوگا یہ ایسا کیسا وزیر اعظم جو ہمیں ایسی صلاح دے رہا ہے۔ آپ ہمیشہ تلاش تلاش کرکے چیلنجنگ جاب کا انتظار کیجئے۔ آپ کوشش کیجئے کہ آپ کو چیلنجنگ جاب ملے۔اِس کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ آپ جس قدر کمفرٹ ژون میں جانے کی سوچیں گے، اُتنا ہی اپنی ترقی اور ملک کی ترقی کو روکیں گے۔آپ کی زندگی میں ٹھہراؤ آجائے گا۔ کچھ سال کے بعد ہی آپ کی زندگی آپ کے لئے بوجھ بن جائے گی۔ ابھی عمر کے اُس  پڑاؤ پر ہیں آپ، جب عمر آپ کےسات ہے۔ ابھی جوکھم لینے کی صلاحیت سب سے زیادہ اِسی عمر میں ہوتی ہے۔ آپ نے جتنا پچھلےے 20 سال میں سیکھا ہے، اگر آپ چیلنجنگ جاب سے جڑیں گے تو اگلے 4-2سال میں سیکھیں گے اور یہ جو سبق آپ کو ملے گا، وہ اگلے 25-20سال تک آپ کے کام آئے گا۔

ساتھیوں،

آپ بھلے ہی الگ الگ ریاستوں سے ہیں، الگ الگ ساماجی پس منظر سے ہیں، لیکن آپ ایک بھارت-شریشٹھ بھارت کو طاقتور بنانے والی کڑیاں بھی ہیں۔ مجھے یقین ہے آپ کے کام کا جذبہ، آپ کی شخصیت کی نرمی، آپ کی ایمانداری، آنے والے برسوں میں آپ کی ایک الگ پہچان بنائے گی اور ساتھیوں آپ علاقے کے طرف جانے والے ہیں، تب میں نے بہت پہلے ہی  مشورہ دیا تھا ، مجھے معلوم نہیں اِس بار ہوا ہے کہ نہیں ہوا ہے کہ جب اکیڈمی میں آتے ہیں تو آپ ایک طویل مضمون لکھئے کہ اِس فیلڈ میں آنے کے پیچھے آپ کی سوچ کیا تھی، کیا خواب تھے،آپ کا عہد کیا تھا۔ آپ آخر کار اِس لہر میں کیوں آئے ہیں، آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ زندگی کو اِس سروس کے توسط سے آپ کہاں پہنچانا چاہتے ہیں، آپ کی خدمت کا جو علاقہ ہے، کہاں پہنچائیں گے۔ایک طویل مضمون لکھ کر اکیڈمی میں جایئے، اس کو کلاؤڈ میں رکھ دیا جائے اور جب آپ 25 سال پورا کرکے ، 50 سال پورا کرکے، آپ کے یہاں 50 سال کے بعد شاید ایک پروگرام ہوتا ہے۔

ہر سال جو 50 سال جنہیں منسوری چھوڑے ہوئے ہوتا ہے، وہ 50 سال بعد دوبارہ آتے ہیں۔ آپ 50 سال کے بعد، 25 سال کے بعد جو پہلا مضمون لکھا ہے، اُس کو پڑھ لیجئے، جن خوابوں کو لے کر آئے تھے، جو ہدف طے کرکے آئے تھے، 25 سال بعد اُس مضمون کو پڑھ کر ذرا حساب لگایئے کہ واقعی آپ ، جس  کام کے لئے چلے تھے اُسی سمت میں ہیں یا بھٹک گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے آج کے خیالات 20 سال کے بعد آپ ہی کے اُستاد بن جائیں گے۔اس لئے یہ بہت ضروری ہے  آپ نے نہیں لکھا ہو تو اُسے لکھ کر ہی اِس کیمپس کو چھوڑیئے گا۔

دوسرا میرا اِس کیمپس میں اور ڈائریکٹر وغیرہ سے گزارش ہے کہ آپ کی تربیت کے بہت سارے شعبے ہیں، آپ کے یہاں لائبریری ہے، سب کچھ ہے، لیکن دو چیزوں کو آپ کو تربیت میں جوڑنا چاہئے۔ ایک تو آرٹیفیشل انٹلی جنس کی ایک اچھی لیب یہاں ہونی چاہئے اور ہمارے تمام افسروں کی ٹریننگ کا اُسے حصہ بنایا جانا چاہئے۔ اُسی طرح سے ایک ڈاٹا گورننس  ایک تھیم کی شکل میں ہمارے تمام تربیت یافتگان کی ٹریننگ کا حصہ ہونا چاہئے۔ ڈاٹا گورننس ایک بہت بڑی طاقت بن چکا ہے۔ ہمیں ڈاٹا گورننس کی ہر چیز کو سیکھنا اور سمجھنا ہوگا اور جہاں جائیں وہاں لاگو کرنا ہوگا۔ ان دو چیزوں کو بھی اگرآپ جوڑیں ، ٹھیک ہے یہ لوگ تو جارہے ہیں، ان کو شاید نصیب نہیں ہوگا،لیکن آنے والے لوگوں کے لئے ہوگا۔

اور دوسرا ہو سکے تو یہ جو آپ کا کرم یوگی مشن چلتا ہے اُس میں ڈاٹا گورننس کا ایک سرٹیفکیٹ کورس شروع ہو، آن لائن لو گ امتحان دیں، سرٹیفکیٹ حاصل کرے، اسی طرح آرٹیفیشل انٹلی جنس کا بھی ایک سرٹیفکیٹ کورس شروع ہو، اُس کا آن لائن امتحان دیں، بیوروکریسی کے لوگ بھی امتحان دیں، سرٹیفکیٹ حاصل کریں تو رفتہ رفتہ ایک کلچر جدید ہندوستان کا جو خواب ہے، اُس کو پورا کرنے کے لئے بہت کام آئے گا۔

ساتھیوں،

مجھے اچھا لگتا ، میں آپ کے روبرو ہوتا، آپ کے درمیان آتا، کچھ وقت آپ لوگوں کے ساتھ گزارتا اور کچھ باتیں کرتا تو  ہوسکتا ہے اور زیادہ لطف آتا۔ لیکن وقت کی کمی سے پارلیمنٹ بھی چل رہی ہے، کچھ مشکلات ہونے کے سبب میں آ نہیں سکا،لیکن پھر بھی ٹیکنالوجی مدد کررہی ہے ۔ آپ سب کے درشن بھی میں کررہا ہوں۔ آپ کے چہرے کے اُتار چڑاؤ  پڑھ پا رہاہوں اور میرے من میں جو خیالات ہیں وہ آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں۔

میری آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات ہے۔ بہت بہت مبارکباد۔

شکریہ!!

************

ش ح۔ج ق۔ن ع

(U: 2799)