Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

من کی بات کے 86 ویں ایپیسوڈ میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن ( 27 فروری ، 2022 ء )


نئی دلّی ،27 فروری /

 میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔

’ من کی بات ‘ میں پھر ایک بار آپ سب کا خیر مقدم ہے  ۔  آج  ’ من کی بات ‘ کی شروعات ہم ، بھارت کی کامیابی کے ذکر کے ساتھ کریں گے ۔  اس ماہ کے شروع میں بھارت اٹلی سے اپنے ایک قیمتی ورثے کو واپس لانے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ ورثہ ہے، اولوکیتیشورا پدم پانی کی ہزار سال سے زیادہ پرانی مورتی ۔ یہ مورتی کچھ سال پہلے  بہار میں گیا جی کے دیوی  مقام کنڈل پور مندر سے چوری ہو گئی تھی۔ لیکن بہت کوششوں کے بعد  ، اب بھارت  کو یہ مورتی واپس مل گئی  ہے۔  ایسے ہی کچھ سال پہلے تمل ناڈو کے ویلور سے   بھگوان آنجنییّر ، ہنومان جی کی مورتی چوری ہو گئی تھی۔ ہنومان جی کی یہ مورتی  600-700 سال پرانی تھی۔ اس مہینے کے شروع میں، آسٹریلیا میں ہمیں یہ ملی ، ہمارے مشن کو مل  چکی ہے۔

         ساتھیو ،  ہماری ہزاروں سال کی تاریخ میں ملک کے کونے کونے میں ایک سے بڑھ  ایک مورتیاں ہمیشہ بنتی رہی ہیں، ان میں عقیدت بھی تھی، طاقت بھی تھی، ہنر بھی تھا اور تنوع سے  بھرا ہوا تھا اور ہماری مورتیوں کی تاریخ میں  ، اُس وقت کا اثر  بھی نظر آتا ہے۔  یہ بھارت کی مورتی بنانے کے فن کی نایاب مثالیں تو ہی تھیں ، اِن سے ہماری عقیدت بھی جڑی ہوئی تھی  لیکن ماضی میں، بہت سے  مورتیاں چوری ہوکر بھارت سے باہر  جاتی رہیں ۔ کبھی اِس ملک میں، کبھی اس ملک میں یہ  مورتیاں  بیچی جاتی رہیں  اور ان کے لئے وہ تو صرف فن پارے تھے۔ ان کا  تاریخ سے کچھ لینا دینا تھا اور نہ ہی عقیدت سے کچھ لینا دینا تھا ۔ ان مورتیوں کو واپس لانا  بھارت ماں کے تئیں ہمارا فرض تھا ۔ ان مورتیوں میں بھارت کی روح   کا عقیدت کا عنصر ہے۔ ان کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت بھی ہے۔ اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بھارت نے اپنی کوششیں بڑھائیں اور اس کی وجہ یہ بھی ہوا  کہ چوری کا ، جو رجحان تھا ، اُس میں بھی ایک خوف پیدا ہوا۔  جن  ممالک  میں یہ مورتیاں چوری کرکے لے جائی گئی تھیں ، اب انہیں بھی لگنے لگا کہ بھارت کے ساتھ رشتوں میں سافٹ پاور کا ، جو ڈپلومیٹک چینل ہوتا ہے ، اُس میں ، اِس کی بھی بہت بڑی اہمیت ہو سکتی ہے  کیونکہ اِس کے ساتھ بھارت کے احساسات جڑے ہوئے ہیں ،  بھارت کی جذبات جڑے ہوئے ہیں اور ایک طرح سے عوام سے  عوام کے تعلقات  میں بھی یہ بہت طاقت پیدا کرتا ہے ۔ ابھی آپ نے کچھ دن پہلے دیکھا ہوگا کہ کاشی سے چوری ہونے والی ماں اناپورنا دیوی کی مورتی بھی واپس لائی گئی تھی۔ یہ بھارت کے لئے بدلتے ہوئے عالمی نقطہ نظر کی ایک مثال ہے۔ سال 2013 ء تک تقریباً 13 مورتیاں بھارت آئی  تھیں لیکن، پچھلے سات سالوں میں، بھارت کامیابی سے 200 سے زیادہ انمول مورتیوں کو واپس لا چکا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ، فرانس، کناڈا ، جرمنی، سنگاپور، ایسے کئی ممالک نے بھارت کے جذبات کو سمجھا ہے اور مورتیاں واپس لانے میں ہماری مدد کی ہے۔ جب میں پچھلے سال ستمبر میں امریکہ گیا تھا تو وہاں مجھے کافی پرانی پرانی بہت سی مورتیاں اور ثقافتی اہمیت کی بہت سی چیزیں  ملیں ۔ ملک کا جب کوئی بھی قیمتی ورثہ  واپس ملتا ہے تو تاریخ میں احترام رکھنے والے ، آثار قدیمہ پر یقین رکھتے ہیں، عقیدے اور ثقافت سے جڑے ہوئے لوگ اور ایک بھارتی کے طور پر ، ہم سب کو ، اطمینان  ملنا بہت  فطری  بات ہے۔

ساتھیو، بھارتی ثقافت اور ہمارے ورثے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، آج میں آپ کو ’من کی بات ‘ میں دو لوگوں سے ملوانا چاہتا ہوں۔ ان دنوں تنزانیہ کے دو بہن بھائی کلی پال اور ان کی بہن نیما فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر کافی خبروں میں ہیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ نے بھی ان کے بارے میں ضرور سنا ہوگا۔ ان کے اندر بھارتی موسیقی کو لے کر ایک جنون ہے  ، ایک دیوانگی ہے اور اسی وجہ سے وہ بہت مقبول بھی ہیں۔ ہونٹوں کی  حرکت کے اُن کے طریقے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے لئے وہ کتنی زیادہ محنت کرتے ہیں۔ حال ہی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر ہمارا قومی ترانہ ’ جن گن من ‘  گاتے ہوئے  ، ان کا ایک ویڈیو خوب وائرل ہوا تھا۔ کچھ دن پہلے، انہوں نے ایک گانا گا کر لتا دیدی کو خراج عقیدت بھی پیش کیا تھا ۔ میں ان دونوں بھائی بہن  کلی اور نیما کی اس شاندار تخلیقی صلاحیتوں کی بہت ستائش کرتا ہوں۔ انہیں کچھ روز پہلے تنزانیہ میں بھارتی سفارت خانے میں بھی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ بھارتی موسیقی کا جادو کچھ ایسا ہے ، جو سب کو مسحور کر دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ  کچھ سال پہلے دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ملکوں  کے گلوکاروں اور موسیقاروں نے اپنے اپنے ملکوں میں اپنے اپنے ملبوسات میں مہاتما گاندھی کا پسندیدہ بھجن، ’ ویشنو جن ‘ گانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا ۔

آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75ویں سال کا اہم تہوار منا رہا ہے تو ایسے ہی تجربات حب الوطنی کے گیتوں کے حوالے سے کئے جا سکتے ہیں۔ جہاں غیر ملکی شہریوں کو ، وہاں کے مشہور گلوکاروں کو بھارتی حب الوطنی کے گیت گانے کے لئے مدعو کریں۔ یہی نہیں، اگر تنزانیہ میں کلی اور نیما بھارت کے گانوں کو اس طرح  لِپ سِنک کر  سکتے ہیں، تو کیا میرے ملک میں  ، کئی طرح کے گانے ہمارے ملک کی کئی زبانوں میں ہیں، کیا ہم کوئی  ، گجراتی بچے تمل  گانے پر کریں ، کوئی کیرل کے بچے آسامی گیت  پر کریں ، کوئی کنڑ بچے جموں و کشمیر کے گیتوں پر کریں ۔  ہم ایسا ماحول بنا سکتے ہیں  ، جس میں ہم ’ایک بھارت-شریشٹھ بھارت ‘ کا تجربہ کر سکیں گے۔ اتنا ہی نہیں، ہم آزادی کے امرت مہوتسو کو یقینی طور پر ایک نئے انداز میں منا سکتے ہیں۔ میں ملک کے نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں، آئیے اپنے طریقے سے بھارتی زبانوں کے مقبول گانوں کی ویڈیو بنائیں، آپ بہت مقبول ہوجائیں گے اور ملک کے تنوع سے نئی نسل  متعارف  ہو گی ۔

         میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے ہم نے مادری زبان کا دن منایا۔ جو  پڑھے لکھے لوگ ہیں، وہ اس بارے میں کافی علمی معلومات دے سکتے ہیں کہ مادری زبان کا لفظ کہاں سے آیا، اس کی ابتدا کیسے ہوئی۔ میں تو مادری زبان کے لئے یہی کہوں گا کہ جس طرح ہماری ماں ہماری زندگی بناتی ہے، اسی طرح مادری زبان بھی ہماری زندگی بناتی ہے۔ ماں اور مادری زبان مل کر زندگی کی بنیاد کو مضبوط کرتی ہیں۔ جس طرح ہم اپنی ماں کو نہیں چھوڑ سکتے ، اسی طرح ہم اپنی مادری زبان کو بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ مجھے سالوں پہلے کی ایک بات یاد ہے، جب میرا امریکہ جانا  ہوا  تو مجھے مختلف خاندانوں سے ملنے کا موقع ملتا تھا ۔  ایک بار میں ایک تیلگو خاندان کے پاس گیا تو وہاں ایک بہت ہی خوشگوار منظر دیکھنے کو ملا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے خاندان میں ایک اصول بنا رکھا ہے کہ چاہے جتنا بھی کام ہو لیکن اگر ہم شہر سے باہر نہ ہوں تو گھر کے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے  اور دوسرا ، یہ لازمی ہےکہ کھانے کی میز پر  صرف تیلگو زبان میں  ہی بات کریں گے۔ وہاں جو بچے پیدا ہوئے ، ان کے لئے بھی یہی  اصول تھا۔ اپنی مادری زبان سے  ، اُن کی محبت کو دیکھ کر میں اس خاندان سے بہت متاثر ہوا تھا ۔

ساتھیو، آزادی کے 75 سال بعد بھی کچھ لوگ ایسی ذہنی کشمکش میں جی رہے ہیں ، جس کی وجہ سے انہیں اپنی زبان، اپنے لباس، اپنے کھانے پینے کے بارے میں ہچکچاہٹ کا سامنا ہے، جب کہ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہے۔ ہماری مادری زبان ہے، ہمیں اسے فخر سے بولنا چاہیئے  اور ہمارا  بھارت تو زبانوں کے معاملے میں اتنا امیر ہے کہ اس کا  تو موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری زبانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کشمیر سے کنیا کماری تک، کچھ سے کوہیما تک، سینکڑوں زبانیں، ہزاروں بولیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ایک دوسرے میں رچی بسی ہوئی ہیں – زبانیں انیک تاثرات ایک ۔ صدیوں سے ہماری زبانیں  ایک دوسرے سے سیکھتے ہوئے خود کو نکھارتی رہی ہیں، ایک دوسرے کی نشوونما کرتی رہی ہیں ۔ تمل بھارت میں دنیا کی قدیم ترین زبان ہے اور ہر بھارتی کو  اس پر فخر ہونا چاہیئے  کہ ہمارے پاس دنیا کا اتنا بڑا ورثہ ہے۔ اسی طرح جتنے قدیم دھرم شاستر ہیں، وہ بھی ہماری سنسکرت زبان میں  ہیں ۔ بھارت کے لوگ، تقریباً 121، یعنی ہمیں  فخر ہوگا کہ 121 قسم کی مادری زبانوں سے  ہم جڑے ہوئے ہیں اور ان  میں 14 زبانیں تو  ایک کروڑ سے زیادہ لوگ روزمرہ کی زندگی میں بولتے ہیں۔ یعنی جتنے یورپی ممالک کی کل آبادی نہیں ہے، اس سے زیادہ لوگ ہمارے ملک میں 14 مختلف زبانوں سے وابستہ ہیں۔ سال 2019 ء میں ہندی دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں تیسرے نمبر پر تھی۔ ہر بھارتی کو اس پر بھی فخر ہونا چاہیئے۔ زبان نہ صرف اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ زبان معاشرے کی ثقافت اور ورثے کو محفوظ کرنے کا کام بھی کرتی ہے۔ اپنی زبان   کی ثقافت کو محفوظ  کرنے کا ایسا ہی کام سورینام میں سُرجن پروہی جی کر رہے ہیں ۔ وہ اس مہینے کی 2 تاریخ کو 84 سال کے ہو ئے ہیں ۔ ان کے اجداد بھی سالوں پہلے روزی کمانے کے لئے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ سورینام گئے تھے۔ سرجن پروہی جی ہندی میں بہت اچھی شاعری لکھتے ہیں، ان کا نام وہاں کے قومی شاعروں میں لیا جاتا ہے یعنی آج بھی ان  کے دل میں بھارت دھڑکتا ہے، ان  کے کاموں میں بھارتی مٹی کی خوشبو ہے۔ سورینام کے لوگوں نے سرجن پروہی  جی کے نام پر ایک میوزیم بھی بنایا ہے۔ یہ میرے لئے بہت خوش قسمتی کی بات ہے کہ سال 2015 ء میں مجھے ان کی عزت افزائی کا موقع ملا۔

         ساتھیو، آج کے دن یعنی 27 فروری کو مراٹھی زبان کے فخر کا دن بھی ہے۔

’’ سَرو مراٹھی بندھو بھگی نینا مراٹھی بھاشا دِناچیا ہاردِک  شوبھیچھا ‘‘

     یہ دن مراٹھی شاعر ، وشنو بامن شرواڈکر جی، شریمان کسوماگرج جی کے لئے وقف ہے۔ آج  ہی کسوماگرج جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ کسوماگرج جی نے مراٹھی میں نظمیں لکھیں، بہت سے ڈرامے لکھے، مراٹھی ادب کو نئی بلندیاں دیں۔

         ساتھیو، ہمارے یہاں زبان کی اپنی خوبیاں ہیں، مادری زبان کی اپنی سائنس ہے۔ اس سائنس کو سمجھتے ہوئے ہی قومی تعلیمی پالیسی میں مقامی زبان میں تعلیم  پر زور دیا گیا ہے۔ کوششیں جاری ہیں کہ ہمارے پیشہ ورانہ کورسز کو بھی مقامی زبان میں پڑھائے جائیں ۔ آزادی کے امرت کال میں ، ہم سب کو مل کر اس کوشش کو بہت زیادہ رفتار دینی چاہیئے، یہ عزت نفس کا کام ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ جو بھی مادری زبان بولتے ہیں،  اُس کی خوبیوں  کے بارے میں ضرور جانیں اور کچھ نہ کچھ لکھیں ۔س

         ساتھیو، کچھ دن پہلے میری ملاقات ، میرے دوست اور کینیا کے سابق وزیر اعظم رائلا اوڈنگا  جی سے ہوئی تھی ۔ یہ ملاقات دلچسپ  تو تھی ہی لیکن بہت جذباتی  بھی تھی۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں تو ہم کھل کر بات بھی کرلیتے ہیں۔ جب ہم دونوں باتیں کر رہے تھے تو اوڈنگا جی نے اپنی بیٹی کے بارے میں بتایا۔ ان کی بیٹی روزمیری کو برین ٹیومر ہوگیا تھا ، جس کی وجہ سے انہیں اپنی بیٹی کی سرجری کرانی پڑی تھی  لیکن اس کا ایک برا  اثر یہ ہوا کہ روزمیری کی بینائی تقریباً  چلی گئی،  دکھائی دینا ہی بند ہو گیا ۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس بیٹی کے ساتھ کیا گزری ہو گی اور ہم ایک باپ کی حالت کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں، اس کے جذبات کو سمجھ سکتے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر کے اسپتالوں  میں ، دنیا کا کوئی بڑا ملک نہیں ہوگا، جہاں انہوں نے اپنی بیٹی کے علاج کے لئے پوری کوشش نہ کی ہو۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں تلاش کیا لیکن کامیابی نہ ملی اور ایک طرح سے تمام امیدیں چھوڑ کر پورے گھر میں مایوسی کا ماحول چھا گیا۔ اس میں کسی نے انہیں آیوروید کے علاج کے لئے بھارت آنے کا مشورہ دیا اور وہ بہت کچھ کر چکے تھے، تھک بھی چکے تھے، پھر بھی  سوچا کہ چلو ایک بار آزمائیں، کیا ہوتا ہے؟ وہ بھارت آئے ، کیرالہ کے ایک آیورویدک اسپتال میں اپنی بیٹی کا علاج کرانا شروع کیا ۔ کافی وقت بیٹی یہاں رہی ۔ آیوروید کے اس علاج کا اثر یہ ہوا کہ روزمیری کی بینائی کافی حد تک واپس آگئی۔ آپ سوچ سکتے ہیں، جیسے ایک نئی زندگی مل گئی اور روزمیری کی زندگی میں  تو روشنی آگئی لیکن پورے خاندان میں  بھی ایک نئی روشنی  ، نئی زندگی آگئی ہے اور اوڈنگا جی اتنے جذباتی ہو کر مجھے یہ بات بتا رہے تھے کہ ان کی خواہش ہے کہ بھارت کا آیوروید کا علم ایک سائنس ہے، اسے کینیا  میں لے  جائیں ۔ اس میں ، جس قسم کے پودے استعمال کئے  جاتے ہیں ، وہ ان پودوں کی کاشت کریں گے اور وہ پوری کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہوں۔

         میرے لئے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہماری سرزمین اور روایت سے اتنا بڑا دکھ کسی کی زندگی سے دور ہو گیا۔ یہ سن کر آپ کو بھی خوش ہو گی۔ کون ایسا بھارتی ہوگا ، جسے اس پر فخر نہ ہو؟ ہم سب جانتے ہیں کہ نہ صرف اوڈنگا جی بلکہ دنیا کے  لاکھوں لوگ آیوروید سے اسی طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔

         برطانیہ کے پرنس چارلس بھی آیوروید کے بڑے مداحوں میں سے ایک ہیں۔ جب بھی  میری ان سے ملاقات ہوتی ہے ، وہ آیوروید کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ انہیں بھارت کے کئی آیورویدک اداروں  کی جانکاری بھی ہے ۔

ساتھیو، پچھلے سات سالوں میں ملک میں آیوروید کے فروغ پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ آیوش کی وزارت کی تشکیل نے ہمارے روایتی طریقوں اور صحت کو مقبول بنانے کے ہمارے عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں آیوروید کے میدان میں بہت سے نئے اسٹارٹ اپس ابھرے ہیں۔  اسی مہینے کی شروعات میں آیوش اسٹارٹ اپ چیلنج شروع ہوا تھا۔ اس چیلنج کا مقصد اس شعبے میں کام کرنے والے اسٹارٹ اپس کی شناخت اور مدد کرنا تھا ۔ اس شعبے میں کام کرنے والے نوجوانوں سے  میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس چیلنج میں ضرور حصہ لیں۔

         ساتھیو، ایک بار جب لوگ مل کر کچھ کرنے کا عزم کر لیتے ہیں، تو وہ شاندار کام کر جاتے ہیں۔ معاشرے میں اس طرح کی کئی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، جن میں عوامی شراکت، اجتماعی کوشش نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ایسی ہی ایک عوامی تحریک جس کا نام ’’مشن جل تھل‘‘ ہے ، کشمیر کے سری نگر میں جاری ہے۔ سری نگر کی جھیلوں اور تالابوں کو صاف کرنے اور انہیں ان کی پرانی شان میں بحال کرنے کی یہ ایک انوکھی کوشش ہے۔ ’’ مشن جل تھل‘‘  کا فوکس ’’ کشل سار ‘‘ اور  ’’ گل سار ‘‘  پر ہے۔ اس میں عوام کی شرکت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی بھی بہت مدد لی جا رہی ہے۔ یہ جاننے کے لئے کہ کہاں کہاں تجاوزات ہیں، کہاں غیر قانونی تعمیرات ہوئی ہیں، اس علاقے کا سروے کیا گیا۔ اس کے ساتھ  ہی پلاسٹک کے کچرے کو ہٹانے اور کچرے کو صاف کرنے کی مہم بھی چلائی گئی۔ مشن کے دوسرے مرحلے میں پرانے واٹر چینلوں  اور جھیل کو بھرنے والے 19 چشموں کی بحالی کے لئے بھی کافی کوشش کی گئی۔ اس بحالی پر؎وجیکٹ کی اہمیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلانے کے لئے مقامی لوگوں اور نوجوانوں کو واٹر ایمبیسیڈر  بھی بنایا گیا۔ اب یہاں کے مقامی لوگ بھی  ’’ گل سار جھیل ‘‘  میں ہجرت کرنے والے پرندوں اور مچھلیوں کی تعداد بڑھانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں اور اسے دیکھ کر خوش بھی  ہوتے ہیں۔ میں سری نگر کے لوگوں کو اس شاندار کاوش کے لئے  بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو، ملک نے آٹھ سال پہلے ، جو  ’ سووچھ بھارت مشن ‘  شروع کیا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ اس کی وسعت میں بھی اضافہ ہوا، نئی اختراعات بھی شامل ہوئیں۔ آپ بھارت میں ، جہاں بھی جائیں، آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ صفائی کے لئے کوئی نہ کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔ آسام کے کوکرا جھار میں مجھے ایسی ہی ایک کوشش کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ یہاں مارننگ واکرز کے ایک گروپ نے  ’ سووچھ اور ہرِت کوکراجھار ‘ مشن کے تحت ایک بہت ہی قابل تعریف  پہل کی ہے۔ ان سب نے نئے فلائی اوور کے علاقے میں تین کلو میٹر طویل سڑک کی صفائی کرکے صفائی کا تحریکی پیغام دیا۔ اسی طرح وشاکھاپٹنم میں ’ سووچھ بھارت ابھیان ‘  کے تحت پولی تھین کے بجائے کپڑے کے تھیلوں کے استعمال کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ یہاں کے لوگ ماحول کو صاف رکھنے کے لئے سنگل یوز پلاسٹک  کی مصنوعات کے خلاف مہم بھی چلا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ گھروں میں  ہی کچرے کو الگ کرنے کے لئے بیداری بھی پھیلا رہے ہیں۔ ممبئی کے سومیا کالج کے طلباء نے صفائی کی اپنی مہم میں خوبصورتی کو  بھی شامل کر لیا ہے۔ انہوں نے کلیان ریلوے اسٹیشن کی دیواروں کو خوبصورت پینٹنگز سے سجایا ہے۔ راجستھان میں سوائی مادھوپور کی ایک متاثر کن مثال بھی میرے علم میں آئی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں نے رَنتھمبور میں  ’ مشن بیٹ پلاسٹک ‘نام سے ایک مہم شروع کی  ہوئی ہے ، جس میں رنتھمبور کے جنگلات سے پلاسٹک اور پولی تھین کو ہٹا یا گیا ہے۔ ہر کسی کی کوشش کا یہ جذبہ ملک میں عوام کی شرکت کو تقویت دیتا ہے اور جب عوامی شرکت ہو تو بڑے سے بڑے مقاصد ضرور پورے ہوتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج سے کچھ دن بعد یعنی 8 مارچ کو پوری دنیا میں ’خواتین کا عالمی دن ‘منایا جائے گا۔ ’ من کی بات ‘میں ہم خواتین کی ہمت، ہنر اور  مہارت سے متعلق بہت سی مثالیں شیئر کر تے  رہے ہیں۔ آج چاہے اسکل انڈیا ہو، سیلف ہیلپ گروپ ہو یا چھوٹی  بڑی صنعتیں ہوں ، خواتین ہر جگہ آگے بڑھی ہیں۔ آج کسی بھی طرف دیکھئے ، خواتین پرانی روایتوں کو توڑ رہی ہیں۔ آج ہمارے ملک میں خواتین پارلیمنٹ سے لے کر پنچایت تک مختلف شعبوں میں نئی​​بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ فوج میں بھی اب بیٹیاں نئے اور بڑے کرداروں میں ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں اور ملک کی حفاظت کر رہی ہیں۔ پچھلے مہینے یوم جمہوریہ پر ہم نے دیکھا کہ جدید لڑاکا طیارے  بھی بیٹیا اڑا رہی ہیں ۔ ملک نے سینک اسکولوں میں بیٹیوں کے داخلے پر پابندی بھی ہٹا دی ہے اور ملک بھر کے فوجی اسکولوں میں بیٹیاں داخلہ لے رہی ہیں۔ اسی طرح  اسٹارٹ اپ  کو دیکھ لیں، پچھلے سالوں میں ملک میں ہزاروں نئے اسٹارٹ اپس شروع ہوئے۔ ان میں سے تقریباً آدھے اسٹارٹ اپس میں ڈائریکٹر کے کردار میں خواتین ہیں۔ پچھلے کچھ ماہ میں خواتین کے لئے زچگی کی چھٹی بڑھانے جیسے فیصلے کئے گئے ہیں۔  بیٹے  اور بیٹیوں  کو مساوی حقوق دیتے ہوئے  شادی کی عمر کو برابر کرنے  کی ملک  کوشش کر رہا ہے۔  اس سے ہر شعبے میں خواتین کی شرکت بڑھ رہی ہے۔ آپ ملک میں ایک اور بڑی تبدیلی  ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ تبدیلی  ہے – ہماری سماجی مہمات کی کامیابی ۔ ’ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ ‘ کی کامیابی کو لے لیں، آج ملک میں جنسی  تناسب بہتر ہوا ہے۔ اسکول جانے والی بیٹیوں کی تعداد میں بھی بہتری آئی ہے۔ اس میں ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہماری بیٹیاں درمیان میں اسکول نہ چھوڑیں۔ اسی طرح ملک میں خواتین کو ’سووچھ بھارت ابھیان ‘ کے تحت کھلے میں رفع حاجت سے آزادی ملی ہے۔ تین طلاق جیسی سماجی برائی بھی ختم ہو رہی ہے ۔ جب سے تین طلاق کے خلاف قانون نافذ ہوا ہے، ملک میں تین طلاق کے معاملات میں 80 فی صد کمی آئی ہے۔ اتنے کم وقت میں یہ ساری تبدیلیاں کیسے ہو رہی ہیں؟ یہ تبدیلیاں  اس لئے آ رہی ہے کہ اب خواتین خود ہمارے ملک میں تبدیلی اور ترقی کی کوششوں کی قیادت کر رہی ہیں۔

         میرے پیارے ہم وطنو، کل 28 فروری کو ’ قومی سائنس  کا دن ‘  ہے۔ یہ دن رمن  ایفیکٹ کی دریافت کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ میں ، سی وی رمن جی کے ساتھ ساتھ، میں ان تمام سائنسدانوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے ہمارے سائنسی سفر کو تقویت بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ساتھیو، ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی میں آسانی اور سادگی میں کافی جگہ بنا لی ہے۔ کون سی ٹیکنالوجی اچھی ہے، کون سی ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال، ہم ان تمام موضوعات سے بخوبی واقف  ہی ہیں۔ لیکن، یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے خاندان کے بچوں کے لئے اس ٹیکنالوجی کی بنیاد کیا ہے، اس کے پیچھے سائنس کیا ہے، ہماری توجہ اس طرف جاتی ہی نہیں ۔ اس سائنس ڈے پر، میں تمام خاندانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کے لئے چھوٹی چھوٹی کوششوں سے ضرور آغاز کریں۔ اب جیسے دکھتا نہیں ہے ، عینک لگانے کے بعد صاف دکھنے لگتا ہے تو بچوں کو آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے سائنس کیا ہے ۔ بس عینک  سے دیکھیں ،   مزہ کریں ، اتنا نہیں۔ اب آپ آرام سے اسے ایک کاغذ پر بتا سکتے ہیں۔ اب وہ موبائل فون استعمال کرتا ہے، کیلکولیٹر کیسے کام کرتا ہے، ریموٹ کنٹرول کیسے کام کرتا ہے، سینسرز کیا ہیں؟  یہ سائنسٹفک باتیں ، اس کے ساتھ ساتھ گھر میں بات چیت میں ہوتی ہیں کیا  ؟ ہو سکتی ہے بڑے آرام سے ، ہم اِن چیزوں کو گھر کی روز مرہ کی زندگی کے پیچھے  کیا سائنس ہے کہ وہ کون سی بات ہے ، جو کر رہی ہے ، اس کو سمجھا سکتے ہیں ۔ اسی طرح کیا ہم نے کبھی آسمان  میں بچوں کو ایک ساتھ  لے کر دیکھا ہے کیا ؟ رات  میں ستاروں کے بارے میں بھی بات ہوئی  ہوں ۔ مختلف قسم کے برج دکھائی دیتے ہیں، ان کے بارے میں بتائیں۔ ایسا کرنے سے آپ بچوں میں فزکس اور فلکیات کی طرف ایک نیا رجحان پیدا کر سکتے ہیں۔ آج کل  تو ایسی بہت سی ایپس بھی ہیں، جن کے ذریعے آپ ستاروں اور سیاروں کا پتہ لگا سکتے ہیں یا آپ آسمان پر نظر آنے والے ستارے کی شناخت کر سکتے ہیں، آپ اس کے بارے میں جان  بھی سکتے ہیں۔ میں اپنے اسٹارٹ اپس سے بھی کہوں گا کہ آپ اپنی صلاحیتوں اور سائنسی کردار کو قوم کی تعمیر سے متعلق کام میں استعمال کریں۔ یہ ملک کے تئیں ہماری اجتماعی سائنسی ذمہ داری بھی ہے۔ جیسے آج کل  ، میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے اسٹارٹ اپ ورچوئل رئیلٹی کی دنیا میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ ورچوئل کلاسز کے اس دور میں بچوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسی ہی ایک ورچوئل لیب بنائی جا سکتی ہے۔ ہم ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے بچوں کو گھر بیٹھے کیمسٹری لیب کا تجربہ بھی کرا سکتے ہیں۔ میری اساتذہ اور والدین سے درخواست ہے کہ وہ تمام طلباء اور بچوں کو سوالات کرنے کی ترغیب دیں اور ان کے ساتھ مل کر سوالات کے صحیح جوابات تلاش کریں۔ آج، میں کورونا کے خلاف  لڑائی میں بھارتی سائنسدانوں کے کردار کی بھی  ستائش کرنا چاہوں گا۔ ان کی محنت کی وجہ سے میڈ ان انڈیا ویکسین تیار کرنا ممکن ہوا  ، جس سے پوری دنیا کو کافی مدد ملی ہے۔ یہ انسانیت کو سائنس کا تحفہ ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، اس بار بھی ہم نے بہت سے موضوعات پر بات کی۔ آنے والے مارچ کے مہینے میں بہت سے تہوار آ رہے ہیں – شیو راتری آ رہی ہے اور اب کچھ دنوں کے بعد آپ سب ہولی کی تیاری  میں مصروف ہو جائیں گے۔ ہولی  ، ہمیں متحد کرنے والا تہوار ہے۔ اس میں اپنے – پرائے ، چھوٹے بڑے  کے تمام فرق مٹ جاتے ہیں۔ اسی لئے  کہتے ہیں ، ہوکی کے رنگوں سے بھی زیادہ گہرا رنگ ، ہولی  کی محبت اور ہم آہنگی کا ہوتا ہے ۔ ہولی میں گجیا کے ساتھ ساتھ رشتوں کی انوکھی مٹھاس بھی ہوتی ہے۔ ان رشتوں کو  ہمیں اور مضبوط کرنا ہے اور یہ رشتہ صرف اپنے خاندان کے لوگوں سے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں سے بھی ہے ، جو آپ کے بڑے خاندان کا حصہ ہیں۔ اس کا سب سے اہم طریقہ  بھی آپ کو یاد رکھنا ہے۔  یہ طریقہ ہے – ’ ووکل فار لوکل ‘ کے ساتھ تہوار منانے کا ۔ آپ تہواروں پر مقامی مصنوعات  کی خریداری  کریں  ، جس سے آپ کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی زندگی میں بھی رنگ بھرے ، رنگ رہے  ، امنگ رہے ۔ جس کامیابی کے ساتھ ہمارا ملک کورونا کے خلاف لڑائی  لڑ رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے، اُس سے تہواروں میں جوش بھی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ اسی جوش کے ساتھ ہمیں اپنے تہوار منانے ہیں اور ساتھ ہی اپنی احتیاط بھی برقرار رکھنی ہے۔ میں آپ سبھی کو آنے والے تہواروں کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔  مجھے ہمیشہ آپ کے  باتوں کا ، آپ کے خطوط کا ، آپ کے پیغامات  انتظار رہے گا ۔ بہت بہت شکریہ  ۔