Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

گجرات کے کچھ میں واقع گرودوارہ لکھپت صاحب میں گرو پرو کی تقریب کے موقع پر  وزیر اعظم کے خطاب کا متن

گجرات کے کچھ میں واقع گرودوارہ لکھپت صاحب میں گرو پرو کی تقریب کے موقع پر  وزیر اعظم کے خطاب کا متن


 

نئی دہلی۔ 25  دسمبر            واہے گروجی کا خالصہ، واہے گروجی کی فتح!!!

گرو پرو  کے اس مقدس پروگرام میں ہمارے ساتھ شامل گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل جی، گجرات قانون ساز اسمبلی کی اسپیکر، بہن نیما آچاریہ جی، قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین جناب اقبال سنگھ جی، رکن پارلیمنٹ جناب ونود بھائی چاوڑا جی، لکھپت گردوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر راجو بھائی، جناب جگتار سنگھ گل جی، وہاں موجود تمام معززین، تمام عوامی نمائندے اور تمام زائرین دوستو! آپ سب کو گرو پرو  کی بہت بہت مبارکباد۔

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اس مقدس دن کے موقع پر مجھے لکھپت صاحب سے آشیرواد حاصل کرنے کا موقع ملا۔ میں اس مہربانی کے لیے گرو نانک دیو جی اور تمام گرووں کے قدموں میں نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

گرودوارہ لکھپت صاحب گردش ایام کا گواہ رہا ہے۔ آج جب میں اس مقدس مقام سے وابستہ ہو رہا ہوں تو مجھے یاد آرہا ہے کہ لکھپت صاحب نے ماضی میں کتنے ہی نشیب و فرازدیکھے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ جگہ دوسرے ملکوں میں جانے کے لیے ، تجارت  کے لیے ایک اہم مرکز ہوتا تھا۔ اسی لیے یہاں گرو نانک دیو جی کے پاؤں پڑے تھے۔ گرو نانک دیو جی چوتھی اُداسی کے دوران یہاں کچھ دن ٹھہرے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ شہر ویران ہو گیا۔ سمندر اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ دریائے سندھ نے بھی اپنا رخ موڑ لیا۔ 1998 کے سمندری طوفان کی وجہ سے اس  جگہ کو، گوردوارہ لکھپت صاحب کو کافی نقصان پہنچا۔ اور 2001 کے زلزلے کو کون بھول سکتا ہے؟ اس نے گرودوارہ صاحب کی 200 سالہ پرانی عمارت کو  بہت نقصان پہنچایا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ،آج ہمارا گرودوارہ لکھپت صاحب اسی شان کے ساتھ کھڑا ہے۔

اس گرودوارہ سے میری بہت سی انمول یادیں وابستہ ہیں۔ 2001 کے زلزلے کے بعد مجھے گرو کی مہربانی سے اس مقدس مقام کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے،  تب ملک کے مختلف حصوں سے آنے والےدستکاروں، کاریگروں نے اس جگہ کی اصل شان کو محفوظ رکھا تھا۔ یہاں کی دیواروں پر قدیم طرز تحریر کے ساتھ گرووانی لکھی  گئی تھی۔ اس منصوبے کو اس وقت یونیسکو نے بھی اعزاز سے نوازا تھا۔

ساتھیوں،

گجرات سے یہاں دہلی آنے کے بعد بھی مجھے مسلسل اپنے گرووں کی خدمت کا موقع ملتا رہا ہے۔ 2016-17 گرو گوبند سنگھ جی کےپرکاش اتسو کے 350 سال کا مقدس سال تھا۔ ہم نے اسے ملک اور بیرون ملک پوری عقیدت کے ساتھ منایا۔ 2019 میں، گرو نانک دیو جی کے پرکاش پرو کے 550 سال مکمل ہونے پر، حکومت ہند نے جوش و خروش کے ساتھ اس کے انعقاد میں مصروف ہے۔ گرو نانک دیو جی کے پیغام کو نئی توانائی کے ساتھ پوری دنیا تک پہنچانے کے لیے ہر سطح پر کوششیں کی گئیں۔ کرتارپور صاحب کوریڈور جس کا کئی دہائیوں سے انتظار تھا، 2019 میں ہماری حکومت نے ہی اس کی تعمیر کا کام مکمل کیا۔ اور اب 2021 میں ہم گرو تیغ بہادر جی کے پرکاش اتسو کے 400 سال کا جشن منا رہے ہیں۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ ابھی حال ہی میں ہم افغانستان سے نہایت احترام کے ساتھ گرو گرنتھ صاحب کی باقیات ہندوستان لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ گرو کے کرم کا اس سے بڑا تجربہ کیا ہو سکتا ہے؟ ابھی چند ماہ پہلے جب میں امریکہ گیا تھا تو امریکہ نے ہندوستان کو 150 سے زائد ،جو ہندوستان کی تاریخی ضمانت تھی، جسے کوئی انہیں چرا کر لے گیا تھا،  اس 150 سے زائد تاریخی اشیاء کو ہم واپس لانے میں کامیاب ہوئے۔ اس میں سے ایک پیش قبض (چھوٹی تلوار) بھی ہے جس پر فارسی میں گرو ہرگوبند سنگھ  جی کا نام لکھا ہوا ہے۔ یعنی ہماری ہی حکومت کو اسے واپس لانے کی سعادت نصیب ہوئی۔

مجھے یاد ہے کہ جام نگر میں دو سال پہلے 700 بستروں کا جدید ہسپتال بنایا گیاہے ، اس کا نام بھی گرو گوبند سنگھ جی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اور ابھی ہمارے وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی اس کی تفصیل بیان کر رہے تھے۔ ویسے، گجرات کے لیے یہ ہمیشہ سے فخر کی بات رہی ہے کہ خالصہ پنتھ کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے پنج پیاروں میں سے چوتھے گروسکھ بھائی محکم سنگھ جی کا تعلق گجرات سے تھا۔ دیو بھومی دوارکا میں ان کی یاد میں گورودوارہ بیٹ دوارکا بھائی محکم سنگھ کی تعمیر کا کام ہوا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ حکومت گجرات لکھپت صاحب گرودوارہ اور گرودوارہ بیٹ دوارکا کے ترقیاتی کاموں کو بڑھانے میں مکمل تعاون کر رہی ہے اور مالی مدد بھی  فراہم کر رہی ہے۔

ساتھیوں،

گرو نانک دیو جی نے اپنے الفاظ میں کہا ہے:

گرپرسادی رتنو ہری لابھے،

مٹّے اگین ہوئی اُجیارا

یعنی صرف گرو کے نذرانے سے ہی ہری لابھ حاصل ہوتا ہے، یعنی ایشور کا حصول ہوتا ہے، اور انا کے خاتمے سے روشنی پھیلتی ہے۔ ہمارے سکھ گرووں نے ہمیشہ ہندوستانی سماج کو اس روشنی سے بھرنے کا کام کیا ہے۔ آپ تصور کریں ، جب گرو نانک دیو جی نے ہمارے ملک میں جنم لیا تھا، اس وقت تمام ستم ظریفیوں اور دقیانوسی تصورات سے لڑتے ہوئے معاشرے کی کیا حالت تھی؟ بیرونی حملے اور مظالم اس وقت ہندوستان کے حوصلے پست کر رہے تھے۔ ہندوستان جو مادی اور روحانی طور پر دنیا کی رہنمائی کرتا تھا، وہ خود مشکل میں تھا۔ جب ہم ان حالات کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اگر اس دور میں گرو نانک دیو جی اپنی روشنی نہ پھیلاتے تو کیا ہوتا؟ گرو نانک دیو جی اور ان کے بعد ہمارے مختلف گرووں نے نہ صرف ہندوستان کے شعور کو روشن رکھا بلکہ ہندوستان کو محفوظ رکھنے کا راستہ بھی ہموار کیا ۔ آپ دیکھئے، جب ملک ذات پات کے نام پر مختلف افکار کے نام پر کمزور ہو رہا تھا، تب گرو نانک دیو جی نے کہا تھا۔

جنہو جوتی نے نہ پوچھ ہوجاتی ،  آگے جات نہ ہے”۔

یعنی سب میں خدا کا نور دیکھو، اسے پہچانو۔ کسی کی ذات مت پوچھو۔ کیونکہ ذات سے کسی کی پہچان نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی زندگی کے بعد کے سفر میں کسی کی ذات ہوتی ہے۔ اسی طرح گرو ارجن دیو جی نے پورے ملک کے سنتوں کے اچھے خیالات کو پرویا اور پورے ملک کو اتحاد کے دھاگے سے جوڑدیا۔ گرو ہرکشن جی نے عقیدے کو ہندوستان کی شناخت سے جوڑا۔ دہلی کے گوردوارہ بنگلہ صاحب میں مصیبت زدہ لوگوں کا علاج کرکے انسانیت کے لیے جو راستہ دکھایا، وہ آج بھی ہر سکھ اور ہر ہندوستانی کے لیے مشعل راہ ہے۔ ہمارے گرودواروں نے جس طرح کورونا کے مشکل گھڑی میں خدمت کی ذمہ داری اٹھائی، یہ گرو صاحب کی مہربانی اور ان کے نظریات کی ہی علامت ہے۔ یعنی ایک طرح سے ہر گرو نے اپنے وقت میں ملک کی ضرورت کے مطابق رہنمائی کی، ہماری نسلوں کی رہنمائی کی۔

ساتھیوں،

ہمارے گرووں کا تعاون صرف سماج اور روحانیت تک محدود نہیں ہے بلکہ ہماری قوم، قوم کی فکر، قوم کا عقیدہ اور سالمیت اگر آج  محفوظ ہے تو اس کے مرکز میں سکھ گرووں کی عظیم تپسیا ہے۔ گرو نانک دیو جی کے زمانے سے ہی آپ دیکھیے ، جب غیر ملکی حملہ آور تلوار کے بل بوتے پر ہندوستان کے اقتدار اور دولت پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، تب گرو نانک دیو جی نے کہا تھا۔

پاپ کی جنجھ لے کابل ہودھائی آ ، جوری مانگے دانو وےلالو۔

یعنی بابر گناہ اور ظلم کی تلوار لے کر کابل سے آیا ہے اورزور و ظلم سے حکومت ہند کی کنیا دان کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ گرو نانک دیو جی کی وضاحت تھی، نظریہ تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہاتھا

خراسان خصمانا کیا  ہندوستان ڈرائی یا

یعنی خراسان پر قبضہ کرنے کے بعد بابر ہندوستان کو ڈرا رہا ہے۔ اسی میں انہوں نے مزید کہا کہ

ایتی مار پئی کرلانے تیں کی درد ونہ آئی یا ۔

یعنی اس وقت اتنے مظالم ہورہے تھے، لوگوں میں چیخ و پکار تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گرو نانک دیو جی کے بعد آنے والے ہمارے سکھ گرووں نے ملک اور مذہب کے لیے اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اس وقت ملک گرو تیغ بہادر کا 400 واں پرکاش اتسو منا رہا ہے۔ ان کی پوری زندگی ‘قوم پہلے’ کے عزم کی مثال ہے۔ جس طرح گرو تیغ بہادر جی ہمیشہ انسانیت کے تئیں اپنے خیالات کے لیے ثابت قدم رہے، وہ ہمیں ہندوستان کی روح کی دیدار کراتے ہیں ۔ ملک نے جس طرح انہیں ‘ہند کی چادر’ کا خطاب دیا، اس سے ہمیں سکھوں کی روایت کے تئیں ہر ہندوستانی کے لگاؤ کا اظہار ہوتا ہے۔ گرو تیغ بہادر کی بہادری اور اورنگ زیب کے خلاف ان کی قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ملک کس طرح دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کے خلاف لڑتا ہے۔

اسی طرح دسویں گرو گرو گوبند سنگھ صاحب کی زندگی بھی ہر قدم پر استقامت اور قربانی کی زندہ مثال ہے۔ قوم کے لیے، قوم کے بنیادی نظریات کے لیے، دسویں گرو نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے۔ ان کے دو صاحبزادوں زورابر سنگھ اور فتح سنگھ کو دہشت گردوں نے دیوار میں زندہ چنوا دیا ۔ لیکن گرو گوبند سنگھ جی نے ملک کے آن اور شان کو جھکنے نہیں دیا۔ چاروں صاحبزادوں کی قربانی کی یاد میں ہم آج بھی ہفتہ شہادت مناتے ہیں اور اس وقت بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

ساتھیوں،

دسویں گرو کے بعد بھی ایثار و قربانی کا یہ سلسلہ نہیں رکا۔ بیر بابا بندہ سنگھ بہادر نے اپنے وقت کی طاقتور ترین حکومت کی جڑیں ہلا دیں۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی یلغار کو روکنے کے لیے سکھوں نے ہزاروں کی تعداد میں قربانیاں دیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب سے بنارس تک ملک کی طاقت اور ورثے کو جس طرح زندہ کیا وہ بھی تاریخ کے اوراق میں درج ہے۔ جس بہادری سے ہمارے سکھ بھائی بہنوں نے انگریزوں کے دور حکومت میں بھی ملک کی آزادی کی جنگ لڑی، ہماری آزادی کی جدوجہد، جلیانوالہ باغ کی سرزمین آج بھی ان قربانیوں کی گواہ ہے۔ یہ وہ روایت ہے جس میں ہمارے گرووں نے صدیوں پہلے اپنی جان گنوائی تھی اور وہ   روایت آج بھی اتنی ہی بیدار، اتنی ہی باشعور ہے۔

ساتھیوں،

یہ آزادی کے امرت مہوتسو  کا وقت ہے۔ آج جب ملک اپنے ماضی سے، اپنی آزادی کی جدوجہد سے تحریک لے رہا ہے، ہمارے گرووں کے نظریات ہمارے لیے اور بھی اہم ہو گئے ہیں۔ آج ملک جو کوششیں کر رہا ہے، جو عہد لے رہا ہے، ان سب کے خواب وہی ہیں جن کو پورا ہوتے ہوئے ملک صدیوں سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جس طرح سے گرو نانک دیو جی نے ہمیں ‘مانو  جات’ کا سبق سکھایا تھا، اسی پر چلتے ہوئے  آج ملک ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، اور سب کا وشواس’ کے منتر پر آگے بڑھ رہا ہے۔ اس منتر کے ساتھ آج ملک ‘سب کا پریاس’ کو اپنی طاقت بنا رہا ہے۔ کشمیر سے کنیا کماری تک، کچھ سے کوہیما تک، پورا ملک ایک ساتھ مل کر خواب دیکھ رہا ہے، ایک ساتھ مل کر ان کی  تعبیر کوشش کر رہا ہے۔ آج ملک کا منتر ہے – ‘ایک بھارت، شریشٹھ بھارت’۔

آج ملک کا ہدف ہے – ایک نئے قابل ہندوستان کا احیاء۔ آج ملک کی پالیسی ہے – ہر غریب کی خدمت، ہر محروم کو ترجیح۔ آپ نے دیکھا کہ کورونا ایسے مشکل وقت میں آیا لیکن ملک نے کوشش کی کہ کوئی غریب بھوکا نہ سوئے۔ آج ملک کے ہر حصے کو ملک کی ہر کوشش، ہر اسکیم کا یکساں فائدہ مل رہا ہے۔ ان کوششوں کی تکمیل پورے ہندوستان کو مضبوط بنائے گی اور گرو نانک دیو جی کی تعلیمات  سے آراستہ کرے گی۔

اس لیے یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ ایسے اہم  وقت میں کوئی ہمارے خوابوں کو، ملک کے اتحاد کو نقصان نہ پہنچا ئے۔ ہمارے گرو، جن خوابوں کے لیے جیے، جن خوابوں کے لیے انھوں نے اپنی زندگی صرف کردی ، آئیے ہم سب ان کو پورا کرنے کے لیے متحد ہو جائیں، ہمارے درمیان اتحاد بہت ضروری ہے۔ جن خطرات سے ہمارے گرو ملک کو خبردار کرتے تھے آج بھی وہی خطرات  لاحق ہیں۔ اس لیے ہمیں چوکنا رہنا ہوگا اور ملک کی حفاظت بھی کرنی ہوگی۔

مجھے یقین ہے کہ گرو نانک دیو جی کے آشیرواد سے ہم ان عزائم  کو ضرور پورا کریں گے، اور ملک ایک نئی بلندی پر پہنچے گا۔ آخر میں، میں ان زائرین سے بھی ایک گزارش کرنا چاہوں گا جو لکھپت صاحب کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔ اس وقت کچھ میں رن اتسو چل رہا ہے۔ آپ کو بھی وقت نکال کر رَن اتسو میں ضرور جائیں۔

 

મુંજા કચ્છી ભા ભેણ કીં અયો ? હેવર સી કચ્છમે દિલ્હી, પંજાબ જેડો પોંધો હુધો ? ખાસો ખાસો સી મે આંજો અને આજે કુંટુંબજો ખ્યાલ રખજા ભલે પણ કચ્છ અને કચ્છી માડુ મુંજે ધિલ મેં વસેતા તડે આઉ કેડા પણ વાંજેડા પણ વેના કચ્છકે જાધ કરે વગર રહીં નતો સગાજે પણ આજોં પ્રેમ આય ખાસો ખાસો જડે પણ આંઉ કચ્છમેં અચીધોસ મણી કે મેલધોસ આ મેડી કે મુંજા જેજા જેજા રામ રામ….ધ્યાન રખીજા.

ساتھیوں،

رن اتسو کے دوران، پچھلے ڈیڑھ ماہ میں ، ایک لاکھ سے زیادہ سیاح کچھ کےخوبصورت نظاروں ، کھلے آسمان  سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہاں پہنچ چکے  ہیں۔ جب قوت ارادی ہو، لوگوں کی کوششیں ہوں تو زمین کیسے  یکسر تبدیل سکتی ہے، یہ میرے کچھ کے محنتی لوگوں نے کر کے دکھایا ہے۔ ایک وقت تھا جب کچھ کے لوگ روزی روٹی کے لیے پوری دنیا میں جایا کرتے تھے، آج پوری دنیا سے لوگ کچھ کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں دھولاویرا کو یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے وہاں سیاحت کو مزید فروغ  حاصل ہوگا۔ حکومت گجرات نے اب وہاں بھی ایک عظیم الشان ٹینٹ سٹی بنایا ہے۔ اس سے سیاحوں کی سہولت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اب رن کے درمیان دھورڈو سے دھولاویرا تک نئی سڑک کی تعمیر کا کام بھی تیز رفتاری سے جاری ہے۔ آنے والے وقت میں بھج اور مغربی کچھ سے کھڑیر اور دھولوویرا ایکسٹینشن تک سفر کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ اس  کا فائدہ کچھ کے لوگوں کو ہوگا، تاجروں، سیاحوں کو فائدہ ہوگا۔ کھاوڈا میں دوبارہ قابل تجدید توانائی پارک کی تعمیر بھی تیزی سے جاری ہے۔ اس سے پہلے مغربی کچھ اور بھوج سے دھولاویرا پہنچنے کے لیے بھچاؤ-راپر سے گزرنا پڑتا تھا۔ اب آپ کھاوڑا سے براہ راست دھولاویرا جا سکتے ہیں۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے نارائن سروور، کوٹیشور، ماتا کا مڑھ، حاجی پیر، دھورڈو و ٹینٹ سٹی، اور دھولاویرا، اس نئے راستے کی تعمیر سے ان تمام مقامات تک پہنچنا آسان ہوگا۔

ساتھیوں،

آج ہم سب کے قابل احترام اٹل جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ اٹل جی کو کچھ سے خاص لگاؤ ​​رہا ہے۔ زلزلہ کے بعد یہاں ہونے والے ترقیاتی کاموں میں اٹل جی گجرات کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے۔ آج جس طرح سے کچھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے اسے دیکھ کر اٹل جی جہاں کہیں بھی ہوں کے، وہ مطمئن ہونگے، خوش ہونگے ۔ مجھے یقین ہے کہ کچے پر ہمارے تمام معززین اور قابل احترام لوگوں کا آشیرواد ایسے ہی بنا رہے گا۔ ۔ ایک بار پھر آپ سب کو گرو پرو  بہت بہت مبارک ہو، بہت سی نیک خواہشات۔

بہت بہت شکریہ !   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ش ح ۔ رض  ۔ ج ا  (

U-14798