Search

پی ایم انڈیاپی ایم انڈیا

مزید دیکھیں

متن خودکار طور پر پی آئی بی سے حاصل ہوا ہے

قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آرسی )کے 28ویں یوم تاسیس کی تقریب کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

قومی انسانی حقوق  کمیشن (این ایچ آرسی )کے  28ویں یوم  تاسیس کی تقریب کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن


 

نمسکار!

 آپ سبھی کو نوراتری کے مقدس تہوار کی بہت بہت  نیک خواہشات !اس پروگرام میں میرے ساتھ موجود ملک کے وزیرداخلہ ، جناب امت شاہ  ، قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین جسٹس جناب ارون کمارمشرا ، وزیرمملکت برائے امور داخلہ جناب نتیہ نند  رائے  ، انسانی حقوق کمیشن  کے دیگرعزت مآب اراکین ، ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے سبھی سربراہان  ، سپریم کورٹ کے سبھی موجود  جج صاحبان ، اراکین ، یواین ایجنسیز کے سبھی نمائندے ، سول سوسائٹی سے منسلک دیگرسبھی تجربہ کارو سرکردہ شخصیات، بھائیو ں اوربہنوں!

آپ سبھی کو انسانی حقوق کے قومی  کمیشن کے 28ویں یوم تاسیس کی دلی مبارکباد ۔اس پروگرام کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہورہاہے جب ہمارا ملک ، ملک کی آزادی کا امرت مہوتسومنارہاہے ۔ بھارت کے لئے انسانی حقوق ، انسانی حقوق کا اقدارکا بہت بڑا وسیلہ آزادی کے لئے ہماری جدوجہد ہماری تاریخ ہے ۔ ہم نے صدیوں تک اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی ایک قوم کی حیثیت سے ایک سماج کی حیثیت سے نااضافی ، ظلم وزیادتی کی مزاحمت کی ۔ ایک  ایسے وقت میں جب پوری دنیا  پہلی جنگ عظیم کے تشدد سے جھلس رہی تھی ، بھارت نے پوری دنیا کوحقوق اور  عدم تشدد کا راستہ دکھایا۔ ہمارے محترم باپوکو دیش ہی نہیں بلکہ پوری دنیا حقوق انسانی اورانسانی اقدار کی علامت کے طورپر دیکھتی ہے ۔ یہ ہم سب کی خوش قسمتی ہے کہ آج امرت مہوتسوکے ذریعہ ہم مہاتماگاندھی کی ان اقدار اور اصولوں  کو اپنانے کا عہد لے رہے ہیں ۔ مجھے اطمینان ہے کہ قومی حقوق انسانی کمیشن بھارت کے ان اخلاقی عہد کو قوت دے رہاہے ، اپناتعاون دے رہاہے ۔

ساتھیو ،

بھارت آتم وت سروبھتیشو کے عظیم اقدار کولے کر خیالات کو لے کر چلنے والاملک ہے ۔آتم وت سروبھتیشو یعنی جیسا میں ہوں ویسے  ہی سبھی  انسان ہیں ۔ انسان انسان میں ، زندگی زندگی میں فرق نہیں ہے ، جب ہم اس نظریئے کو تسلیم کرتے ہیں تو ہرطرح کی خلیج بڑھ جاتی ہے ۔ تمام تنوع کے باوجود بھارت کے عوام نے اس نظرئیے کو ہزاروں سال سے اپنائے رکھا ہے ۔اسی لئے سیکڑوں برسوں کی غلامی کے بعد بھارت جب آزاد ہوا توہمارے آئین کے ذریعہ کی گئی برابری اور عوامی حقوق کے اعلان کو اتنی ہی آسانی سے تسلیم کیاگیا۔

ساتھیو،

آزادی کے بعد بھی بھارت نے لگاتاردنیا کو یکسانیت اورحقوق انسانی سے جڑے موضوعات پر نیا تصوردیاہے ، نیاویژن دیاہے ۔گذری دہائیوں میں ایسےکتنے ہی مواقع دنیا کے سامنے آئے ہیں  ، جب دنیا تذبذب کا شکارہوئی ہے اوربھٹکی ہے ۔ لیکن بھارت حقوق انسانی کے تئیں عہدبستہ رہاہے، حساس رہاہے ۔تمام چیلنجوں کے باوجود ہماری یہ عقیدت ہمیں اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ بھارت حقوق انسانی کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ایک مثالی سماج کی تعمیر کام بھی اسی کرتارہے گا۔

ساتھیو ،

آج ملک ، سب کا ساتھ ، سب کاوکاس ، سب کاوشواس اورسب کا پریاس ، کے منترپرچل رہاہے یہ ایک طرح سے حقوق انسانی کو یقینی بنانے کا ہی بنیادی جذبہ ہے ، اگرحکومت کوئی اسکیم شروع کرے اوراس کا فائدہ کچھ کو ملے ، کچھ کو نہ ملے توحقوق کا موضوع سامنے آئے  گا۔اوراس لئے ہم ہراسکیم کا فائدہ ، سبھی تک پہنچے ، اس ہدف کو لے کرچل رہے ہیں ۔ جب بھید بھاو نہیں ہوتا ، جب جانب داری نہیں ہوتی ، شفافیت کے ساتھ کام ہوتاہے ، تو عام انسان کے حقوق بھی یقینی ہوتے ہیں ۔ اس 15اگست کو ملک سے بات کرتے ہوئے میں نے اس بات پرزوردیاہے کہ اب ہمیں بنیادی سہولیات کو صدفیصد سیچوریشن تک لے کرجاناہے ۔یہ صد فیصد سیچوریشن کی مہم ، سماج کی آخری قطارمیں ، جس کا ابھی ہمارے  ارون مشراجی نے ذکرکیا ، آخری قطارمیں کھڑے اس شخص کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے ہے جسے پتہ تک نہیں ہے کہ یہ اس کا حق ہے ۔ وہ کہیں  شکایت کرنے نہیں جاتا ، کسی کمیشن میں نہیں جاتا ۔ اب حکومت غریب کے گھرجاکر ، غریب کو سہولیات سے جوڑ رہی ہے ۔

ساتھیو ،

جب ملک کاایک بڑا طبقہ اپنی ضروریات کو پوراکرنے میں ہی جدوجہد کرتارہے گا ، تو اس کے پاس اپنے حقوق اوراپنی امنگوں کے لئے کچھ کرنے کا نہ تووقت بچے گا ، نہ توانائی اورنہ ہی خواہش ۔ اور ہم سم جانتے ہیں کہ غریب کی زندگی میں ہم اگر باریکی سے دیکھیں توضرورت ہی اس کی زندگی ہوتی ہے اورضرورت کو پوراکرنے کے لئے وہ اپنا ایک ایک لمحہ ، جسم کا ایک ایک ریشہ کھپاتارہتاہے ۔ اورجب ضرورتیں پوری نہ ہوں  تب تک توحقوق کے معاملے تک وہ پہنچ ہی نہیں پاتاہے ۔جب غریب اپنی بنیادی سہولیات ، اورجس کا ابھی امت بھائی نے بڑی تفصیل سے ذکرکیا ، جیسے بیت الخلاء ، بجلی ، صحت کی فکر ، علاج کی فکر ، ان سب سے جوجھ رہاہو اور کوئی اس کے سامنے جاکر اس کے حقوق کی فہرست گنانے لگے تو غریب  سب سے پہلے یہی پوچھے گا کہ کیایہ حقوق  اس کی ضرورتوں کو پوراکرپائیں گے ۔ کاغذ میں درج حقوق کو غریب تک پہنچانے کے لئے پہلے اس کی ضروریات کو پوراکرنا بہت ضروری ہے ۔جب ضروریات پوری ہونے لگتی ہیں تو غریب اپنی توانائی حقوق کی طرف لگاسکتاہے ۔ اپنے حقو ق مانگ سکتاہے اورہم سب اس بات سے بھی واقف ہیں کہ جب ضرورت پوری ہوتی ہے ، حقوق کے تئیں ، ہوشمندی آتی ہے تو پھر امنگیں بھی اتنی ہی تیزی سے بڑھتی ہیں ۔ یہ امنگیں جتنی مضبوط ہوتی ہیں ، اتنا ہی غریب کو غریبی سے باہر نکلنے کی طاقت ملتی ہے ۔ غریبی کے چکرسے باہر نکل کر وہ اپنے خواب پوراکرنے کی سمت بڑھنے لگتاہے ۔ اس لئے جب غریب کے گھربیت الخلابنتاہے اس کے گھر بجلی پہنچتی ہے ، اسے گیس کنکشن ملتاہے ، تو یہ صرف ایک اسکیم کا اس تک پہنچنا ہی نہیں ہوتا۔یہ اسکیمیں اس کی ضرورت پوری کررہی ہیں ، اسے اپنے حقوق کے تئیں بیدارکررہی ہیں ، اس میں امنگیں جگارہی ہیں ۔

ساتھیو ،

غریب کو ملنے والی سہولتیں اس کی زندگی میں وقا ر لارہی ہیں اس کی عزت بڑھارہی ہیں جو غریب کبھی کھلے میں رفع حاجت کے لئے مجبورتھا اب جب غریب کو بیت الخلاء ملتا ہے تواسے وقار بھی حاصل ہوتاہے جو غریب کبھی بینک کے اندرجانے کی ہمت  نہیں کرپاتاتھا اس غریب کو جب جن دھن کھاتا کھلتاہے تواس میں حوصلہ پیداہوتاہے اور اس کے وقار میں اضافہ ہوتاہے جو غریب کبھی ڈیبٹ کارڈ کے بارے میں سوچ بھی نہیں پاتاتھا اس غریب کو جب روپے کارڈ ملتاہے ، جیب میں روپے کارڈ ہوتاہے تواس کے وقار میں اضافہ ہوتاہے ۔جوغریب کبھی گیس کنکشن  کے لئے سفارشوں پرمنحصرتھا ، اسے جب گھر بیٹے اجولاکنکشن ملتاہے تواس کی شان وشوکت بڑھتی ہے ، جن خواتین کو نسل درنسل املاک پرمالکانہ حق نہیں ملتاتھا ، جب سرکاری آواس یوجنا کا گھر ان کے نام پرہوتاہے تو ان ماؤں اوربہنوں کی شان بڑھتی ہے ۔

ساتھیو،

گذشتہ سالوں میں ملک نے الگ الگ  شعبے میں علیحدہ علیحدہ سطح پرہورہی ناانصافی کو بھی دورکرنے کی کوشش کی ہے کئی دہائیوں سے مسلم خواتین تین طلاق کے خلاف قانون کامطالبہ کررہی تھیں ہم نے تین طلاق کے خلاف قانون بناکر مسلم خواتین کو نیاحق دیاہے مسلم خواتین کو حج کے دوران  محرم کے بغیر حج کرانے کاکام بھی ہماری حکومت نے کیاہے ۔

ساتھیو،

بھارت کی خواتین کی طاقت کے سامنے آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی مختلف مشکلات حائل ہیں بہت سے سیکٹروں میں ان کے داخلے پرپابندی عائد بھی خواتین کے ساتھ ناانصافی ہورہی تھی آج خواتین کے لئے مختلف سیکٹروں کو کھولاگیاہے وہ 24گھنٹے حفاظت کے ساتھ کام کرسکیں اس بات کو یقینی بنایاجارہاہے ۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک ایسا نہیں کرپارہے ہیں لیکن بھارت آج کیریئر  وومین کو26 ہفتے کی پیڈ میٹرنٹی چھٹیاں د ےرہاہے ۔

ساتھیو ، جب اس خاتون کو 26 ہفتے کی چھٹی ملتی نا وہ ایک طریقے سے نوزائیدہ بچے کے حق کا تحفظ کرتاہے اس کا حق  ہے اس کی ماں کے ساتھ زندگی گذارنے کا وہ حق اس کو ملتاہے شاید ابھی تک توہمارے قانون کی کتابوں  میں یہ ساری باتیں نہیں آئی ہوں گی ۔

 

ساتھیو،

پچھلے سالوں میں بیٹیوں کے تحفظ سے متعلق بہت سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ملک کے 700 سے زیادہ اضلاع می ںون اسٹاف سینٹرس چل رہے ہیں جہاں ایک ہی جگہ پرخواتین کو طبی امداد پولیس ، تحفظ ، نفسیاتی سماجی کونسلنگ قانونی مدد ، اور غیرمستقل رہائش دی جاتی ہے خواتین کے ساتھ ہونے والے جرائم کی جلد سے جلد سماعت ہو، اس کے لئے ملک بھر میں ساڑھے 600سے زیادہ فاسٹ ٹریک کورٹ بنائی گئی ہیں ۔

عصمت دری جیسے گھناؤنے جرائم کے لئے موت کی سزاکا التزام کیاگیاہے میڈیکل ٹرمینیشن آف  پریگنینسی  ایکٹ اس میں ترمیم کرکے خواتین کواب اسقاط حمل سے جڑی آزادی دی گئی ہے محفوظ اورقانونی ابارشن کا راستہ ملنے سے خواتین کی زندگی پرخطرہ بھی کم ہواہے ۔ اورظلم وستم سے بھی نجات ملی ہے اوربچوں سے جڑے جرائم پرلگام لگانے کے لئے بھی قانون کو سخت کیاگیاہے ۔ نئی فاسٹ ٹریک کورٹس بنائی گئی ہیں ۔

 

ساتھیو!

ہمارے دویانگ بھائی-بہنوں کی طاقت کیا ہے، یہ ہم نے حال ہی میں منعقدہ پیرالمپک میں پھر سے محسوس کیا ہے۔ گذشتہ برسوں میں دویانگوں کو باختیار بنانے کے لیے بھی قانون بنائے گئے ہیں۔ ان کو نئی سہولیات سے جوڑا گیا ہے۔ ملک بھر میں ہزاروں عمارتوں کو، عوامی بسوں کو، ریلوے کو دویانگوں کے لیے سہل بنایا گیا ہے۔ تقریباً 700 ویب سائٹس کو دویانگوں کے مطابق تیار کرنا ہو، دویانگوں کو سہولت پہنچانے کے لیے خصوصی سکے جاری کرنا ہو، کرنسی نوٹ بھی آپ میں سے شاید کئی لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا، اب جو ہماری نئی کرنسی ہے اس میں  وہ دویانگ یعنی جنہیں بینائی سے متعلق عارضہ لاحق ہے(بینائی سے محروم افراد)ہمارے بھائی –بہن ہیں ، وہ اسے چھوُ کر یہ طے کرسکتے ہیں کہ اس نوٹ کا قدرو قیمت کیا ہے، اس کی مالیت کتنی ہے۔ یہ انتظامات کیے گئے ہیں۔ تعلیم کے تعلق سے اسکلس، اسکلس سکھانے والے(ہنرمند بنانے والے)سے لے کر کئی ادارے  اور خصوصی نصاب بنانا ہو۔ اس پر گذشتہ برسوں میں بہت زور دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، کئی طرح کی بولیاں ہیں اور اسی طرح کا معاملہ اشاروں کی زبان کا بھی تھا۔ گونگے اور بہرے جو افراد ہیں۔ اگر وہ گجرات میں کسی طرح کے اشاروں کی زبان کو سمجھنا چاہتا ہے تو مہاراشٹر میں وہ  اشارے الگ ہوجاتے ہیں، گوا میں الگ اور تمل ناڈو میں مختلف ہوجاتے ہیں۔ بھارت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پورے ملک کے لیے اشاروں کی ایک ہی زبان کا انتظام کیا۔ اسے قانونی طریقے سے انجام دیا گیا اور اس کی پوری ٹریننگ کا بھی نظم کیا گیا۔ یہ سب ان کے حقوق کے تحفظ اور ان کے تئیں فکر اور حساسیت کا نتیجہ ہے۔ حال ہی میں ملک کی پہلی سائن لینگویج ڈکشنری اور آڈیو بک کی سہولت ملک کے لاکھوں دویانگ بچوں کو دی گئی ہے۔ جس سے وہ ای-لرننگ سے جڑ سکیں۔ اس بار جو نئی قومی تعلیمی پالیسی کو تیار کیا گیا  ہے اس میں بھی اس بات پر خاص طور پر توجہ دی گئی ہے۔ اسی طرح خواجہ سراؤں کو بھی بہتر سہولیات  اور مساوی مواقو دینے کے لیے خواجہ سراؤں کے حقوق و تحفظ سے متعلق قانون بنایا گیا ہے۔ خانہ بدوشوں اور نیم خوانہ بدوش برادریوں کے لیے بھی ڈویلپمنٹ اور ویلفیئر بورڈ کی تشکیل کی گئی ہے۔ لوک عدالتوں کے ذریعہ سے ، لاکھوں پرانے کیسوں کا تصفیہ ہونے سے عدالتوں کو بوجھ بھی کم ہوا ہے، اور باشندگان ملک کو بھی بہت مدد ملی ہے۔ یہ ساری کوششیں، معاشرے میں ہو رہی ناانصافی اور نابرابری کو دور کرنے میں بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔

ساتھیو!

ہمارے ملک نے کورونا کی اتنی بڑی وبا کا سامنا کیا۔ صدی کی اتنی بڑی  تباہی اور آفت، جس کے  آگے دنیا کے بڑے بڑے ممالک بھی ڈگمگا گئے۔ پہلے کی وبا کا تجربہ ہے کہ ، جب اتنی بڑی مصیبت آتی ہے، اتنی بڑی آبادی ہو تو اس کے ساتھ معاشرے میں بھی خلفشار پیدا ہوتا ہے ، لوگوں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ملک کے عام لوگوں کے حقوق کے لیے، بھارت نے جو کیا ، اس نے تمام خدشات کو غلط ثابت کر دیا ۔ ایسے مشکل وقت میں بھی بھارت نے اس بات کی کوشش کی کہ ایک بھی غریب  کو بھوکا نہیں رہنا پڑے۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک جو نہیں کر پار ہے وہ بھارت نے کر دکھایا۔ آج بھی بھارت 80 کروڑ لوگوں کو مفت میں اناج مہیا کرایا جا رہا ہے۔ بھارت نے کورونا کی وبا کے دوران  غریبوں ، بے سہاروں، بزرگوں  کو راست طریقے سے ان کے کھاتوں میں مالی مدد فراہم کرائی گئی۔ مہاجر مزدوروں کے لیے ‘ون نیشن ون راشن کارڈ’ کی سہولت بھی شروع کی گئی ہے۔ تاکہ وہ ملک میں کہیں بھی جائیں ، انہیں راشن کے لیے بھٹکنا نہ پڑے۔

بھائیوں اور بہنوں،

انسانی جذبات اور حساسیت کو سب سے مقدم رکھتے ہوئے ، سب کو ساتھ لے کر چلنے کے ایسی کوششوں نے ملک کے چھوٹے کسانوں کو بہت مضبوط کیا ہے۔ آج ملک کے کسان کسی تیسرے فریق سے قرض لینے پر مجبور نہیں ہیں، ان کے پاس کسان سمان نیدھی کی طاقت ہے، فصل بیمہ یوجنا ہے، انہیں بازار سے جوڑنے والی پالیسیاں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں بھی ملک کے کسان ریکارڈ فصلوں کی پیداوار کر رہے ہیں۔ جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ ان علاقوں میں آج ترقی کی روشنی پہنچ رہی ہے، یہاں کے لوگوں کی زندگی کی سطح کو بہتر بنانے کی سنجیدگی سے کوششیں کی جا رہی  ہیں۔ یہ کوششیں، انسانی حقوق کو بھی اتنی ہی تقویت بخش ر ہی ہیں۔

ساتھیو!

انسانی حقوق سے جڑا ایک اور پہلو ہے، جس کی بات میں آج کرنا چاہتا ہوں۔ حال کے برسوں میں انسانی حقوق کی تشریح کچھ لوگ اپنے اپنے طریقے سے، اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنے لگے ہیں۔ ایک ہی طرح کی کسی واقعہ میں کچھ لوگوں کو انسانی حقوق کی پامالی نظر آتی ہے اور ویسے ہی کسی دوسرے واقعہ میں ان ہی لوگوں کو انسانی حقوق کی پامالی نہیں نظر آتی۔ اس طرح کی ذہنیت بھی انسانی حقوق کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ انسانی حقوق کی بہت زیادہ پامالی تب ہوتی ہے جب اسے سیاسی نظریے سے دیکھا جا تا ہے، سیاسی نظریے سے دیکھا جا تا ہے، سیاسی نفع نقصان کے ترازو سے تولا جا تا ہے۔ اس طرح کا منتخب سلوک ، جمہوریت کے لیے بھی اتنا ہی نقصاندہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ہی چنندہ سلوک کرتے ہوئے کچھ لوگ انسانی حقوق کی پامالی کے نام پر ملک کی شبیہ کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بھی ملک کو ہوشیار رہنا ہے۔

ساتھیو!

آج جب دنیا میں انسانی حقوق کی باتیں ہوتی ہیں، تو اس کا مرکز انفرادی حقوق ہوتے ہیں، شخصی حقوق ہوتے ہیں۔ یہ ہونا بھی چاہیے۔ کیوں کہ فرد سے ہی معاشرے کی تعمیر ہوتی ہے، اور سماج سے ہی ملک بنتے ہیں۔ لیکن بھارت اور بھارت کی روایت  نے صدیوں سے اس سوچ کو ایک نئی اونچائی دی ہے۔ ہمارے یہاں صدیوں سے شاشتروں میں بار بار اس بات کا ذکر کیا جا تا ہے۔ آتمن: پرتی –کولانی پریشام نہ سماچاریتیہ ۔ یعنی جو اپنے لیے نا معقول ہو وہ سلوک کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ  کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی حقوق محض حقوق سے ہی نہیں جڑا ہوا ہے بلکہ یہ ہمارے فرائض کا موضوع بھی ہے۔ ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے بھی حقوق کی فکر کریں، دوسروں کے حقوق کو اپنا فرض سمجھیں ، ہم ہر فرد کے ساتھ ‘سم –بھاؤ’ (یکساں سلوک)اور ‘مم-بھاؤ(فطری احساس)رکھیں۔ جب معاشرے میں یہ چیز غالب آ جاتی ہے تو انسانی حقوق ہمارے معاشرے کا زندگی کا فلسفہ بن جاتا ہے۔ حقوق اور فرائض ، یہ دو ایسی پٹریاں ہیں ، جن پر انسانی ترقی اور انسانی وقار کا سفر جاری  و ساری رہتا ہے۔ حقوق جنتا ضروری ہے ، فرائض بھی اتنے ہی ناگزیر ہیں۔ حقوق اور فرائض کی بات الگ الگ نہیں ہونی چاہیے، ایک ساتھ ہی کی جانی چاہیے۔ یہ ہم تمام کا احساس ہے کہ ہم جتنا فرائض پر زور دیتے ہیں اتنا ہی حقوق یقینی ہوتا ہے۔ اس لیے ملک کا ہر شہری ، اپنے حقوق کے تئیں بیدار رہنے کے ساتھ ہی ، اپنے فرائض کو اتنی ہی سنجیدگی سے ادا کرے ، اس کے لیے بھی ہم سب نے مل کر مسلسل کوششیں کرنی پڑیں گی۔ مسلسل ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔

ساتھیو!

یہ بھارت ہی ہے جس کی تہذیب ہمیں فطرت اور ماحولیات کی فکر کرنا بھی سکھاتی ہے۔ پودے میں پرماتما یہ ہماری تہذیب کا خاصہ ہے۔ اس لیے، ہم صرف موجودہ دور کی فکر نہیں کر رہے ہیں ، ہم مستقبل کو بھی ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ ہم مسلسل دنیا کو آنے والی نسلوں کے انسانی حقوق کے تئیں بھی آگاہ کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی شمسی اتحاد ہو، قابل تجدید توانائی کے لیے بھارت کے اہداف ہوں، ہائیڈروجن مشن ہو، آج بھارت پائیدا ر زندگی اور ماحولیات کے لیے سازگار ترقی کے سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ میری خواہش ہوگی کہ انسانے حقوق کی سمت میں کام کر رہے ہمارے سرکردہ افراد، سول سوسائیٹی کے لوگ ، اس سمت میں اپنی کوششوں میں مزید اضافہ کریں۔ آپ سب کی  یہ کوششیں  لوگوں کے حقوق کے ساتھ ہی،ا نہیں  فرائض کے تئیں راغب کرنے کی طرف  مائل کریں گی۔ ان ہی نیک خواہشات کے ساتھ، میں اپنی بات مکمل کرتا ہوں۔آپ تمام ہی حضرات کا بہت بہت شکریہ!

****************

ش ح س ک

U. NO. 9985